Showing posts with label August. Show all posts
Showing posts with label August. Show all posts

Saturday, August 15, 2015

'You did what Pakistan' ..

’’میں ضرور اپنی یادیں بتاؤںگا مگر پہلے میری طرف سے موجودہ کرکٹرز سے ایک سوال کرو کہ پاکستان نے ان کیلیے بہت کچھ کیا مگر جواب میں انھوں نے ملک کوکیا دیا‘‘؟
جشن آزادی کے موقع پر جب میں ایک سابق کرکٹر سے تاثرات لینے پہنچا تو انھوں نے مجھ سے الٹا یہ سوال داغ دیا، ان کی بات غلط نہ تھی پھر وہ دل کا غبار نکالنے لگے، انھوں نے مجھے بتایا کہ ’’ ہمارے زمانے میں ہمیں جتنا معاوضہ ملتا تھا اس کی ہم بچوں کیلیے ٹافیاں ہی خرید سکتے تھے مگر اس کی کبھی کسی سے شکایت نہ کی، ہمارے لیے سب سے اہم بات گرین کیپ تھی، دیار غیر میں جب سبز ہلالی پرچم لہراتا دیکھتے تو اس خوشی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا تھا، اب تو تم لوگ 14 اگست کو ہی پرچم الماریوں سے نکالتے ہو، گھر یا کار پر لگاتے ہو یا شرٹ پر 20روپے کا بیج لگا کر سمجھتے ہو کہ پاکستانی ہونے کا حق اداکر دیا، ایسا نہیں ہے‘‘۔
وہ لمبا لیکچر دینے لگے ایسے میں جب میں نے سامنے رکھا چائے کا کپ اٹھایا تو میری بیزاری بھانپ گئے اور کہنے لگے’’ لگتا ہے بور ہو رہے ہو، چلو میں پھر کرکٹ کی طرف آ جاتا ہوں تو ہم طویل سفر کر کے دور دراز کے ممالک جاتے مگر ماتھے پر شکن تک نہ ہوتی، اب تو بزنس کلاس کا سفر کر کے بھی کرکٹرز شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں، ہمارے دور میں جب میچ ہوتا تو ہمیں یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ اچھا پرفارم کیا تو بورڈ سے بونس ملے گا، یا سینٹرل کنٹریکٹ میں رقم بڑھانے کیلیے دباؤ ڈال سکیں گے، ہم تو یہ سوچتے تھے کہ ٹیم جیتی تو پاکستان کا نام روشن ہوگا، پہلے تو انٹرویوز میں کھلاڑی رسماً کہہ دیتے تھے کہ ملک و قوم کیلیے کھیلتے ہیں مگر اب تو ایسا بھی نہیں ہوتا‘‘
میں نے جواب دیا سر کوئی مفت میں کیسے کھیل سکتا ہے تو ایکدم وہ غصے میں آ کر کہنے لگے ’’ ایسا کون کہہ رہا ہے پیسے ضرور لو مگر ترجیح پاکستان کو دو،اس وقت ایک اوسط قومی کرکٹر بھی سالانہ 40،50لاکھ روپے کما لیتا ہو گا، اسٹارز کی آمدنی تو کروڑوں میں ہے، اس کے باوجود وہ کبھی معاوضوں کیلیے لڑتے ہیں تو کبھی کچھ اور شکایت ہوتی ہے، کوئی خوش نہیں لگتا، بعض لوگ یہ پوائنٹ دیتے ہیں کہ ہمارا انٹرنیشنل کیریئر کتنا طویل ہے لہذا جتنا کما سکتے ہیں کمائیں گے، یہی سوچ انھیں کرپشن کی جانب مائل کرتی ہے، اب مجھے یہ بات بتاؤ کہ اس وقت کوئی ایسا نوجوان یا سینئر کرکٹر ہے جو کسی ادارے میں ملازم نہ ہو،ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس کی جاب جاری رہتی ہے، ایسے میں روزی روٹی کا مسئلہ نہیں، اصل بات لالچ ہے، ملک کیلیے کھیلنا چھوڑ دیا اسی لیے ٹیم کا آج یہ حال ہے، ہاں میں سمجھ گیا کہ تم کیا کہنے والے ہو کہ ابھی سری لنکا کو تو ہرایا ہے،ایک سیریز کی فتح پر اتنا خوش نہ ہو آگے بہت چیلنجز آنے ہیں‘‘۔
