Showing posts with label First Class. Show all posts
Showing posts with label First Class. Show all posts

Monday, September 3, 2012

Strauss leaves ‘huge void’: Lee

LONDON :  Former Australia fast bowler Brett Lee said Andrew Strauss had left a “huge void” in the England team following his retirement from all cricket.
England’s then Test captain bowed out on Wednesday, citing declining form as his main reason for calling time in his career.
But 35-year-old opening batsman Strauss retired with a fine record of more than 7,000 runs in exactly 100 Tests at an average of over 40 with 21 hundreds — one shy of England’s all-time record.
The Middlesex left-hander Strauss also led England to home and away Ashes triumphs, having also starred as a batsman only during their 2005 Test series win against Australia.
Lee, who as a new-ball bowler was well-placed to observe Strauss’s merits, told BBC Radio Five on Sunday: “If you look as his record as an opening batsman — 100 Test matches and an average of 40, it’s absolutely phenomenal.
“He was a batsman we were fond of, we thought he was a great player. He was always the top of discussion for us — ‘what’s the best way to bowl at Andrew Strauss?’
“He was a respected player and when you got Andrew Strauss out you knew you were bowling pretty well.
“He was a very competitive person with a very strong mind. A class act.
“He leaves a huge void in the England cricket team,” added Lee of Strauss, who has been succeeded as Test captain by opening partner Alastair Cook, already England’s one-day skipper.
Meanwhile England seamer James Anderson insisted the controversy surrounding Kevin Pietersen’s ongoing exile from international cricket had played no part in Strauss’s decision.
Pietersen has not played for England in any format since making 149 in the drawn second Test against his native South Africa in Leeds last month after it emerged he had sent “provocative” texts to Proteas players — some of which were alleged to be critical of Strauss.
But Strauss himself dismissed suggestions the fall-out from the row generated by his predecessor as England captain had played any part in his decision and Anderson, in his Mail on Sunday column supported his former skipper.
“People have speculated that the Kevin Pietersen issue might have been a factor in Strauss’ decision to quit. I don’t think it has been ideal but he was thinking about this before that stuff started, so I don’t think that has been an issue at all,” Anderson said.
“That sort of thing just wouldn’t influence a man like Strauss.
Anderson also praised Strauss for the manner of his retirement, which included sending a letter to all his international colleagues.
“What a way to go – leaving all of us a personal, hand-written letter,” he added. “Each one was different and the full contents of mine will stay between him and me, but the gist of it was that he was proud of us and that he had many great memories to take with him. Class.”

Sunday, August 26, 2012

Wasim Akram innings of 257 Not Out..

