اک بار تو ملنے آنا تھا
اک بار تو ملنے آنا تھا
اک بار تو ملنے آنا تھا
وہ گھر بھی دے نہ سکا جس نے
اک تاج محل بنوانا تھا
اک سچ تو تھا،اک سچ میں تھی
جو با قی تھا افسانہ تھا
تو بھی تو بچھڑ کے زندہ ہے
پھر میں نے کیوں مرجا نا تھا
وہ شہر الفت کیا کہئے
کچھ اپنا،کچھ بیگانہ تھا
میں اپنی ذات میں تنہا تھی
سنگ اس کے ایک زمانہ تھا
اظہار کے رستے مبہم تھے
چپ چاپ ہی چلتے جانا تھا
تم خود کو کوئی الزام نہ دو
میرے بخت میں چھید پرانا تھا
No comments:
Post a Comment