Showing posts with label Independence Day. Show all posts
Showing posts with label Independence Day. Show all posts

Saturday, August 15, 2015

Independence prestigious events around the country ..





















Hum barson baad kahan khray hain,, By Abdul Qadir Hassan ..


Indian Independence Day ..


Maryam Nawaz says ..


Exhibition Match,, Army vs Pakistan Eleven ..


Happy Independence Day ..

Friday, August 14, 2015

Pakistan's national Anthem ..

13 اگست 1954ء کو پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا
پاکستان کے قومی ترانہ کی دھن 21 اگست 1949ء کو منظور ہوئی تھی اور اسے پہلی مرتبہ یکم مارچ 1950ء کو پاکستان میں ایران کے سربراہ مملکت کی آمد پر بجایا گیا تھا۔ 5 جنوری 1954ء کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے اس دھن کو سرکاری طور پر قومی ترانہ قرار دے دیا
اب اگلا مرحلہ اس دھن کے حوالے سے الفاظ کے چناؤ کا تھا چنانچہ ملک کے تمام مقتدر شعرائے کرام کو اس ترانے کے گرامو فون ریکارڈز بھی بھجوائے گئے اور ہر رات ایک مخصوص وقت پر ریڈیو پاکستان سے اس ترانے کے نشر کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا تاکہ وہ اس کی دھن سے ہم آہنگ ترانہ تحریر کر سکیں
جواباً قومی ترانہ کمیٹی کو مجموعی طور پر 723 ترانے موصول ہوئے۔ ان ترانوں میں سے قومی ترانہ کمیٹی کو جو ترانے سب سے زیادہ پسند آئے وہ حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کے لکھے ہوئے ترانے تھے۔ 4 اگست 1954ء کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے جناب حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کر لیا۔ 13 اگست 1954ء کو یہ ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا
(اس کی دھن احمد جی چھاگلہ نے ترتیب دیجسکا کل دورانیہ 80 سیکنڈ پر محیط ہے)(قومی ترانے کی منظوری دینے والی کمیٹیچیرمینجناب ایس ایم اکرام،ارکانسردار عبد الرب نشترپیر زادہ عبدالستارپروفیسر چکراورتیچودھری نذیر احمد خانزیڈ اے بخاریاے ڈی اظہرکوی جسیم الدینابو الاثر حفیظ جالندھری

Pakistan Flag ..