میں نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو وہ مزید کہنے لگے کہ ’’بعض سابق کرکٹرز بھی کم نہیں، جاوید میانداد بڑا پاکستان کی باتیں کرتا ہے مگر بورڈ میں کئی سال ڈائریکٹر جنرل رہ کر کروڑوں روپے تنخواہ بغیر کچھ کام کیے لیے، وہ کیا تھا؟ وسیم اکرم بھارت بھاگا بھاگا جاتا ہے مگر پی سی بی بلائے تو 10دن چند گھنٹے کوچنگ کے بھی لاکھوں روپے طلب کرتا ہے، میڈیا میں ان سب سے باتیں کرا لو مگر حقیقت کچھ اور ہے، بعض کھلاڑی شکوے شکایت کرتے پھرتے ہیں تو مجھے بڑا غصہ آتا ہے،اگر پاکستان انھیں کرکٹ میں مواقع نہ دیتا تو اپنے گاؤں دیہات میں کھیتی باڑی کر رہے ہوتے، وہ جو ـــــ بڑا ہیرو بنا پھرتا ہے اس کی اوقات 2ہزار روپے ماہانہ کی نہ تھی، اسی ملک نے اسے ارب پتی بنا دیا، کوئی برطانوی تو کوئی آسٹریلوی لڑکی سے شادی کر کے وہاں کا شہری بنا ہوا ہے، مگرملک کا احسان نہیں مانتا، برا بھلا کہتا رہتا ہے کہ یہاں ایسا ہے ویسا ہے، پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اتنا نہیں کما سکتے جتنا کرکٹرز چند روز میں کما لیتے ہیں، انھیں یہ سوچنا چاہیے۔ اور چند بورڈ حکام کے بارے میں بھی سنو، وہ کہتے تھے یا ہیں کہ ہم تو ملک کیلیے اعزازی کام کر رہے ہیں اب تو ایسی بات پر ہنسی بھی نہیں آتی، قریبی عزیزوں کو نوازنا، اہل خانہ کے ساتھ مفت ہوائی سفر، لاکھوں روپے الاؤنس اگر یہی ملک کی خدمت ہے تو سب سے ایسی خدمت لینی چاہیے، فلاں چیئرمین جب کراچی آتے تو اہل خانہ اور دوستوںکی فائیو اسٹار ہوٹل میں دعوت کا بل کون بھرتا تھا؟‘‘۔
میں اب گھڑی دیکھنے لگا تو کہنے لگے کہ ’’ جاتے جاتے ایک سوال کا جواب دے دو، کیا تم بھارتی فلمیں نہیں دیکھتے؟ اگر کوئی تم سے کہے کہ آؤ سلمان خان یا کترینہ کیف سے ملوانے لے جاتا ہو تو کیا انکار کر دو گے؟‘‘ نہیں ناں، تو بھائی اپنے کالمز میں بھارت کے ساتھ کرکٹ روابط کی مخالفت کرنا چھوڑدو، میں نے گذشتہ دنوں پڑھا تھا جو تم نے لکھا‘‘ میں وضاحت دینے لگا تو وہ کہنے لگے کہ ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں، بس اگلی بار جب لکھو تو یہ ضرور لکھنا کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں، اس ملک نے ہی ہمیں اپنے اپنے شعبے میں کامیابیاں دیں، اگر ہم کچھ نہیں کر پا رہے تو اس میں اپنی ہی کوتاہی ہو گی، ملک کو برا بھلا نہ کہیں،14اگست اور 23مارچ کے علاوہ بھی حب الوطنی کا مظاہرہ کیا کریں، اگر ہم خود کو ٹھیک کر لیں تو ہمارے ملک میں جو مسائل ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگیں گے‘‘۔
اسی کے ساتھ ہم نے ہاتھ ملائے اور میں واپس روانہ ہو گیا، راستے بھرمیں یہی سوچتے رہا کہ انھوں نے باتیں تو سچی کیں البتہ تلخ تھیں، بہت سے لوگوں کو شاید پسند نہ آئیں ،لیکن اگر ہمیں کوئی تبدیلی لانی ہے تو آغاز اپنے آپ سے کرنا ہوگا، صرف ’دل دل پاکستان‘ گانے سے کوئی پاکستانی نہیں بن جاتا ہمیں دل سے پاکستانی بننا چاہیے۔

