Sunday, April 24, 2011

اک بار تو ملنے آنا تھا

اک بار تو ملنے آنا تھا


اک بار تو ملنے آنا تھا
وہ گھر بھی دے نہ سکا جس نے
اک تاج محل بنوانا تھا

اک سچ تو تھا،اک سچ میں تھی
جو با قی تھا افسانہ تھا

تو بھی تو بچھڑ کے زندہ ہے
پھر میں نے کیوں مرجا نا تھا

وہ شہر الفت کیا کہئے
کچھ اپنا،کچھ بیگانہ تھا

میں اپنی ذات میں تنہا تھی
سنگ اس کے ایک زمانہ تھا

اظہار کے رستے مبہم تھے
چپ چاپ ہی چلتے جانا تھا

تم خود کو کوئی الزام نہ دو
میرے بخت میں چھید پرانا تھا

No comments:

Post a Comment