پاکستانی پرچم


پرچم قوم کی عزت اور جاہ و جلال کا نشان ہوتا ہے پاکستانی پرچم کا خاکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر امیرالدین قدوائی نے ڈیزائن کیا تھا، پاکستانی پرچم کی ساخت اور رنگوں کی مناسبت یوں ہے کہ پرچم کا بڑا سبز حصہ مسلم تشخص کو اجاگر کرتا ہے اور چھوٹا سفید حصہ اقلیتوں کی نمائندگی ظاہر کرتا ہے ہلال ترقی کی علامت ہے جبکہ ستارہ روشنی اور علم کا نشان ہے، پہلے قومی پرچم ساز کی تلاش کے لیے مرحوم حکیم محمد سعید اور معروف شاعر جمیل الدین عالی اور دیگر اکابرین نے بھی اخبارات میں کالموں، مراسلات اور بیانات کے ذریعے کھوج لگانے کی اپیل کی تھی اور ان کی کوششوں سے دو نام سامنے آئے کہ جون1947ء کو پاکستان کا پہلا پرچم تیار کرنے والے دو بھائی ٹیلر ماسٹر افضال حسین اور ان کے چھوٹے بھائی ماسٹر الطاف حسین تھے۔جمیل الدین عالی نے 2004ء میں ’’پاکستانی پرچم ساز کون ‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں ماسٹر افضال حسین کو قومی پرچم ساز قرار دیا لیکن انھوں نے ماسٹر الطاف حسین کے بیٹے کے خط کا بھی ذکر کیا کہ بقول ظہور الحسن ان کے والد ماسٹر الطاف حسین نے پہلا قومی پرچم تیار کیا ہے عالی جی نے اس خط کا اپنے اگلے کالم میں تذکرہ کرتے ہوئے صحافیوں سے اس معاملے کی تحقیق کرکے کھوج لگانے کی بھی اپیل کی تھی، 8 مئی 1979ء کو صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق کراچی کے دورے پر آئے تو ان سے ماسٹر افضال حسین نے ملاقات کی۔صدر مملکت نے انھیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس) اور مراعات دینے کا اعلان کیا اور انھیں 5 ہزار روپے نقد بطور انعام دیے اس سلسلے میں افضال حسین کا انٹرویو پہلی بار 19 اگست 1979ء کو مقامی اخبار میں شائع ہوا اس وقت ان کے چھوٹے بھائی الطاف حسین انتقال کرچکے تھے۔ماسٹر افضال حسین کے انٹرویو کا یہ جملہ قابل غور ہے کہ ’’میں نے جلدی سے پیمائش اور رنگوں کے تناسب سے کپڑے کی تراش خراش کرکے الطاف حسین کو دیا جسے انھوں نے سی دیا‘‘، یکم دسمبر1979ء کے روزنامہ جسارت میں مرحوم ماسٹر الطاف حسین کی بیوہ شکیلہ بیگم کی جانب سے بیان شایع ہوا کہ ’’پاکستان کا پہلا پرچم میرے مرحوم شوہر نے تیار کیا تھا‘‘ شکیلہ بیگم نے بعد ازاں صدر مملکت اور ارباب اختیار کو خطوط کے ذریعے آگاہ کیا، سرکاری سطح پر تحقیقات ہوئی کئی محکموں کے افسران اور پاک فوج کے افسر انکوائری کے لیے ان کے گھر آئے اور دستاویزات اور لائف میگزین میں چھپنے والی ماسٹر الطاف حسین کی تصویر دیکھی، جس پر ماسٹر افضال حسین کو صدارتی تمغہ دینے کی کارروائی سرخ فیتے کی نذر ہوگئی۔بعدازاں ماسٹر افضال حسین نے مقامی اخبار کو 19 دسمبر 1979ء کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ قومی پرچم سینے کی خدمت پر میرے لیے اعلان کردہ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سرخ فیتے کا شکار ہوگیا ہے انھوں نے اس وقت صدر پاکستان اور حکومتی اکابرین کو تفصیلات پر مبنی خط بھی روانہ کیا، اسی سلسلے میں 8 اگست 1981 کو ان کا بیان مقامی اخبار میں شائع ہوا کہ میں پیرانہ سالی اور ناسازی طبع کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر ہوں اور 3 سال گزرجانے کے باوجود حکومت نے اعلان کردہ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی مجھے عطا نہیں کیا۔پہلے قومی پرچم ساز کے تعین کے حوالے سے ماسٹر افضال حسین کی صاحبزادی قمر سلطانہ کے مطالبے کی خبر مقامی روزنامے میں 2 فروری 2000ء کو شایع ہوئی جس میں قمر سلطانہ نے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف سے ماسٹر افضال حسین کو بعداز مرگ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کا نام نصابی کتب میں بطور پہلے قومی پرچم ساز کے شامل کرنے کا مطالبہ کیا، چند روز قبل 9 اگست کو قمر سلطانہ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ماسٹر الطاف حسین کے بیٹے ہونے کے دعویدار ظہور الحسن نامی شخص کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظہور الحسن کا ہمارے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے چچا الطاف حسین کی کوئی اولاد نہیں تھی تو ظہور الحسن کس قسم کے دعوے کررہے ہیں ان کا یہ بیان مختلف اخبارات میں شایع ہوا ہے۔انھوں نے ارباب اختیار سے ظہور الحسن اور ان کے خونی رشتے داروں کے ڈی این اے کا مطالبہ کیا تاکہ سچ سامنے آسکے اور وہ آئندہ ایسے دعوے نہ کرسکے، ماسٹر الطاف حسین مرحوم کے بیٹے ظہور الحسن کے مطابق والد محترم نے پہلا قومی پرچم تحریک آزادی میں1947ء کے دوران دہلی گیٹ انڈیا میں تیار کیا والد نے ہجرت کے بعد حیدرآباد میں سکونت اختیار کی ان کی زندگی میں کسی نے پہلا پرچم ساز ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔امریکی جریدے لائف میگزین کے 18 اگست 1947ء کے شمارے میں شایع ہونے والی تصویر اس بات کا ثبوت ہے اس حوالے سے تایا ماسٹر افضال حسین کو قومی پرچم ساز ظاہر کرتے ہوئے پاکستان کے بعض اخبارات نے مضامین شایع کیے ہیں، اس حوالے سے تحریک نظریہ پاکستان کے صدر بیرسٹر ثمین خان نے 30 اکتوبر 2008ء کو پریس کانفرنس میں وضاحت کی کہ پاکستان کا پہلا قومی پرچم ماسٹر الطاف حسین نے تیار کیا تھا، ثمین خان کے مطابق میری موجودگی میں لائف میگزین کی فوٹو گرافر مارگریٹ نے دہلی انڈیا میں سیر کے دوران ماسٹر الطاف حسین کی دکان پر پرچم سیتے ہوئے تصویر اتاری اور یہی تصویر لائف میگزین میں شائع ہوئی۔معروف شاعر محسن بھوپالی نے بھی مقامی اخبار کو 20 اکتوبر 2004ء میں مراسلہ بھیجا جس میں انھوں نے واضح کیا کہ 1958ء تا 1968ء تک ان کی حیدرآباد کے علاقے ہیر آباد میں رہائش رہی ماسٹر الطاف حسین کی درزی کی دکان (ٹیلر شاپ) پر صاحب علم شخصیات سے ملاقات رہتی تھی، ماسٹر الطاف حسین پاکستانی پرچم کی تیاری کا ذکر جذباتی انداز میں کرتے اور ساتھ ہی پرچم کی تیاری پر مبنی امریکی میگزین لائف میں چھپنے والی اپنی تصویر دکھاتے تھے،پہلے قومی پرچم ساز کے تعین کا معاملہ ہنوز التوا کا شکار ہے اور حکومتی سطح پر اب تک پاکستان کے پہلے قومی پرچم ساز کا اعلان نہیں ہوسکا ہے۔

پاکستانی سائسندان ۔ پاکستانی ایٹم بم کے خالق عبد القدیر خان ..