17 تا 21 اکتوبر 1996ء زمبابوے کے خلاف شیخوپورہ ٹیسٹ کو میں شاید ہی کبھی فراموش کر سکوں۔ بحیثیت باؤلر تو میرے بہت سے مقابلے ایسے ہیں جنہیں یادگار کہا جاسکتا ہے۔ لیکن بحیثیت بلے باز میں شیخوپورہ ٹیسٹ کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ اس ٹیسٹ میں، میں نے 257 رنز جیسی بڑی اور ناقابل شکست اننگز کھیلی تھی۔ مجھے خود اپنی اس کارکردگی پر حیرت تھی۔ ساتویں، آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرنے والے اختتامی بلے باز سے آپ کیا توقع کرسکتے ہیں؟ تیس رنز، پینتیس رنز؟ یا زیادہ سے زیادہ پچاس۔ لیکن 257رنز؟ میرے لئے اب تک ناقابل یقین ہیں۔ اتنی بڑی اننگز کا شمار تو ایک منجھے ہوئے بلےباز کے پورے کیریئر میں بھی انگلیوں پر کیا جاسکتا ہے۔ میں تو آخری لمحات میں تیزی سے تیس، چالیس رنز بنانے والا ایک آل راؤنڈر تھا۔ آٹھ گھنٹے مسلسل بیٹنگ تو میں نے کبھی فرسٹ کلاس یا کاؤنٹی کرکٹ میں بھی نہیں کی تھی۔
میچ کے دوسرے دن میں جب میں میدان میں بیٹنگ کے لیے اترا تو پاکستان زمبابوے کی پہلی اننگز 375 رنز کے جواب میں 183 رنز پر 6 وکٹیں گنوا بیٹھا تھا۔ میچ کے تیسرے دن معین خان کے ساتھ 50 رنز کی شراکت داری ہوئی جس سے پاکستان کی اننگز کچھ حد تک سنبھل گئی لیکن معین کیچ آؤٹ ہوگئے اور پاکستان ایک بار پھر مشکل میں آ پڑا۔ اس وقت ثقلین مشتاق میرا ساتھ دینے میدان میں آئے اور یہاں سے میری اس ناقابل فراموش اننگز کی کہانی شروع ہوئی۔ پچاس کے بعد 100 رنز پر پہنچ کر مجھے بہت لطیف احساس ہوا۔ سنچری کے بعد میں لاپروائی سے شاٹ پر شاٹ مار رہا تھا۔ اور کچھ ہی دیر بعد میرے اسکور کا ہندسہ 150 سے تجاوز کرگیا۔ ثقلین مشتاق میرے ساتھ دوسرے اینڈ پر ڈٹا ہوا تھا۔ ہم نے بعد میں آٹھویں وکٹ کی شراکت میں 313 رنز کا عالمی ریکارڈ بھی بنایا۔ ثقلین باربار میری ہمت بڑھا رہا تھا۔ مجھے ڈبل سنچری بنانے کا کوئی خاص شوق تو نہ تھا لیکن ثقلین باربار مجھ سے کہہ رہا تھا۔ "وسیم بھائی! بس تھوڑی سی ہمت، آپ 200 کرسکتے ہیں۔" 190 کے اسکور پر پہنچتے ہی تالیاں بجناشروع ہوگئیں۔ مجھے اس وقت احساس ہوا شاید واقعی میں کوئی بڑا کام کرنے جارہا ہوں۔
ڈبل سنچری۔۔۔۔۔۔۔۔اُف کس قدر لذت تھی دو سوواں رنز لینے میں؟ ثقلین مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اس پر مجھے بے حد پیار آرہا تھا۔ اس کے بے لوث جذبے سے میری ہمت بندھی اور ڈبل سنچری بن گئی، ورنہ مجھے تو ڈبل سنچری کی لذت کا علم ہی نہ تھا۔ اُس دن اس محاورے "بندر کیا جانے ادرک کا مزا؟" کے اصل معنی و مطلب مجھے سمجھ آئے۔ واقعی ایک باؤلر یا اختتامی بلےباز کیا جانے ڈبل سنچری کا مزا۔
ڈبل سنچری بنانے کے بعداس احساس نے کہ میرا نام اب ظہیرعباس، جاوید میانداد اور حنیف محمد جیسے بلے بازوں کی فہرست میں آگیا ہے۔ میرا بدن شدید تھکاوٹ کے باوجود کیف وسرور میں ڈوب گیا۔ دوسوکے بعد اب مجھے کیا لینا تھا۔ میں نے قدموں کا استعمال کرکے دوچھکے رسید کردیئے۔ لیکن درحقیقت میں تھک چکاتھا اور مجھے ابھی باؤلنگ بھی کرانی تھی۔ میں آؤٹ ہوکر چند لمحے آرام کرناچاہتاتھالیکن اس موقع پر پویلین سے اعجازاحمدنے ہدایات بھیجیں۔ "وسیم بھائی! آپ 9 چھکے لگاچکے ہیں، تین اور لگادیں تو عالمی ریکارڈ ہوجائے گا۔" وہ سب میری بیٹنگ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ زندگی میں ایک بار ملنے والے اس موقع کی بدولت اننگز جاری رکھنے کے خواہاں تھے۔ باوجود تھکن کے میں پھر سے ڈٹ گیا۔ وہ دن ہی کچھ ایسا تھا کہ جو میں چاہ رہا تھا وہی ہو رہا تھا۔ بھرپور طاقت سے میں نے تین چھکے لگا ہی ڈالے اور ایک اننگز میں 12 چھکوں کا عالمی ریکارڈ بن گیا۔ ہر چھکے پر ایسا محسوس ہوتا شاید کیچ آؤٹ ہوجاؤں لیکن گیند ہر بار میدان سے باہر ہوتی۔ چھکے مارنے کی خواہش میں میرا انفرادی اسکور 250 تک پہنچ گیا۔
300 رنز کا ہندسہ ذہن میں آتے ہی میں لرز گیا۔ ٹرپل سنچری؟۔۔۔۔۔کیا میں ٹرپل سنچری بناسکتا ہوں؟ میں زیر لب بڑبڑایا۔ 100 اور 200 کا چسکالگ چکا تھا۔ میں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ 300 کے ہندسے تک جاؤں گا۔ لیکن میرے مصمم ارادے میں اُس وقت پہلی دراڑ پڑی جب باہمت ثقلین مشتاق 79 کے انفرادی اسکور پر میری ہمت بندھاتے بندھاتے خود پویلین سدھارگئے۔ وقاریونس میدان میں میرا ساتھ دینے پہنچے۔ وہ بہت طویل وقت سے پیڈ باندھے پویلین میں، شاید سخت بوریت میں، بیٹھے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ وہ بھی ثقلین کی مانند سیدھے بلے سے کھیلتے رہیں اور میں اپنا سفر جاری رکھوں۔ لیکن وقار گرم خون اور جذبے والے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ میں بھی چھکے مارسکتا ہوں اور ایک زوردار شاٹ کھیلنے کی کوشش میں پہلی ہی گیند پر بولڈ ہوگئے۔ آخری کھلاڑی شاہد نذیر نے اپنی طرف سے میرا ساتھ دینے کی کوشش کی لیکن وہ بھی کیچ آؤٹ ہوگئے اور میرے 'دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔' پاکستان کی اننگز ختم ہوگئی۔ میری زندگی کی یادگار ترین اننگز 257 پر محدود ہو گئی اور میں ٹرپل سنچری تک نہ پہنچ سکا۔ کتنا عجیب ہے نا؟ جس کا میں نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہیں سوچاتھا وہ ناقابل یقین طور پر حقیقت کا روپ دھار گیا اور جو میں چاہتا  تھا وہ نہ ہوسکا۔ بہرحال یہ میچ میری زندگی ایک یادگار میچ تھا۔