Exhibition Match,, Army vs Pakistan Eleven ..


Happy Independence Day ..

Friday, August 14, 2015

Pakistan's national Anthem ..

13 اگست 1954ء کو پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا
پاکستان کے قومی ترانہ کی دھن 21 اگست 1949ء کو منظور ہوئی تھی اور اسے پہلی مرتبہ یکم مارچ 1950ء کو پاکستان میں ایران کے سربراہ مملکت کی آمد پر بجایا گیا تھا۔ 5 جنوری 1954ء کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے اس دھن کو سرکاری طور پر قومی ترانہ قرار دے دیا
اب اگلا مرحلہ اس دھن کے حوالے سے الفاظ کے چناؤ کا تھا چنانچہ ملک کے تمام مقتدر شعرائے کرام کو اس ترانے کے گرامو فون ریکارڈز بھی بھجوائے گئے اور ہر رات ایک مخصوص وقت پر ریڈیو پاکستان سے اس ترانے کے نشر کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا تاکہ وہ اس کی دھن سے ہم آہنگ ترانہ تحریر کر سکیں
جواباً قومی ترانہ کمیٹی کو مجموعی طور پر 723 ترانے موصول ہوئے۔ ان ترانوں میں سے قومی ترانہ کمیٹی کو جو ترانے سب سے زیادہ پسند آئے وہ حفیظ جالندھری، حکیم احمد شجاع اور زیڈ اے بخاری کے لکھے ہوئے ترانے تھے۔ 4 اگست 1954ء کو پاکستان کی مرکزی کابینہ نے جناب حفیظ جالندھری کے لکھے ہوئے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طور پر منظور کر لیا۔ 13 اگست 1954ء کو یہ ترانہ پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا
(اس کی دھن احمد جی چھاگلہ نے ترتیب دیجسکا کل دورانیہ 80 سیکنڈ پر محیط ہے)(قومی ترانے کی منظوری دینے والی کمیٹیچیرمینجناب ایس ایم اکرام،ارکانسردار عبد الرب نشترپیر زادہ عبدالستارپروفیسر چکراورتیچودھری نذیر احمد خانزیڈ اے بخاریاے ڈی اظہرکوی جسیم الدینابو الاثر حفیظ جالندھری

Pakistan Flag ..