عبد القدیر خان

پاکستانی سائسندان۔پاکستانی ایٹم بم کے خالق۔ہندوستان کے شہر بھوپال میں ایک اردو بولنے والے پشتون گھرانے میں پیدا ہوئے۔عبد القدیر خان پندرہ برس یورپ میں رہنے کے دوران مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان لوٹ آۓـعبد القدیر خان ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 31 مئی 1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملکر "انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز" میں پاکستانی ایٹمی پروگرام کے واسطے شمولیت اختیار کی ـبعدازاں اس ادارے کا نام صدریاکستان جنرل محمدضیاءالحق نے یکم مئ 1981ءکو تبدیل کرکے ’ ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز‘ رکھ دیا۔ یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
جدید روایتی میزائل کا معائنہ کرتے ہوئے
جدید روایتی میزائل کا معائنہ کرتے ہوئے
جدید روایتی میزائل کا معائنہ کرتے ہوئے
عبد القدیر خان پر ہالینڈ کی حکومت نے غلطی سے اہم معلومات چرانے کے الزام میں مقدمہ دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسروں نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے عبد القدیر خان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے وہ عام کتابوں میں موجود ہیںـ جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت عالیہ نے ان کو باعزت بری کردیاـ
عبد القدیر خان وه مایه ناز سائنس دان هیں جنهوں نے آٹھ سال کے انتهائ قلیل عرصه میں انتھک محنت و لگن کیساتھ ایٹمی پلانٹ نصب کرکے دنیا کے نامور نوبل انعام یافته سائنس دانوں کو ورطه حیرت میں ڈالدیا. مئ 1998ء کوآپ نے بھارتی ایٹمی تجربوں کے مقابله میں وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے تجرباتی ایٹمی دھماکے کرنے کی درخواست کی ـ بلآخر وزیراعظم میاں محمد نوازشریفنے چاغی کے مقام پر چھ کامیاب تجرباتی ایٹمی دھماکے کۓ ـ اس موقع پر عبد القدیر خان کا پورے عالم کو پیغام که هم نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنادیا. یوں آپ پوری دنیا میں مقبول عام هوۓ. سعودی مفتی اعظم نے عبد القدیر خان کو اسلامی دنیا کا هیرو قرار دیا اور. پاکستان کیلیۓ خام حالت میں تیل مفت فراهم کرنے کا فرمان جاری کیا. اسکے بعد سے پاکستان کو سعودیه کی جانب سے خام تیل مفت فراهم کیا جارها هے. مغربی دنیا نے پرپیگنڈا کے طور پر پاکستانی ایٹم بم کو اسلامی بم کا نام دیا جسے ڈاکٹرعبدالقدیرخان نے بخوشی قبول کرلیا. پرویزمشرف دور میں پاکستان پر لگنے والے ایٹمی مواد دوسرے ممالک کو فراهم کرنے کے الزام کو ڈاکٹرعبدالقدیر نے ملک کی خاطر سینے سے لگایا اور نظربند رهے. انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ہیں ـ
1993ء میں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔
فاروق لغاری سے نشان امتیاز حاصل کرتے ہوئے
چودہ اگست 1996ء میں صدر فاروق لغاری نے ان کو پاکستان کا سب سے بڑا سِول اعزاز نشانِ امتیاز دیا جبکہ 1989ء میں ہلال امتیاز کا تمغا بھی انکو عطا کیا گیا
ڈاکٹرعبدالقدیر خان نےسیچٹ sachet کے نام سے ایک فلاحی اداره بنایا ـ جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم عمل هے.
ڈاکٹرعبدالقدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔

Quaid-e-Azam ..

