ایک دفعہ کسی بزرگ نے دیکھا کہ بغداد کی دانہ منڈی کے باہر ایک پتھر کے اوپر شیطان بیٹھا رو رہا ہے تو بزرگ بڑے حیران ہوئے ۔ وہ اس کے قریب گئے ، اور کہنے لگے کہ ابلیس کیا ہے تُو رو رہا ہے ؟ اس نے کہا جی ، میرا بہت برا حال ہے۔ انہوں نے کہا ، نہ بھئی نہ ، تُو تو نہ رو ۔ تمہیں تو اتنے کام بگاڑنے ہیں لوگوں کے ۔ اگر تُو ہی رونے لگ گیا تو کیا ہوگا؟ اس نے کہا ِ بابا جی میرا دکھ۔ انہوں نے کہا کیا دکھ ہے ؟ کہنے لگا کہ جی میرا دکھ یہ ہے کہ میں اچھا ہونا چاہتا ہوں ، اور مجھ سے ہوا نہیں جاتا ۔
بڑی کمال کی بات کی اس نے ۔
چاہیے یہ کہ ہم ہونے کی کوشش کریں ، یہ خواہش تو کریں کہ ہم اچھے ہو جائیں تو اس سے بڑا فرق پڑ جاتا ہے ۔ ہماری بات تو ہوتی رہتی ہے گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے ، لیکن ہم روئے کبھی نہیں ۔ ابلیس ہم سے بہتر تھا کہ سچ مچ رویا ۔ وہ بازی لے گیا ۔
اشفاق احمد زاویہ اندر کی تبدیلی صفحہ 83