پاکستانی پرچم


پرچم قوم کی عزت اور جاہ و جلال کا نشان ہوتا ہے پاکستانی پرچم کا خاکہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر امیرالدین قدوائی نے ڈیزائن کیا تھا، پاکستانی پرچم کی ساخت اور رنگوں کی مناسبت یوں ہے کہ پرچم کا بڑا سبز حصہ مسلم تشخص کو اجاگر کرتا ہے اور چھوٹا سفید حصہ اقلیتوں کی نمائندگی ظاہر کرتا ہے ہلال ترقی کی علامت ہے جبکہ ستارہ روشنی اور علم کا نشان ہے، پہلے قومی پرچم ساز کی تلاش کے لیے مرحوم حکیم محمد سعید اور معروف شاعر جمیل الدین عالی اور دیگر اکابرین نے بھی اخبارات میں کالموں، مراسلات اور بیانات کے ذریعے کھوج لگانے کی اپیل کی تھی اور ان کی کوششوں سے دو نام سامنے آئے کہ جون1947ء کو پاکستان کا پہلا پرچم تیار کرنے والے دو بھائی ٹیلر ماسٹر افضال حسین اور ان کے چھوٹے بھائی ماسٹر الطاف حسین تھے۔جمیل الدین عالی نے 2004ء میں ’’پاکستانی پرچم ساز کون ‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں ماسٹر افضال حسین کو قومی پرچم ساز قرار دیا لیکن انھوں نے ماسٹر الطاف حسین کے بیٹے کے خط کا بھی ذکر کیا کہ بقول ظہور الحسن ان کے والد ماسٹر الطاف حسین نے پہلا قومی پرچم تیار کیا ہے عالی جی نے اس خط کا اپنے اگلے کالم میں تذکرہ کرتے ہوئے صحافیوں سے اس معاملے کی تحقیق کرکے کھوج لگانے کی بھی اپیل کی تھی، 8 مئی 1979ء کو صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق کراچی کے دورے پر آئے تو ان سے ماسٹر افضال حسین نے ملاقات کی۔صدر مملکت نے انھیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی (پرائیڈ آف پرفارمنس) اور مراعات دینے کا اعلان کیا اور انھیں 5 ہزار روپے نقد بطور انعام دیے اس سلسلے میں افضال حسین کا انٹرویو پہلی بار 19 اگست 1979ء کو مقامی اخبار میں شائع ہوا اس وقت ان کے چھوٹے بھائی الطاف حسین انتقال کرچکے تھے۔ماسٹر افضال حسین کے انٹرویو کا یہ جملہ قابل غور ہے کہ ’’میں نے جلدی سے پیمائش اور رنگوں کے تناسب سے کپڑے کی تراش خراش کرکے الطاف حسین کو دیا جسے انھوں نے سی دیا‘‘، یکم دسمبر1979ء کے روزنامہ جسارت میں مرحوم ماسٹر الطاف حسین کی بیوہ شکیلہ بیگم کی جانب سے بیان شایع ہوا کہ ’’پاکستان کا پہلا پرچم میرے مرحوم شوہر نے تیار کیا تھا‘‘ شکیلہ بیگم نے بعد ازاں صدر مملکت اور ارباب اختیار کو خطوط کے ذریعے آگاہ کیا، سرکاری سطح پر تحقیقات ہوئی کئی محکموں کے افسران اور پاک فوج کے افسر انکوائری کے لیے ان کے گھر آئے اور دستاویزات اور لائف میگزین میں چھپنے والی ماسٹر الطاف حسین کی تصویر دیکھی، جس پر ماسٹر افضال حسین کو صدارتی تمغہ دینے کی کارروائی سرخ فیتے کی نذر ہوگئی۔بعدازاں ماسٹر افضال حسین نے مقامی اخبار کو 19 دسمبر 1979ء کو انٹرویو میں بتایا تھا کہ قومی پرچم سینے کی خدمت پر میرے لیے اعلان کردہ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سرخ فیتے کا شکار ہوگیا ہے انھوں نے اس وقت صدر پاکستان اور حکومتی اکابرین کو تفصیلات پر مبنی خط بھی روانہ کیا، اسی سلسلے میں 8 اگست 1981 کو ان کا بیان مقامی اخبار میں شائع ہوا کہ میں پیرانہ سالی اور ناسازی طبع کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قاصر ہوں اور 3 سال گزرجانے کے باوجود حکومت نے اعلان کردہ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی مجھے عطا نہیں کیا۔