قائداعظم کامیاب مسلمان اور سیاستدان تھے۔ انہوں نے جو چاہا‘ وہ پایا۔ ان کے سیاسی حریف انگریز سرکار اور ہندو قیادت تھی۔ جو متحدہ ہندوستان کی حامی اور قیام پاکستان کی دشمن تھی۔ قائداعظم نے جداگانہ قومیت کی بنیاد پر متحدہ قومیت کے تصور کو رد کیا۔ گاندھی، نہرو، ماﺅنٹ بیٹن اور اٹیلی ہارے اور قائداعظم جیتے۔ قائداعظم کی کامیابی کے قائل حریف اور حلیف، دوست اور دشمن سب ہیں۔ برطانوی صحافی بیورلے نکلس اپنی کتاب ”محکامہ ہند“ میں قائداعظم سے ملاقات کو ”ایک دیوقامت شخص سے مکالمہ“ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”میں نے مسٹر جناح کو ایشیا کا اہم ترین شخص قرار دیا ہے .... آئندہ چند سالوں میں ہندوستان دنیا کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بنتا دکھائی دیتا ہے اور مسٹر جناح کو، اس ضمن میں، یکتا حربی مدبر کی اہمیت حاصل ہو گی۔ وہ جس طرح چاہے جنگ کا پانسا پلٹ دے گا۔ اس کے حکم پر دس کروڑ مسلمان مارچ کریں گے۔ اگر وہ کہے کہ بائیں چلو تو بائیں چلیں گے اور اگر کہے کہ دائیں چلو تو دائیں چلیں گے اگر وہ کہے کہ عقب میں رہو تو وہ عقب میں رہیں گے۔ وہ کسی بھی دوسرے کے کہے پر ایسا نہیں کریں گے۔ یہ ہے اصل نقطہ۔ مگر ہندوﺅں کی صفوں میں ایسا نہیں ہے (وہاں کسی کو یکتا حیثیت حاصل نہیں) اگر گاندھی چلے جائیں تو لازماً نہرو موجود یا راج گوپال اچاریہ یا پٹیل یا درجن بھر دوسرے لیکن اگر جناح چلے جائیں تو ”کون جگہ لے گا“ قائداعظم دشمن کے لئے یکتا اور تنہا تھے۔ ”تقسیم عظیم“ کے مصنف ہڈسن لکھتے ہیں کہ ”قائداعظم کا قوم پرستی سے ”مسلم“ پرستی کا سفر یا تبدیلی کسی مادی ہوس پر مبنی نہ تھی۔ انہوں نے اسلامی قومیت کی بنیاد پر ہندوستانی وحدت کو فنا کر دیا۔ جناح پر اس کے سیاسی دشمنوں نے بھی کبھی بددیانت اور خودغرض ہونے کا الزام نہیں لگایا۔ قائداعظم کو کوئی بھی اور کسی قیمت پر خرید نہیں سکتا۔ وہ عوامی مقبولیت کے لئے سیاسی موقف نہیں بدلتے تھے۔ قائداعظم کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نظریاتی تصور کو عملی اور عوامی تحریک بنایا اور دس کروڑ ہندی مسلمانوں کو اسلامی ریاست پاکستان کا امین اور محافظ بنایا۔ ہندو قیادت نے انگریز کی سرکاری سرپرستی میں جداگانہ قومیت کو بے معنی اور مہمل بنانے کے لئے مسلم رابطہ مہم کا آغاز کیا جس نے اے این پی کے سرحدی گاندھی (عبدالغفار خان) سندھ پرست جی ایم سید اور متحدہ قومیت کے حامی مسلمان علماءکی ایک کھیپ تیار کی جس نے قائداعظم کی شخصیت، کردار اور مسلم لیگ کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کیا جس کا اثر پاکستانی عوام پر زیادہ اور ہندوستانی مسلم پر کم ہے۔ قیام پاکستان کے لئے سو فیصد ووٹ ہندوﺅں کے ساتھ رہنے والی مسلمان اقلیت نے دیا۔ مسلمان عوام اور قائدین قائداعظم کے اخلاص، ہمدردی، سیادت و فراست پر پختہ یقین رکھتے تھے۔قائداعظم کی شخصیت کا بنیادی پہلو یہ تھا کہ وہ پہلے مسلمان تھے اور بعدازاں سیاستدان۔ آپ کی سیاسی بصیرت قرآن و سنت سے ماخوذ تھی۔ جیسا کہ محمد مصطفیٰ کا فرمان ہے کہ اہل ایمان کی فراست سے ڈرو کہ نور الٰہی سے دنیا دیکھتے ہیں۔ قائداعظم کی اللہ و رسول سے محبت بچپن سے تھی۔ آپ نے پہلا مقدمہ مسلم اوقاف کا جیتا جس کے باعث ہندی مسلمانوں کو کروڑوں کی گم گشتہ جائیداد واپس ملی اور مولانا شبلی نے قائداعظم کی دینی بصیرت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی فقہ پر مکمل درک حاصل کئے بغیر یہ مقدمہ جیتا نہیں جا سکتا تھا۔ آباﺅ و اجداد نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ جب پاکستان بن گیا تو جھنڈا لہرانے کی سرکاری تقریب مولانا ظفر احمد عثمانی اور پنجاب میں مولانا احمد علی لاہوری نے جھنڈا لہرانے کی ذمہ داری ادا کی۔ قائداعظم ملی وحدت اور قرآن و سنت پر مبنی شرعی جمہوریت پر یقین رکھتے تھے۔ قائداعظم نے 17 اپریل 1948ءمیں کہا تھا کہ ”جو کچھ میں نے کیا، وہ اسلام کے ایک خادم کی حیثیت سے کیا اور میں نے فقط اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی قوت و استطاعت کے مطابق اپنی قوم کی حتی المقدور مدد کی ہے۔“

Abdul Sattar Edhi ki Khidmat ..

