یہ ہے پاکستان کے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف عالمی سازش کی کہانی جو ہوگئی ہے اب بے نقاب۔ اس مکروہ کھیل کا چشم کشا ماجرا جوپاکستانی ہیرو کوبدنام کرنے کی خاطر غیرملکی خفیہ ایجنسیوں نے بین الاقوامی اسمگلروں سے ساز باز کرکے کھیلا۔ ۵ فروری ۲۰۰۴ء کی بات ہے، امریکی سی آئی اے کے سربراہ، جارج ٹینٹ نے جارج ٹائون یونیورسٹی، واشنگٹن میں اساتذہ اور طلبہ و طالبات سے خطاب کیا۔ تقریر کے آخر میں ٹینٹ نے حاضرین کو بتایا ''پچھلے سال میں نے کانگریس میں سالانہ خطاب کے دوران واضح کیا تھا کہ بین الاقوامی نجی ٹھیکے دار ایٹم بم بنانے کے آلات لیبیا سمیت مختلف ممالک کو فروخت کررہے ہیں۔ تب میں نے ان لوگوں کے نام خفیہ رکھے تھے۔ لیکن آج میں بتانا چاہتا ہوں کہ بنیادی طورپر میری مراد ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے تھی۔ ڈاکٹر خان کا نیٹ ورک گزشتہ کئی برس سے مختلف ملکوں کو ایٹمی آلات و پرزے فراہم کررہا تھا تاکہ وہ بھی ایٹم بم بنا سکیں۔ لیکن پاکستان سے آنے والی خبروں سے عیاں ہے کہ ڈاکٹر خان کے نیٹ ورک کا خاتمہ کردیا گیا۔ اب ان کے بہت سے ساتھی زیرِحراست ہیں۔''دراصل پچھلے ہی دن ۴؍ فروری کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے قومی ٹیلی ویژن پر آکر یہ اقرار کیا تھا کہ وہ مختلف ممالک کو ایٹمی سازوسامان فروخت کرنے کے لیے ایک خودساختہ نیٹ ورک چلا رہے تھے۔ لیکن جیسا کہ بعد میں انکشاف ہوا،حقیقت میں امریکی اور برطانوی ایجنسیوں نے بڑی عیاری سے یہ سازش تیار کی تھی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر ہی نہیں پاکستان کو بھی پوری دنیا میں بدنام کردیا جائے۔مغربی میڈیا نے تب شور مچا دیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر اپنے مخصوص کارندوں کے ذریعے پوری دنیا میں خوفناک تباہی پھیلانے والے ہتھیار پھیلا رہے ہیں۔ انھیں ''موت کا ہرکارہ'' اور ''دنیا کا سب سے خطرناک ایٹمی سمگلر'' جیسے گھٹیا القابات دیے گئے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی کردار کشی اور بدنامی میں مغربی طاقتوں کے بااثر پاکستانی ایجنٹوں نے بھی حصہ لیا۔ یوں انھوں نے ایک ایسے عظیم پاکستانی کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس نے پاکستان کی بقا کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ وار دیا تھا۔ لیکن یہ خوشی کا مقام ہے کہ تمام تر کردار کشی کے باوجود آج بھی پاکستانی عوام ڈاکٹر صاحب کو ہیرو، نجات دہندہ اور عظیم محب وطن سمجھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کے خلاف ہونے والی سازش میں اسلام دشمن غیر ملکی طاقتیں ہی نہیں دورِجدید کے میر جعفر اور میر صادق بھی شریک تھے۔سقوطِ ڈھاکا کے دلدوز مناظردسمبر ۱۹۷۱ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر بیلجیئم میں پی ایچ ڈی کررہے تھے کہ پاکستان دولخت ہونے کا حادثہ پیش آیا۔ تب انھوں نے ٹی۔وی پر یہ دلدوز مناظر دیکھے کہ بھارتی فوجی ہتھیار ڈالنے والے پاکستانی فوجیوں کو قطار بنوائے اور لاتیں مارتے لیے جا رہے ہیں۔ یہ المناک منظر ڈاکٹر صاحب کے دل پر ایسے نقش ہوئے کہ وہ انھیں ساری عمر نہ بھول پائے۔۱۸؍مئی ۱۹۷۴ء کو بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا، تو یک دم اس کا پلہ بھاری ہوگیا۔ اس امر نے پاکستانی حکومت و فوج کو بے حد تشویش میں مبتلاکردیا۔ چنانچہ وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے فیصلہ کیا کہ پاکستان بھی ایٹم بم بنائے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کا کہنا تھا کہ پلوٹونیم بم بنایا جائے۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کے پاس کوئی ایٹمی بجلی گھر نہ تھا جہاں پلوٹونیم جنم لیتا ہے۔اس مسئلہ کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے حل کیا۔ انھوں نے پاکستانی حکومت کو تجویز دی کہ یورینیم بم بنایا جائے۔ اس وقت تک ڈاکٹر صاحب یورینیم افزودگی کے ماہر بن چکے تھے۔ اس طریقِ کار کی خصوصیت یہ ہے کہ یوں ایٹمی بجلی گھر بنائے بغیر صرف سینٹری فیوج مشینیں لگا کر یورینیم ایٹم بم بنایا جاسکتا ہے۔ جب اعلیٰ سیاسی و فوجی قیادت کو یہ افادیت سمجھ آئی، تو ڈاکٹر صاحب کو کام شروع کرنے کااشارہ کردیاگیا۔دسمبر ۱۹۷۴ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ، منیر احمد خان کو مجوزہ افزودگی پلانٹ کا منصوبہ سمجھایا اور واپس ہالینڈ چلے گئے جہاں وہ جرمن، ولندیزی اور برطانوی حکومتوں کی ملکیت کمپنی، یورینکو سے بحیثیت سینیئر سائنس دان وابستہ تھے۔ اس زمانے میں یورینکو ولندیزی قصبے المینو میں یورینیم افزودگی پلانٹ تعمیر کررہی تھی۔ ڈاکٹر صاحب اس منصوبے میں بھرپور طریقے سے شریک تھے۔۲۱؍دسمبر ۱۹۷۵ء کو ڈاکٹر صاحب اہل و عیال کے ہمراہ پھر چھٹیاں منانے پاکستان آئے۔ جب انھوں نے افزودگی کے سلسلے میں رفتارِکار کا جائزہ لیا، تو نتیجہ صفر نکلا۔ دراصل ایٹمی توانائی کمیشن پلوٹونیم ایٹم بم پر کام کرنا چاہتا تھا، اسی لیے ادارے کے ماہرین یورینیم ایٹم بم کے منصوبے میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ پاکستان آمد پرجب ڈاکٹر صاحب نے وزیرِاعظم سے شکایت لگائی تو انھوں نے پیش کش کی کہ آپ پاکستان رک کر یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچائیں۔ یہ ایک بڑا مشکل فیصلہ تھا، کیونکہ ہالینڈ میں ڈاکٹر صاحب پُرکشش تنخواہ پر ملازم تھے، نیز ان کی بیگم بھی ولندیزی تھیں۔ ہالینڈ میں اس خاندان کو جو سہولیات اور مراعات میسر تھیں، وہ یقینا پاکستان میں ملنا محال تھیں۔ لیکن جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کی خدمت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔جون ۱۹۷۶ء میں بحیثیت مشیر ان کا ایٹمی توانائی کمیشن میں تقرر ہوا۔ لیکن وہی حسد کا جذبہ آڑے آیا اور انھیں اپنے منصوبے کے سلسلے میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تب ان کی تنخواہ صرف ۳؍ ہزار روپے تھی۔ جب حالات حد سے باہر ہوگئے تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دوبارہ وزیراعظم کو صورت حال سے مطلع کیا۔ چنانچہ یورینیم افزودگی کے لیے ایٹمی توانائی کمیشن سے آزاد ایک نئے منصوبے ''پروجیکٹ ۷۰۶'' کا آغاز ہوا۔ اس کے سربراہ ڈاکٹر صاحب مقرر ہوئے۔ جبکہ ایک نگران بورڈ بھی تشکیل پایا جس کے ارکان اے۔جی۔ایم قاضی، آغا شاہی اور غلام اسحاق خان تھے۔اس وقت تک لیبیا کے مقتول حکمران، کرنل قذافی ایٹم بم بنانے کے لیے پاکستان کو ۲۰؍ کروڑ ڈالر فراہم کرچکے تھے جو اس زمانے میں زرِکثیر تھا۔ عالم اسلام کو متحد و مضبوط بنانے کا یہ اقدام پاکستانیوں کے دل میں کرنل قذافی کی یادیں ہمیشہ تازہ رکھے گا۔ پاکستانی حکومت نے ڈاکٹر صاحب کو مطلع کیا کہ روپے پیسے کی فکر نہ کریں، بس جلد از جلد قوم کو ایٹم بم کا تحفہ دیں، تاکہ طاقت کا ترازو متوازن ہوسکے۔ تب وہ بھارت کی طرف کچھ زیادہ جھک گیا تھا۔ڈاکٹر عبدالقدیر یورینیم افزودگی پلانٹ کی تعمیر کے لیے درکار تمام تکنیکی معلومات رکھتے تھے۔ پھر سینٹری فیوج مشینیں بنانے کے لیے ان کے پاس بیش قیمت نوٹس بھی تھے جس کی مالیت اربوں روپے تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ پلانٹ کی تمام مشینیں،متعلقہ آلات اور سازوسامان مغربی کمپنیاں بناتی تھیں۔ اُدھر یورپی ممالک اور امریکہ نے یہ سامان پاکستان کو فروخت کرنے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ لہٰذا فیصلہ ہوا کہ خفیہ طریقے سے مطلوبہ سازوسامان اور پرزہ جات یورپ سے پاکستان منگوائے جائیں۔کہوٹہ میں جب پاکستانی انجینئر بریگیڈیئر زاہد اکبر علی خان کی زیرِقیادت افزودگی پلانٹ بنانے میں محو ہوئے، تو ڈاکٹر صاحب نے کئی یورپی ممالک کا دورہ کیا۔ تب وہیں ان کی ملاقات ایسے مغربی اسمگلروں سے ہوئی جو ہر قسم کی مشینیں اور پرزے سمگل کرتے تھے۔ یہ اسمگلروں کا پورا نیٹ ورک تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے ساتھیوں نے انھیں قائل کرلیا کہ وہ پاکستانی افزودگی پلانٹ کے لیے متعلقہ مشینیں اور آلات فراہم کریں۔ یوں کہوٹہ میں عمارتی ڈھانچہ کھڑا ہوتے ہی مشینیوں کی تنصیب کا کام بھی شروع ہوگیا۔پابندیوں سے چھٹکارا پانے کی خاطر جرمنی، سوئٹزرلینڈ، لکسمبرگ، کویت، برطانیہ، متحدہ عرب امارات وغیرہ میں جعلی کمپنیاں بنائی گئیں۔ یہ کمپنیاں مغربی اداروں سے سینٹری فیوج کے پرزہ جات و آلات خریدتی اور انھیں دبئی بجھوا دیتیں۔ اس زمانے میں دبئی میں کسٹمز اور دیگر پابندیاں موجود نہ تھیں، چنانچہ اسی کو مرکز بنایا گیا۔ وہیں مغربی اداروں کے نمائندے آتے اور اسمگلنگ نیٹ ورک کے ارکان کا بھی آنا جانا تھا۔پاکستان میںیورینیم افزودگی پلانٹ کی تکمیل کے لیے اندرون و بیرون ملک مقیم کئی پاکستانیوں نے کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا…یہ سبھی ہمارے بے نام ہیرو ہیں۔ اِدھر کہوٹہ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے دن رات کام کیا اور پاکستانی سائنس دانوں و انجینئروں کو پلانٹ سے متعلق تکنیکی معلومات سکھا کر اپنی ٹیم تیار کرلی۔ یوں ۱۹۷۸ء میں پلانٹ تکمیل کو پہنچا اور وہاں یورینیم کی افزودگی کا آغاز ہوگیا۔ یہ ایک نہایت پیچیدہ عمل ہے جس میں خالص یورینیم سے ایٹم بم میں مستعمل یورینیم ۲۳۵ کو گیس بنا کر علحٰدہ کیا جاتا ہے۔ آخر ۱۰ ؍ دسمبر ۱۹۸۴ء کو زبردست کامیابی نصیب ہوئی جب تمام رُکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود پاکستان ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہوگیا۔دوست ممالک سے ایٹمی تعاونچین: جب چینی حکومت کو خبر ملی کہ پاکستانی یورینیم افزودگی پلانٹ تعمیر کررہے ہیں، تو انھوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کی ٹیم چین کو بھی ایسا ہی پلانٹ تیار کردے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے مع ٹیم چینی شہر، ہنززونگ میں افزودگی پلانٹ لگانے میں بھرپور حصہ لیا۔ تب سینٹری فیوج مشینوں، انورٹروں، والووں، فلو میٹروں، پریشر گیجوں اور دیگر متعلقہ سازوسامان سے بھری سی۔۱۳۰ جہازوں کی ''ایک سو پینتیس پروازیں'' چین بھجوائی گئیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بذاتِ خود بھی چینی پلانٹ کا دورہ کیا۔جواباً چین نے ایٹم بم بنانے کے سلسلے میں ڈیزائن ڈاکٹر صاحب کو فراہم کیے۔ نیز ۵۰؍ کلو افزودہ یورینیم اور ۱۰؍ٹن خالص یورینیم بھی دیا۔ مزید براں چین کے تعاون ہی سے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے ایٹمی بجلی گھر لگائے اور پلوٹونیم کا ری پروسیسنگ پلانٹ تعمیر کیا۔