پہلے قومی پرچم ساز کے تعین کے حوالے سے ماسٹر افضال حسین کی صاحبزادی قمر سلطانہ کے مطالبے کی خبر مقامی روزنامے میں 2 فروری 2000ء کو شایع ہوئی جس میں قمر سلطانہ نے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف سے ماسٹر افضال حسین کو بعداز مرگ صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کا نام نصابی کتب میں بطور پہلے قومی پرچم ساز کے شامل کرنے کا مطالبہ کیا، چند روز قبل 9 اگست کو قمر سلطانہ نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ماسٹر الطاف حسین کے بیٹے ہونے کے دعویدار ظہور الحسن نامی شخص کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظہور الحسن کا ہمارے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے چچا الطاف حسین کی کوئی اولاد نہیں تھی تو ظہور الحسن کس قسم کے دعوے کررہے ہیں ان کا یہ بیان مختلف اخبارات میں شایع ہوا ہے۔انھوں نے ارباب اختیار سے ظہور الحسن اور ان کے خونی رشتے داروں کے ڈی این اے کا مطالبہ کیا تاکہ سچ سامنے آسکے اور وہ آئندہ ایسے دعوے نہ کرسکے، ماسٹر الطاف حسین مرحوم کے بیٹے ظہور الحسن کے مطابق والد محترم نے پہلا قومی پرچم تحریک آزادی میں1947ء کے دوران دہلی گیٹ انڈیا میں تیار کیا والد نے ہجرت کے بعد حیدرآباد میں سکونت اختیار کی ان کی زندگی میں کسی نے پہلا پرچم ساز ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔امریکی جریدے لائف میگزین کے 18 اگست 1947ء کے شمارے میں شایع ہونے والی تصویر اس بات کا ثبوت ہے اس حوالے سے تایا ماسٹر افضال حسین کو قومی پرچم ساز ظاہر کرتے ہوئے پاکستان کے بعض اخبارات نے مضامین شایع کیے ہیں، اس حوالے سے تحریک نظریہ پاکستان کے صدر بیرسٹر ثمین خان نے 30 اکتوبر 2008ء کو پریس کانفرنس میں وضاحت کی کہ پاکستان کا پہلا قومی پرچم ماسٹر الطاف حسین نے تیار کیا تھا، ثمین خان کے مطابق میری موجودگی میں لائف میگزین کی فوٹو گرافر مارگریٹ نے دہلی انڈیا میں سیر کے دوران ماسٹر الطاف حسین کی دکان پر پرچم سیتے ہوئے تصویر اتاری اور یہی تصویر لائف میگزین میں شائع ہوئی۔معروف شاعر محسن بھوپالی نے بھی مقامی اخبار کو 20 اکتوبر 2004ء میں مراسلہ بھیجا جس میں انھوں نے واضح کیا کہ 1958ء تا 1968ء تک ان کی حیدرآباد کے علاقے ہیر آباد میں رہائش رہی ماسٹر الطاف حسین کی درزی کی دکان (ٹیلر شاپ) پر صاحب علم شخصیات سے ملاقات رہتی تھی، ماسٹر الطاف حسین پاکستانی پرچم کی تیاری کا ذکر جذباتی انداز میں کرتے اور ساتھ ہی پرچم کی تیاری پر مبنی امریکی میگزین لائف میں چھپنے والی اپنی تصویر دکھاتے تھے،پہلے قومی پرچم ساز کے تعین کا معاملہ ہنوز التوا کا شکار ہے اور حکومتی سطح پر اب تک پاکستان کے پہلے قومی پرچم ساز کا اعلان نہیں ہوسکا ہے۔

Thursday, August 13, 2015

Aye Wattan Pyare Wattan ..



Aye Quaid-e-Azam tera ehsan ha ..



REHAY NA REHAY YE JEEWAN KABI ..



Mere Watan Full HD Video Song ..



Wallaper of the Day ..


Celebration of Pakistan Independence Day ..






celebrations Independence Day of Pakistan ..

A vendor displaying national flags and other stuff to attract the customers in connection with the Independence Day of Pakistan celebrations as the nation starts preparations to celebrate the Day in befitting manners.