سماجی شعبے میں عبدالستار ایدھی کی خدماتپاکستان میں ایدھی فاؤنڈیشن کی فلاحی سرگرمیوں کا آغاز صرف پانچ ہزار روپے سے ہوا۔ آج ان فلاحی سرگرمیوں سے پاکستان بھر میں بے گھر، نادار اور انتہائی ضرورت مند لاکھوں افراد کی مدد کی جارہی ہے۔پاکستان میں فلاحی سرگرمیوں کا ذکر آئے تو عبدالستارایدھی کا نامضرور لیا جاتا ہے۔ وہ ملک کے دُور دراز علاقوں میں بھی مفلس و نادار افراد کی مدد کے لئے پیش پیش رہتے ہیں۔انسانیت کی خدمت کے لئے عبدالستار ایدھی کے کاموں کا دائرہ پاکستان بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ بعض دیگر ممالک میں بھی ان کے فلاحی کام جاری ہیں۔ تاہم ان کاموں کا آغاز پاکستان کےسب سے بڑے شہر کراچی سے ہوا۔ آج بھی عبدالستار ایدھی کی رہائش اسی شہر میں ہے۔ یہ شہر بلاشبہ عبدالستار ایدھی کا احسان مند ہے۔تقسیم ہندوستا ن کے بعد نفسا نفسی کے ابدتر دور میں ایدھی نے کراچی میں فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر لوگوں کی مدد کرنا شروع کی۔ انہوں نے بعدازاں اپنے بل بوتے پر فلاحی سرگرمیوں کو جاری رکھا اور 1951 میں ایک کلینک کی بنیاد رکھی۔ اس وقت یہ کام صرف پانچ ہزار روپے سے شروع ہوا۔خدمات کا اعترافانسانیت کے لئے عبدالستار ایدھی کی بے لوث خدمات پر انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا۔ 1980 کی دہائی میں پاکستانی حکومت نے انہیں نشان امتیاز دیا۔ پاکستانی فوج نے انہیں شیلڈ آف آنر پیش کی جبکہ 1992 میں حکومت سندھ نے انہیں سوشل ورکر آف سب کونٹی نینٹ کا اعزاز دیا۔بین الاقوامی سطح پر 1986 میں عبدالستار ایدھی کو فلپائن نے Ramon Magsaysay Award دیا۔ 1993 میں روٹری انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں پاؤل ہیرس فیلو دیا گیا۔ 1988 میں آرمینیا میں زلزلہ زدگان کے لئے خدمات کے صلے میں انہیں امن انعام برائے یو ایس ایس آر دیا گیا۔پاکستان میں بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ عبدالستار ایدھی نوبل امن انعام کے بھی حق دار ہیں۔ اس بارے میں کراچی میں ذرائع ابلاغ کے ماہر پروفیسر نثار زبیری نے کہا کہ کچھ برس قبل کراچی یونیورسٹی نے عبدالستار ایدھی کو نوبل امن انعام دیے جانے کی تحریری سفارش کی تھی۔ایدھی کی شخصیتمولانا عبدالستا ایدھی انتہائی سادہ انسان ہیں۔ اور یہ سادگی ان کے کپڑوں میں ہی نہیں بلکہ باتوں میں بھی جھلکتی ہے۔ سب سمجھتے کہ اس وسیع پیمانے پر فلاحی کاموں کو چلانے کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ تاہم عبدالستار ایدھی جیسے شکایت کرنا جانتے ہیں نہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ انہیں اپنے کاموں میں کبھی مشکلات کا سامنا نہیں کرپڑا۔ وہ یہ بھی کہتے کہ وہ کبھی دلبرداشتہ بھی نہیں ہوئی، نہ ہی انہیں قوم سے کوئی شکایات ہے۔ عبدالستار ایدھی کہتے ہیں پاکستانی عوام نے ہمیشہ ان کے ساتھ تعاون کیا اور انہوں نے پاکستانیوں کے علاوہ کبھی کسی سے چندہ نہیں لیا۔ایدھی فاؤنڈیشنعبدالستار ایدھی نے اپنی فلاحی سرگرمیوں کا دائرہ کار بڑھانے کے لئے ایدھی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اس کام کا آغاز ایک کمرے سے ہوا جو آج ملک بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک غیرمنافع ب‍خش ادارہ ہے اور فلاح سرگرمیوں کے لئے اس کا دائرہ کار پاکستان میں سب سے بڑا ہے۔ یعنی بڑے شہر اور چھوٹے دیہات، ایدھی کی سرگرمیوں کی جھلک ملک کے کونے کونے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ان کے ساڑھے تین ہزار کارکن اور ہزاروں رضاکار 24 گھنٹے بغیر کسی وقفے کے ان سہولتوں کی فراہمی میں مصروف رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ملک بھر میں اس کے مراکز کی تعداد 250 ہے جہاں لاوارث میتوں کے لئے مفت تدفین کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی ہیں جبکہ معذور، یتیم اور لاوارث بچوں کی نگہداشت کے مراکز چلائے جا رہے ہیں جن میں صرف یتیم بچوں کی تعداد ہی 50 ہزار ہے جبکہ ایدھی مراکز کے باہر رکھے گئے جھولوں کے ذریعے رد کئے گئے 20 ہزار شیرخواروں کو بچایا جا چکا ہے۔ مفت ہسپتال اور ڈسپنسریاں، منشیات کے عادی افراد کی بحالی، مفت ویل چیئرز، بیساکھیاں اور معذوروں کے لئے دیگر سروسز بھی ایدھی فاؤنڈیشن کی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔اس فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والی ایمبولینس سروس کے ذریعے سالانہ دس لاکھ سے زائد افراد کو ہسپتالوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ یہی نہیں ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس تو ہنگامی حالات میں استعمال کے لئے فضائی ایمبولینس سروس بھی موجود ہے جسکے ذریعے اس کے رضاکار ملک کے کسی بھی دُور دراز علاقے میں فوری رسائی رکھتے ہیں۔ فاؤنڈیشن کے پاس ایئرایمبولینس کے طور پر دو چھوٹے طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر موجود ہے جبکہ تین مزید طیارے اور دوہیلی کاپٹر آئندہ تین سال میں حاصل کئے جائیں گے۔لاوارث میتوں کی تدفین اور زیادتی کانشانہ بننے والی خواتین کے مراکز، محروم طبقے کے لئے تربیتی مراکز، ایدھی فاؤنڈیشن کے چند دیگر کام ہیں۔اس فاؤنڈیشن کے کاموں کا دائرہ کار بیرون ممالک بھی پھیلا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کے تحت نیویارک، اونٹاریو، ڈھاکہ، ٹوکیو، سڈنی، لندن، دبئی میں بھی خدمات فراہم کی جا رہی ہیں جبکہ افغانستان، بھارت، سری لنکا، یمن اور روس میں خدمات کی فراہمی کے لئے کام جاری ہے۔پاکستان میں ہر ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہسپتال بنانا، بڑے شہروں سے لے کر چھوٹے دیہات مراکز کا قیام، منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لئے کراچی میں ایک بال پوائنٹ مینوفیکچرنگ فیکٹری لگانا، یہ ایدھی فاؤنڈیشن کے مستقبل کے منصوبے ہیں۔ 