ایران: ایرانی حکومت کو خطرہ رہتا ہے کہ امریکہ موقع دیکھ کر اس پر حملہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ اس نے بھی ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ امریکیوں کو منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ ۱۹۸۹ء میں انھوں نے اپنے ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں پاکستانیوں سے مدد مانگی۔ تب پاک بری فوج کے سربراہ جنرل اسلم بیگ نے آمادگی ظاہر کردی۔ جنرل صاحب کا خیال تھا کہ اگر ایران ایٹم بم بنا لے تو یوں عالمِ اسلام کو مزید طاقت میسر آئے گی۔پاکستانی حکومت کی ایما پر پھر ڈاکٹر صاحب نے ایرانیوں کو سینٹری فیوج مشینوں کے ڈیزائن اور کچھ پرانی مشینیں فراہم کیں۔ مزید براں مغربی اسمگلنگ نیٹ ورک میں شامل ان لوگوں کے نام و پتے بھی دیئے جن سے ایرانی سینٹری فیوج اور متعلقہ سامان خرید سکتے تھے۔ یوں ایرانیوں نے پاکستان کے تعاون سے اپنے ایٹمی منصوبے کا آغاز کیا اور پھر نطنز میں یورینیم افزودگی پلانٹ تعمیر کر لیا۔شمالی کوریا: ۱۹۹۳ء میں شمالی کوریا نے پاکستان کو زمین سے زمین تک مار کرنے والے گائیڈڈ میزائل فراہم کیے۔ بعد ازاں شمالی کوریا نے خواہش ظاہر کی کہ ڈاکٹر اے کیو لیبارٹریز میں تیارکردہ سینٹری فیوج انھیں قیمتاً فراہم کیے جائیں۔ چنانچہ مشینیں انھیں دے دی گئیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ شمالی کورین تب تک پلوٹونیم کے ذریعے ایٹم بم بنا چکے تھے تاہم وہ یورینیم بم بنانے میں بھی دلچسپی رکھتے تھے۔لیبیا: ۱۹۹۷ء میں لیبیا کے مرحوم حکمران صدر کرنل قذافی نے بذریعہ اپنے نمائندے ڈاکٹر عبدالقدیر سے رابطہ کیا۔ یہ ملاقات استنبول، ترکی میں ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب کرنل قذافی کو چاہتے اور ان کا احترام کرتے تھے۔ اوّل اس لیے کہ کرنل قذافی کے فراہم کردہ سرمائے ہی سے پاکستانی ایٹمی منصوبے کی داغ بیل ڈالی گئی۔ دوم، مرحوم قذافی آزادی کی ان مسلم تحریکوں کو مالی امداد دیتے تھے جو مختلف ممالک میں غاصبوں کے خلاف چل رہی تھیں۔صدر قذافی کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر صاحب لیبیا کا ایٹمی منصوبہ تیار کرنے میں ان کی مدد کریں۔ قذافی سے دیرینہ شناسائی کے باعث ڈاکٹر صاحب نے ہامی بھر لی۔ انھوں نے پھر پاکستانی حکومت کی اجازت سے مغربی اسمگلنگ نیٹ ورک سے رابطہ کیا تاکہ اس بار لیبیا میں یورینیم افزودگی پلانٹ تعمیر کیا جا سکے۔نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے سوئس باشندے، فریڈرچ ٹنر کے ایک بیٹے نے ملائشیا میں ایک کارخانے کے اندر سینٹری فیوج اور متعلقہ سامان بنانے والا کارخانہ قائم کرلیا۔ مزید براں سوئٹزرلینڈ میں بھی ایک مرکز بنایا گیا۔ ستمبر ۲۰۰۳ء میں ملائشیا میں تیار کردہ مشینیں بی۔بی۔سی چین نامی بحری جہاز کے ذریعے دبئی بجھوائی گئیں۔ وہاں سے انھیں لیبیا جانا تھا۔ لیکن ۴؍ اکتوبر کو دبئی میں سی۔آئی۔اے نے جہاز میں لدی مشینیں پکڑ لیں۔ اس کے بعد ہی ڈاکٹر عبدالقدیر کے خلاف شرانگیز مہم کا آغاز ہوا اور انھیں عالمی میڈیا مجرم اور گنہگار بنا کر پیش کرنے لگا۔سازش کا آغازستمبر ۲۰۰۲ء میں بی۔بی۔سی چین سے سینٹری فیوج کے پرزہ جات برآمد ہوئے، تو سی۔آئی۔اے کی ایما پر مغربی میڈیا یہ واویلا مچانے لگا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اس خفیہ نیٹ ورک کے سربراہ تھے جو ایران، لیبیا، شمالی کوریا وغیرہ کو ایٹم بم بنانے کی خاطر یورینیم افزودہ پلانٹ فراہم کررہا تھا۔ نیٹ ورک کے دیگر ارکان میں گوٹہارایلرچ، ہینز مابس، ہینگ سلیبوس، فریڈرچ ٹنر، پیٹر گرفن، محمد فاروق اور طاہر کے نام سامنے آئے۔یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر صاحب مندرجہ بالا افراد سے شناسائی رکھتے تھے۔ مگر یہ واقفیت دو چار برس نہیں ۱۹۷۷ء سے چلی آرہی تھی۔ دراصل یہی وہ نمایاں یورپی اور غیر ملکی باشندے ہیں جن کے ذریعے ڈاکٹر صاحب نے خفیہ طور پر پاکستانی افزودگی پلانٹ کی مشینیں اور آلات منگوائے۔ ان باشندوں میں صرف دو، فاروق اور طاہر سری لنکن مسلمان تھے، باقی تمام ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، بیلجیئم وغیرہ سے تعلق رکھتے تھے۔امریکی سی۔آئی۔اے بہت عرصہ قبل یہ جان چکی تھی کہ مندرجہ بالا یورپی اس بین الاقوامی نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو خفیہ طور پر مختلف ممالک کو یورینیم افزودگی پلانٹ کی مشینیں و پرزہ جات فروخت کرتا ہے۔ لیکن سی آئی اے نے کبھی ضرورت نہیں سمجھی کہ ان یورپیوں کو گرفتار کیا جائے۔ یہ تو جب امریکہ میں صدر بش برسرِاقتدار آیا، اس کو جنگی ہسٹریا کا دورہ پڑا، تو پاکستانی حکومت کے تعاون سے یہ سازش تیار ہوئی کہ ایک تیر سے دو شکار کیے جائیں، یعنی نیٹ ورک کا خاتمہ نیز ایسی چال چلی جائے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر اسے چلانے کے ذمے دار قرار پائیں۔چنانچہ ۲۰۰۰ء کے لگ بھگ سی۔آئی۔اے اور برطانوی خفیہ ایجنسی، ۱یم آئی ۱۶ نے فریڈرچ ٹنر، اس کے دونوں بیٹوں، پیٹر گرفن اور فاروق کو اپنا ایجنٹ بنا لیا۔ یہ پانچوں اشخاص بظاہر خفیہ نیٹ ورک کا حصہ رہے مگر درپردہ سی۔آئی۔اے کے لیے کام کرنے لگے۔ یہ فریڈرچ ٹنر اور اس کے بیٹے ہی ہیں جنھوں نے لیبیا بجھوانے والے سینٹری فیوج کے آلات ملائشیا میں تیار کیے۔ پھر انہی کی اطلاع پر امریکی ایجنٹوں نے وہ آلات دبئی میں پکڑے اور یوں نام نہاد ڈاکٹر خان نیٹ ورک طشتِ از بام کرنے کا جھوٹا دعویٰ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر خان نیٹ ورک کا کوئی وجود نہیں تھا، بلکہ یہ یورینیم افزودگی پلانٹ کا سامان چوری چھپے فروخت کرنے والے مغربی تاجر، کاروباری اور ہنر مند تھے جنھیں سی۔آئی۔اے نے پکڑا۔ وہی اصل مجرم تھے، لیکن متعصب مغربی میڈیا نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بوجوہ نشانہ بنایا اور انھیں بدنام کیا۔۲۰۰۳ء میں فریڈرچ ٹنر دبئی میں ایک ورکشاپ چلا رہا تھاجو یورینیم پلانٹ کے مختلف پرزہ جات استعمال کرتی تھی۔ اس نے پھر ملائشیا میں بھی ایک چھوٹا سا کارخانہ قائم کیا جہاں لیبیا جانے والے سینٹری فیوج مشینوں کے آلات بننے تھے۔ یہ کارخانہ جس بڑے کارخانے میں قائم ہوا ،وہ طاہر کی ملکیت تھا۔ طاہر بھی اس نیٹ ورک کا حصہ اور محمد فاروق کا بھتیجا یا بھانجا تھا۔۱۹۷۷ء میں فریڈرچ ٹنر سوئٹزرلینڈ کی کمپنی، کورا انجینئر کا منیجر تھا۔ ڈاکٹر خان نے اسی سے گیسی فیکیشن اور سولڈفیکیشن یونٹ خریدا۔ یہی یونٹ افزودگی پلانٹ میں یورینیم گیس سینٹری فیوج مشینوں کو فراہم کرتا اور پھر اسے واپس ٹھوس شکل میں تبدیل کرتا ہے۔جب ستمبر ۲۰۰۳ء میں بی۔بی۔سی چین بحری جہاز پکڑا گیا، تو ٹنر باپ اور بیٹے سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔ وہاں ان پر مقدمہ چلا، لیکن ۲۰۰۸ء میں امریکہ کے شدید دبائو پر سوئس عدالت نے انھیں رہا کردیا۔ ۲۵؍اپریل ۲۰۰۸ء کو ممتاز امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا کہ سی آئی اے نے ٹنرخاندان کو اپنا ایجنٹ بنانے کی خاطر ایک کروڑ ڈالر (۸۸کروڑ روپے) دیے تھے اور ''بیشتر رقم سوٹ کیس میں دی گئی جو نوٹوں سے بھرا پڑا تھا۔''حال ہی میں سوئس مجسٹریٹ، ایندریاس میولر کی وہ تفتیشی رپورٹ سامنے آئی ہے جو اس نے ٹنرخاندان پر مقدمہ چلانے کے سلسلے میں تیار کی تھی۔ اس رپورٹ کا خلاصہ بھی یہی سچ ہے کہ ایٹم بم بنانے کا متعلقہ سامان مغربی اسمگلر ہی دنیا بھر میں پھیلاتے ہیں اور یہ کہ ڈاکٹر اے۔کیو خان نیٹ ورک کوئی وجود نہیں رکھتا۔ واضح رہے کہ ٹنر باپ بیٹوں کے خلاف ابھی مقدمہ ختم نہیں ہوا بلکہ زیرِالتوا ہے۔ چونکہ جب بھی مقدمہ چلا، اس سارے بکھیڑے میں سی۔آئی۔اے کا مکروہ کردار عیاں ہوجائے گا، اسی لیے مقدمہ چلایا نہیں جارہا۔سازش کا دوسرا کردار، پیٹر گرفن برطانوی ایم۔آئی۱۶ کا ایجنٹ تھا۔ ۲۰۰۴ء میں جب سی۔آئی۔اے کے کارندے ملائشیا پہنچے، تو انھیں (حسب توقع) فریڈرچ کابیٹاارس ٹنر تو نہیں ملا، البتہ گرفتار شدہ طاہر مل گیا۔ طاہر نے انھیں بتایا کہ اس کے کارخانے کو سینٹری فیوج آلات تیار کرنے کے لیے دبئی کی ایک کمپنی نے آرڈر دیا تھا۔ پیٹر گرفن اسی کمپنی کا مالک تھا۔ مگر امریکہ اور برطانیہ کے اثرورسوخ کی وجہ سے یہ شخص بھی آزاد پھر رہا ہے جبکہ طاہر اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان نہ صرف معتوب قرار پائے بلکہ قیدیوں کے مانند زندگی گزار رہے ہیں۔سی۔آئی اے سری لنکن مسلمان، محمد فاروق کو بھی اپنا ایجنٹ بنانے میں کامیاب رہی۔ یہ شخص چاچا کے نام سے معروف اور دبئی میں ایک ایسی کمپنی کا منیجر تھا جو یورینیم پلانٹ کے پرزہ جات کی خریدوفروخت کرتی تھی۔ ۱۹۹۵ء میں محمد فاروق اور طاہر کے مابین اختلافات پیدا ہوگئے اور پھر مقدمے بازی بھی ہوئی۔ ۲۰۰۳ء کے لگ بھگ یہی چاچا فاروق سی۔آئی۔اے کا ایجنٹ بن گیا اور اس نے امریکی سازش تیار کرانے میں حصہ لیا۔ فاروق کینسر کے ہاتھوں جاں بحق ہوکر عالمِ بالا پہنچ چکا ہے۔سازش کاتاناباناکس نے بُنا؟ڈاکٹر عبدالقدیر کے خلاف سازش سی۔آئی۔اے کے ڈائریکٹر آپریشنز، رالف مووت لارسن کی زیرِنگرانی تیار ہوئی اور انجام پائی۔ یہ شخص یہودی ہے اور اب اسرائیل میں رہائش پذیر ہے۔ سی۔آئی۔اے کے سابق سربراہ، جارج ٹینٹ نے اس کا نام لیے بغیر اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے ''جب میری ملازمت میں صرف ایک دن باقی تھا، تو میں شام کو سی۔آئی۔اے ہیڈکوارٹر میں واقع اس شخص کے کمرے میں گیا جس نے ڈاکٹر خان نیٹ ورک ختم کیا تھا۔ پھرمیں نے یہ کارنامہ انجام دینے پر اُسے تمغا پہنایا۔''یہ رالف مووت ہی ہے جس نے ۱ ؍دسمبر ۲۰۰۲ء اور ستمبر ۲۰۰۳ء میں جارج ٹینٹ کے ساتھ سابق صدرِپاکستان، جنرل (ر) پرویزمشرف سے تنہائی میں ملاقاتیں کیں۔ پہلی ملاقات اسلام آباد میں ہوئی۔ اس کے بعد دو پاکستانی ایٹمی سائنسداں، سلطان بشیرالدین اور عبدالمجید گرفتار کرلیے گئے۔ ان سائنسدانوں سے پھر سی۔آئی۔اے نے تفتیش کی تھی۔ ستمبر ۲۰۰۳ء کی ملاقات نیویارک میں ہوئی۔ اسی کے نتیجے میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے زوال کا آغاز ہوگیا۔جارج ٹینٹ کے علاوہ امریکی صحافی، ران سسکنڈ نے بھی اپنی کتاب ''دی ون پرسنٹ ڈاکٹرائن'' میں ان ملاقاتوں کے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کتاب میں ایک پیراگراف خصوصاً چشم کشا اور ہمارے حکمرانوں کی اصلیت عیاں کرتا ہے۔ سسکنڈ لکھتا ہے''جب ملاقات ختم ہوئی، تو سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ جارج ٹینٹ فہرست مطالبات کے علاوہ ایک بھاری پیکٹ بھی میز پر رکھا پیچھے چھوڑ گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس پیکٹ میں کیا تھا؟ مجھے یقین ہے کہ وہ پیکٹ ڈالروں سے نہیں بھرا تھا۔ البتہ ٹینٹ نے خاصی جگہ یہ تذکرہ کیا ہے کہ جب کوئی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' میں اسے اہم معلومات فراہم کرتا، تو اسے نوٹوں سے بھرا پیکٹ دے کر نوازا جاتا تھا۔''ران سسکنڈ مزید لکھتا ہے ''جب پرویزمشرف نے عہدۂ صدارت سے استعفا دیا، تو اُنہی دنوں مجھے اُن سے آرمی ہائوس میں ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے کسی ساتھی کے بغیر سی۔آئی۔اے کے چیف اور ایجنٹ سے تنہائی میں کیوں ملاقاتیں کیں؟ اس پر جنرل مشرف کی تیوری چڑھ گئی اور ماتھے پر شکنیں پڑگئیں۔ انھوں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کبھی سی۔آئی۔اے کے چیف یا ایجنٹوں سے اکیلے میں ملاقات نہیں ہوئی۔''میں نے ان سے دریافت کیا ''یہ تو سبھی لوگ جانتے ہیں کہ ؍ ۱ دسمبر ۲۰۰۲ء کو آپ نے قصرِصدارت میں ٹینٹ سے ملاقات کی تھی۔ تب ٹینٹ چاہتا تھا کہ بشیرالدین محمود اور ایک دوسرے پاکستانی ایٹمی سائنسداں کو گرفتار کرلیا جائے۔''یہ سوال سن کر جنرل (ر) پرویزمشرف کہنے لگے ''یہ بشیرالدین محمود کون ہے؟''بس اس کے بعد میرا انٹرویو ختم ہوگیا۔ پھر میں نے کئی بار ان سے درخواست کی کہ لندن یا دبئی میں انٹرویو دیجیے، مگر وہ انکاری رہے۔سی۔آئی۔اے نے جس گھنائونی سازش کے ذریعے پاکستان کے ہیرو، ڈاکٹر عبدالقدیر کو بدنام کیا، اس کی تفصیل انتہائی خفیہ ہے۔ شاید ۵۰؍ سال بعد اسے منظرعام پر لایا جائے جیسا کہ امریکیوں کا دستور ہے۔ تاہم ایک رپورٹ کے مندرجات سے عیاں ہے کہ امریکی اس سازش کو اپنا بہت بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ یہ رپورٹ ۲۰۰۵ء میں اس کمیشن نے جاری کی تھی جو حادثہ ۱۱؍۹ کے بعد صدر جارج بش نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے سلسلے میں امریکی انٹیلی جنس کی صلاحیت جانچنے کی خاطر بنایا تھا۔اِس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ڈاکٹر خان کے خلاف سی۔آئی۔اے آپریشن دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکی خفیہ ایجنسیوں کی تیسری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا:''امریکی خفیہ ادارے دشمنوں کے قلب میں پہنچ کر اپنے ہمدرد ڈھونڈنے میں کامیاب رہے۔ چنانچہ جب سرد جنگ کے دوران کیوبن میزائل بحران رونما ہوا، تو ہمیں روسی فوجی افسر، کرنل اولیگ پینکووسکی کی جانب سے اہم معلومات ملیں۔ انہی کی مدد سے ہم اس قابل ہوئے کہ بحران کو ٹال سکیں۔ پھر پولش فوجی افسر، کرنل رسزارڈ کولیکنسی نے ہمیں سویت یونین کے خفیہ جنگی منصوبوں کی نقول فراہم کیں۔ اب سی۔آئی۔اے کے ایجنٹوں نے کامیابی سے ڈاکٹر اے کیو خان نیوکلیئر پرولیفریشن نیٹ ورک میں دخول کیا اور اسے ختم کرکے چھوڑا۔ سابق سی آئی اے ڈائریکٹرجنرل، جارج ٹینٹ نے بجا طور پر اسے ''آپریشن ڈیرنگ'' (Daring) کا نام دیا۔ اس آپریشن کی تفصیل خفیہ ہے اور سامنے نہیں آسکتی۔''ڈاکٹرصاحب پرالزاماتسی۔آئی۔اے اور پاکستان میں امریکہ کے تنخواہ دار ملازموں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر دو بنیادی الزام لگائے۔ اول یہ کہ وہ ہالینڈ سے یورینیم سینٹری فیوج مشینیں بنانے کے جو نقشے و خاکے لائے، وہ غیر مکمل اور غلطیوں سے پُر تھے۔ چنانچہ ایٹمی توانائی کمیشن سے تعلق رکھنے والے پاکستانی ماہرین طبیعات نے خاکوں کے نقائص دور کیے۔ تب ڈاکٹر صاحب اس قابل ہوئے کہ یورینیم افزودگی پلانٹ تیار کرسکیں۔ دوم یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے نیٹ ورک سے خوب کمائی کی اور کروڑ پتی بن گئے۔پہلے الزام کا جواب یہ ہے کہ یورینکو کمپنی نے سینٹری فیوج مشینوں کے ڈیزائن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس لیے دیے تھے کہ وہ انھیں نقائص سے پاک کر سکیں۔ یورینکو کے انجینئر اور سائنس دان یہ نقائص دور کرنے میں ناکام رہے تھے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو نقائص یورپ اور امریکہ کے تربیت یافتہ اور تجربے کار ایٹمی سائنس دان و انجینئر دور نہیں کر سکے، انھیں چند پاکستانی ماہرین نے کیونکر ختم کر دیا؟ چنانچہ یہ الزام بالکل لغو ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ نقائص دور کرنے میں چند پاکستانی سائنسداں بھی ڈاکٹر صاحب کے شریک کار رہے اور انھوں نے جو کارنامہ انجام دیا، وہ پاکستانیوں کے لیے قابلِ فخر ہے۔دوسرا الزام بھی حقائق کی کسوٹی میں خام اور بے ہودہ ثابت ہوتاہے۔ مشرف حکومت نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح اندرون یا بیرون ممالک میں ڈاکٹر صاحب کے خفیہ کھاتے دستیاب ہوجائیں لیکن وہ ناکام رہی۔ بڑی چھان بین کے بعد پتا چلا کہ دبئی کے ایک بینک میں ڈاکٹرصاحب کی دُختر دینا خان کا کھاتہ ہے اور اس میں ۱۰ لاکھ ڈالر جمع ہیں۔یہ اطلاع ملنے پرمشرف حکومت کے کارپردازوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ لیکن بعد ازاں معلوم ہوا کہ یہ ڈالر دراصل دینا خان کی نانی کے تھے جو مرتے ہوئے اپنا ترکہ نواسیوں کو دے گئیں۔ دینا خان کی نانی نے کئی برس اسلام آباد میں اپنی بیٹی کے ہاں ہی گزارے اور وہ پاکستانی دارالحکومت ہی میں دفن ہیں۔ مشرف حکومت کو یہ حقیقت معلوم ہوئی، تو اس کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی۔سچ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے عمر بھر جو کمایا، وہ غریبوںکی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر خرچ کردیا۔ پھر یہ ڈاکٹر صاحب ہی ہیں جنھوں نے ہندوستان میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے والے سلطان محمد غوری کا خوبصورت مزار بنوایا اور انھیں شانِ شایان عزت و احترام دیا۔ اب ڈاکٹرصاحب کو پاک فوج کے ''سپیشل پلانز ڈویژن'' سے خصوصی پنشن ملتی ہے۔ (آپ اسی آرمی یونٹ سے وابستہ تھے۔) اسی پنشن سے گھریلو اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ شاید اخباری کالم بھی ذریعہ آمدن ہوں۔اب تک بیان کردہ سچائیوں سے عیاں ہے کہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان ایک سچے و پکے مسلمان، عظیم محب وطن، غریبوں کے ہمدرد اور شائستہ و نفیس انسان ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ دعویٰ حق بجانب ہے کہ اگر ان کی کوششوں سے پاکستان ایٹم بم نہ بناتا، تو بھارتی بہت پہلے حملہ کرکے ہمیں نابود کرنے کی سعی کرچکے ہوتے۔ لیکن افسوس کہ چند امریکی ٹکوں کی خاطر ہمارے حکمرانوں نے نہ صرف اپنا ضمیر و ایمان بیچا، بلکہ ڈاکٹر صاحب کو بھی رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ لیکن جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے… جس پر خدا مہربان ہو، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا
No comments:
Post a Comment