قائداعظم کامیاب مسلمان اور سیاستدان تھے۔ انہوں نے جو چاہا‘ وہ پایا۔ ان کے سیاسی حریف انگریز سرکار اور ہندو قیادت تھی۔ جو متحدہ ہندوستان کی حامی اور قیام پاکستان کی دشمن تھی۔ قائداعظم نے جداگانہ قومیت کی بنیاد پر متحدہ قومیت کے تصور کو رد کیا۔ گاندھی، نہرو، ماﺅنٹ بیٹن اور اٹیلی ہارے اور قائداعظم جیتے۔ قائداعظم کی کامیابی کے قائل حریف اور حلیف، دوست اور دشمن سب ہیں۔ برطانوی صحافی بیورلے نکلس اپنی کتاب ”محکامہ ہند“ میں قائداعظم سے ملاقات کو ”ایک دیوقامت شخص سے مکالمہ“ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”میں نے مسٹر جناح کو ایشیا کا اہم ترین شخص قرار دیا ہے .... آئندہ چند سالوں میں ہندوستان دنیا کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ بنتا دکھائی دیتا ہے اور مسٹر جناح کو، اس ضمن میں، یکتا حربی مدبر کی اہمیت حاصل ہو گی۔ وہ جس طرح چاہے جنگ کا پانسا پلٹ دے گا۔ اس کے حکم پر دس کروڑ مسلمان مارچ کریں گے۔ اگر وہ کہے کہ بائیں چلو تو بائیں چلیں گے اور اگر کہے کہ دائیں چلو تو دائیں چلیں گے اگر وہ کہے کہ عقب میں رہو تو وہ عقب میں رہیں گے۔ وہ کسی بھی دوسرے کے کہے پر ایسا نہیں کریں گے۔ یہ ہے اصل نقطہ۔ مگر ہندوﺅں کی صفوں میں ایسا نہیں ہے (وہاں کسی کو یکتا حیثیت حاصل نہیں) اگر گاندھی چلے جائیں تو لازماً نہرو موجود یا راج گوپال اچاریہ یا پٹیل یا درجن بھر دوسرے لیکن اگر جناح چلے جائیں تو ”کون جگہ لے گا“ قائداعظم دشمن کے لئے یکتا اور تنہا تھے۔ ”تقسیم عظیم“ کے مصنف ہڈسن لکھتے ہیں کہ ”قائداعظم کا قوم پرستی سے ”مسلم“ پرستی کا سفر یا تبدیلی کسی مادی ہوس پر مبنی نہ تھی۔ انہوں نے اسلامی قومیت کی بنیاد پر ہندوستانی وحدت کو فنا کر دیا۔ جناح پر اس کے سیاسی دشمنوں نے بھی کبھی بددیانت اور خودغرض ہونے کا الزام نہیں لگایا۔ قائداعظم کو کوئی بھی اور کسی قیمت پر خرید نہیں سکتا۔ وہ عوامی مقبولیت کے لئے سیاسی موقف نہیں بدلتے تھے۔ قائداعظم کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے نظریاتی تصور کو عملی اور عوامی تحریک بنایا اور دس کروڑ ہندی مسلمانوں کو اسلامی ریاست پاکستان کا امین اور محافظ بنایا۔ ہندو قیادت نے انگریز کی سرکاری سرپرستی میں جداگانہ قومیت کو بے معنی اور مہمل بنانے کے لئے مسلم رابطہ مہم کا آغاز کیا جس نے اے این پی کے سرحدی گاندھی (عبدالغفار خان) سندھ پرست جی ایم سید اور متحدہ قومیت کے حامی مسلمان علماءکی ایک کھیپ تیار کی جس نے قائداعظم کی شخصیت، کردار اور مسلم لیگ کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کیا جس کا اثر پاکستانی عوام پر زیادہ اور ہندوستانی مسلم پر کم ہے۔ قیام پاکستان کے لئے سو فیصد ووٹ ہندوﺅں کے ساتھ رہنے والی مسلمان اقلیت نے دیا۔ مسلمان عوام اور قائدین قائداعظم کے اخلاص، ہمدردی، سیادت و فراست پر پختہ یقین رکھتے تھے۔قائداعظم کی شخصیت کا بنیادی پہلو یہ تھا کہ وہ پہلے مسلمان تھے اور بعدازاں سیاستدان۔ آپ کی سیاسی بصیرت قرآن و سنت سے ماخوذ تھی۔ جیسا کہ محمد مصطفیٰ کا فرمان ہے کہ اہل ایمان کی فراست سے ڈرو کہ نور الٰہی سے دنیا دیکھتے ہیں۔ قائداعظم کی اللہ و رسول سے محبت بچپن سے تھی۔ آپ نے پہلا مقدمہ مسلم اوقاف کا جیتا جس کے باعث ہندی مسلمانوں کو کروڑوں کی گم گشتہ جائیداد واپس ملی اور مولانا شبلی نے قائداعظم کی دینی بصیرت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی فقہ پر مکمل درک حاصل کئے بغیر یہ مقدمہ جیتا نہیں جا سکتا تھا۔ آباﺅ و اجداد نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا۔ جب پاکستان بن گیا تو جھنڈا لہرانے کی سرکاری تقریب مولانا ظفر احمد عثمانی اور پنجاب میں مولانا احمد علی لاہوری نے جھنڈا لہرانے کی ذمہ داری ادا کی۔ قائداعظم ملی وحدت اور قرآن و سنت پر مبنی شرعی جمہوریت پر یقین رکھتے تھے۔ قائداعظم نے 17 اپریل 1948ءمیں کہا تھا کہ ”جو کچھ میں نے کیا، وہ اسلام کے ایک خادم کی حیثیت سے کیا اور میں نے فقط اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کی ہے اور اپنی قوت و استطاعت کے مطابق اپنی قوم کی حتی المقدور مدد کی ہے۔“
No comments:
Post a Comment