Nishan-e-Haider ..

^^^^^نشان حیدر^^^^^نشانِ حیدر پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز ہے جو کہ اب تک پاک فوج کے دس شہداء کو مل چکا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کی تاریخ اور پاکستان کی بری فوج کے مطابق نشانِ حیدر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام پر دیا جاتا ہے کیونکہ ان کا لقب حیدر تھا اور ان کی بہادری ضرب المثل ہے۔ یہ نشان صرف ان لوگوں کو دیا جاتا ہے، جو وطن کے لئے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہید ہو چکے ہوں۔ آج تک پاکستان میں صرف 11افراد کو نشانِ حیدر دیا گیا ہے جن کے نام درج ذیل ہیں۔کیپٹن محمد سرور شہیدمیجر طفیل محمد شہیدمیجر راجہ عزیز بھٹی شہیدمیجر محمد اکرم شہیدپائیلٹ آفیسر راشد منہاس شہیدمیجر شبیر شریف شہیدجوان سوار محمد حسین شہیدلانس نائیک محمد محفوظ شہیدکیپٹن کرنل شیر خان شہیدحوالدار لالک جان شہیدنائک سیف علی جنجوعہ شہید

PAK ARMY ..

پاک فوج، عسکریہ پاکستان کی سب سے بڑی شاخ ہے. اِس کا سب سے بڑا مقصد مُلک کی ارضی سرحدات کا دِفاع کرنا ہے.پاکستان فوج کا قیام ۱۹۴۷ میں پاکستان کی آزادی پر عمل میں آیا۔یہ ایک رضاکارپیشہ ور جنگجوقوت ہے۔انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز (International Institute for Strategic Studies-IISS)) کے مطابق اپریل ۲۰۱۳ میں پاک فوج کی فعال افرادی قوت ۷،۲۵،۰۰۰ تھی۔اس کے علاوہ ریزرو یا غیر فعال ۵،۵۰،۰۰۰ افراد(جو 45 سال کی عمر تک خدمات سرانجام دیتے ہیں)کو ملاکر افرادی قوت کا تخمینہ ۱۲،۷۵،۰۰۰افراد تک پہنچ جاتا ہے۔اگرچہ آئین پاکستان میں جبری فوجی بھرتی کی گنجائش موجود ہے، لیکن اسے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔پاک فوج بشمولِ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے دُنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے. ۔پاکستان کے آئین کےآرٹیکل ۲۴۳کے تحت، پاکستان کے صدر افواج پاکستان بشمول پاکستانی بری فوج، کے سویلین کمانڈر ان چیف یا سپاہ سالار اعظم کا منصب رکھتے ہیں۔ آئین کے مطابق صدرپاکستان، وزیر اعظم پاکستان کے مشورہ و تائید سےچیف آف آرمی سٹاف پاکستان آرمی یا سپہ سالارپاکستان بری فوج کے عہدے کے لئیے ایک چار ستارے والے جرنیل کا انتخاب کرتے ہیں۔فی الوقت پاک فوج کی قیادت جنرل راحیل شریف چیف آف آرمی سٹاف کررہے ہیں، جبکہ جنرل راشد محمود چئیرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی زمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
^^^تاریخ^^^میں آزادی کے بعد سے پاک فوج بھارت سے ۳ جنگوں اورمتعدد سرحدی جھڑپوں میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دے چکی ہے۔عرب اسرائیل جنگ ،عراق کویت جنگ ،اور خلیج کی جنگ میں حلیف عرب ممالک کی فوجی امدادکے لئے بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔حالیہ بڑی کاروائیوں میں آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم، آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات شامل ہیں۔
لڑائیوں کے علاوہ پاک فوج، اقوامِ متحدہ کی امن کوششوں میں بھی حصّہ لیتی رہی ہے. افریقی، جنوبی ایشیائی اور عرب ممالک کی افواج میں ا فواج پاکستان کا عملہ بطورِ مشیر شامل ہوتا ہے.
پاکستانی افواج کے ایک دستے نے اقوام متحدہ امن مشن کا حصہ ہوتے ہوئے۱۹۹۳ءمیں موغادیشو، صومالیہ میں آپریشن گوتھک سرپنٹ کےدوران پھنسے ہوئے امریکی فوجیوں کی جانیں بچانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
۱۹۴۷-۱۹۵۸
پاکستان فوج ۳ جون ۱۹۴۷ کوبرطانوی ہندوستانی فوج یا برٹش انڈین آرمی کی تقسیم کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔تب جلد ہی آزاد ہو جانے والی مملکت پاکستان کوچھ بکتر بند، آٹھ توپخانے کی اور آٹھ پیادہ رجمنٹیں ملیں، جبکہ تقابل میں بھارت کو ۱۲ بکتر بند، ۴۰ توپخانے کی اور۲۱ پیادہ فوجی رجمنٹیں ملیں۔
۱۹۴۷ء میں غیر منظم لڑاکا جتھے،سکاؤٹس اورقبائلی لشکر،کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست پر بھارت کے بزور قوت قبضہ کے اندیشہ سےکشمیرمیں داخل ہوگئے۔ مہاراجہ کشمیر نے اکثریت کی خواہش کے خلاف بھارت سے الحاق کر دیا۔بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔یہ اقدام بعد میں پاک بھارت جنگ ۱۹۴۷ء کا آغاز ثابت ہوا۔ بعد میں باقاعدہ فوجی یونٹیں بھی جنگ میں شامل ہونے لگیں، لیکن اس وقت کے پاکستانی بری افواج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل سر فرینک میسروی کی قائد اعظم محمد علی جناح کےکشمیر میں فوج کی تعیناتی کے احکامات کی حکم عدولی کے باعث روک دی گئیں۔بعد ازاں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی کے بعد پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کا شمال مغربی حصہ پاکستان کے ، جبکہ بقیہ حصہ بھارت کے زیر انتظام آ گیا۔
اس کے بعد، ۱۹۵۰ کی دہائی میں ، پاکستانی ا فوج کودو باہمی دفاعی معاہدوں کے نتیجے میں امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے بھاری اقتصادی اور فوجی امداد موصول ہوئی۔ یہ معاہدے معاہدہ بغداد یا بغداد پیکٹ ، جو سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن یا سینٹو کے قیام کی وجہ بنا، اورساوتھ ایسٹ ایشین ٹریٹی آرگنائیزیشن یا سیٹوسنہء ۱۹۵۴ میں ہوئے۔اس امداد کے نتیجے میں افواج پاکستان کو اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کا موقع ملا۔
۱۹۴۷ ء میں پاکستان کو صرف تین انفینٹری ڈویژن ملے، جن میں نمبر ۷،۸اور ۹ ڈویژن شامل تھے۔۱۰واں، ۱۲واں اور ۱۴واں ڈویژن ۱۹۴۸ میں کھڑا کیا گیا۔۱۹۵۴ ء سے پہلے کسی وقت۹وان ڈویژن توڑ کر ۶وان ڈویژن کھڑا کیا گیا، لیکن ۱۹۵۴ ہی کے بعد کسی وقت اس کو بھی ختم کر دیا گیا، جس کی وجہ امریکی امداد کا صرف ایک بکتر بند یا آرمرڈ ڈ ویژن اور چھ انفینٹری ڈویژن کے لئے مخصوص ہونا تھا۔
۱۹۵۸-۱۹۶۹
پہلی بار پاکستانی فوج کی اقتدار میں شراکت جنرل ایوب خان کی 1958 میں ایک پر امن بغاوت کے ذریعےدیکھنے میں آئی .انہوں نے کنونشنل مسلم لیگ بنائی، جس میں مستقبل کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔
۶۰ کی دہائی میں بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ رہے، اور اپریل ۱۹۶۵ میں رن آف کچھ کے مقام پر ایک مختصر جنگی جھڑپ بھی لڑی گئی۔۶ ستمبر ۱۹۶۵ کی رات، بھارت نے پاکستان پر اعلان جنگ کے بغیر حملہ کر دیا۔ پاکستان نے حملہ نہ صرف روک کر پسپا کر دیا، بلکہ ۱۲۰۰ کلومیٹر بھارتی علاقہ بھی فتح کر لیا۔پاکستانی فضائیہ اور توپخانے کی کی لڑائی کے دوران امداد نے پاکستانی دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اقوام متحدہ کے زیر نگرانی جنگ بندی عمل میں آئی، اور معاہدہ تاشقند کا اعلان ہوا۔ بھارتی مفتوحہ علاقہ واپس کر دیا گیا۔
لائبریری آف کانگریس کے ملکی مطالعہ جات ،جو امریکی وفاقی تحقیقی ڈویژن نے کئے ،کے مطابق جنگ غیر نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے جنگی تقابل کے بعد ، نسبتاْکہیں زیادہ کمزور پاکستانی افواج کا بھارتی جارحیت کو محض روک لینا ہی مندرجہ بالا دعوے کی تردیدکے لئے کافی ہے۔
۱۹۶۸ اور ۱۹۶۹ میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کے بعد انہوں نے صدر پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے سے استعفٰی دے دیا، اورجنرل یحییٰ خان نےاقتدار ۱۹۶۹ میں سنبھال لیا۔
۱۹۶۶ سے ۱۹۶۹ کے درمیان ۱۶،۱۸ اور ۲۳ ڈویژن کھڑے کئے گئے۔۹ویں ڈویژن کا دوبارہ قیام بھی اسی عرصے میں عمل میں آیا۔
۱۹۶۹-۱۹۷۱
جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں، مشرقی پاکستان میں مغربی پاکستان کے ہاتھوں روا رکھی گئی مبینہ سیاسی،معاشرتی اورمعاشی زیادتیوں کے خلاف مقبول عوامی تحریک شروع ہوئی، جو بتدریج خلاف قانون بغاوت میں بدل گئی۔ان باغیوں کےخلاف۲۵ مارچ ۱۹۷۱ کو فوجی کاروائی کی گئی، جسے آپریشن سرچ لائٹ کا نام دیا گیا۔ منصوبے کے مطابق بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد تمام فوجی اور سیاسی بغاوت پر قابو پایا جانا تھا۔ مئی ۱۹۷۱ کو آخری بڑے مزاحمتی شہر پر قابو پانے کے بعد آپریشن مکمل ہو گیا۔
آپریشن کے بعد بظاہر امن قائم ہو گیا، لیکن سیاسی مسائل حل نہ ہو سکے۔ آپریشن میں مبینہ جانی نقصانات بھی بے چینی میں اضافے کا باعث بنے۔
بد امنی دوبارہ شروع ہوئی، اور اس دفعہ بھارتی تربیت یافتہ مکتی باہنی گوریلوں نےلڑائی کی شدت میں اضافہ جاری رکھا، تاآنکہ بھارتی افواج نے نومبر ۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان میں دخل اندازی شروع کر دی۔ محدود پاکستانی افواج نے نا مساعد حالات میں عوامی تائید کے بغیر اس جارحیت کا مقابلہ جاری رکھا۔ مغربی پاکستان میں پاکستانی افواج کا جوابی حملہ بھی کیا گیا۔ لیکن بالآخر ۱۶ سمبر۱۹۷۱ کو ڈھاکہ میں محصور پاکستانی افواج کو لیفٹینینٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی کی قیادت میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔
۱۹۷۱-۱۹۷۷
۱۸ دسمبر ۱۹۷۱ کو بھٹو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس ، جہاں وہ مشرقی پاکستان پر بھارتی جارحیت کے خلاف حمایت حاصل کرنےکی کوشش کر رہے تھے، سے بذریعہ خصوصی پی آئی اے کی پرواز واپس بلائے گئے، اور ۲۰ دسمبر ۱۹۷۱ کو انہوں نے بطور صدر پاکستان اور پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اقتدار سنبھال لیا۔
۱۹۷۰ کی دہائی کے وسط میں سول حکومت کے ایما پر بلوچستان میں غیرملکی اشارے پر بدامنی پیدا کرنے والے عناصر کے خلاف فوجی کاروائی بھی کی گئی۔
۱۹۷۷-۱۹۹۹
۱۹۷۷ میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاءلحق نےعوامی احتجاج اور مظاہروں کے بعد ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ذولفقار علی بھٹو کو ایک سیاستدان قصوری کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر عدالت نے پھانسی کی سزا دی۔ جنرل ضیاء موعودہ ۹۰ دن میں انتخابات کروانے میں ناکام رہے، اور۱۹۸۸ میں ایک طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہونے تک بطور فوجی حکمران حکومت جاری رکھی۔
۱۹۸۰ میں پاکستان نے امریکہ، سعودی عرب اور دیگر اتحادی ممالک کے ساتھافغان مجاہدین کو جارح روسی افواج کے خلاف ہتھیاروں، گولہ بارود اور جاسوسی امداد جاری رکھی-
پہلی خلیجی جنگ کے دوران پاکستان نے ممکنہ عراقی جارحیت کے خلاف سعودی عرب کے دفاع کے لئے افواج فراہم کیں۔
^^^چیف آف آرمی سٹاف کی فہرست^^^
جنرل سر فرینک مسروی (15 اگست 1947ء - 10 فروری 1948ء)جنرل سر ڈوگلس ڈیوڈ گریسی (11 فروری 1948 - 16 جنوری 1951)فیلڈ مارشل ایوب خان (جنوری 16 1951 - اکتوبر 26 1958)جنرل موسیٰ خان (اکتوبر 27 1958 - جون 17 1966)جنرل یحیٰی خان (جون 18 1966 – دسمبر 20 1971)لفٹننٹ جنرل گل حسن (دسمبر 20 1971 - مارچ 3 1972)جنرل ٹکّا خان (مارچ 3 1972 – مارچ 1 1976)جنرل محمد ضیاء الحق (اپریل 1 1976 - اگست 17 1988)جنرل مرزا اسلم بیگ (اگست 17 1988 - اگست 16 1991)جنرل آصف نواز (16 اگست 1991 - 8 جنوری 1993)جنرل عبدالوحید کاکڑ (جنوری 8 1993 - دسمبر 1 1996)جنرل جہانگیر کرامت (دسمبر 1 1996 - اکتوبر 6 1998)جنرل پرویز مشرف (اکتوبر 7 1998 - نومبر 28, 2007)جنرل اشفاق پرویز کیانی (نومبر 29, 2007 سے 29 نومبر 2013)جنرل راحیل شریف (نومبر 29, 2013 موجودہ)