Showing posts with label 1947. Show all posts
Showing posts with label 1947. Show all posts

Friday, August 7, 2015

The person who gave us Pakistan ..


ء 1941میں جب میں گورنمنٹ کالج لاہورمیں پڑھتا تھا، مجھے حیدر آباد دکن جانے کا اتفاق ہوا۔ اس سفر میں مجاہد حسین صاحب (چشتی مجاہد کے والد) جو گورنمنٹ آف انڈیا کے افسر تھے بھی شامل تھے۔
جب ہم حیدرآباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ قائداعظم محمد علی جناح بھی ایک مقدمے میں وکالت کے سلسلے میں وہاں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ مجاہد حسین صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ ایک وقت قائداعظم کے سیکرٹری کے طور پر کام کرچکے ہیں۔ میں نے اصرار کیا کہ وہ کوئی ایسا رستہ نکالیں کہ ہم قائداعظم کی خدمت میں حاضر ہوسکیں۔
اس وقت تک قائداعظم ہندوستان کے مسلمانوں کے واحد رہنما بن چکے تھے اور خاص طور پر ہر نوجوان ان کی طرف انتہائی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ وہ ایک ریسٹ ہاؤس میں مقیم ہیں۔ ہم راستہ پوچھتے ہوئے وہاں جا پہنچے۔ گیٹ پر ایک چوکیدار مقرر تھا جس نے ہمارا راستہ روکا اور کسی قدر درُشتی سے اعلان کیا کہ کسی کو گیٹ کے اندر آنے کی اجازت نہیں۔ ہم نے کچھ اس کی منت سماجت کی اور یہ بھی یقین دلانے کی کوشش کی کہ مجاہد حسین صاحب قائداعظم کو اچھی طرح جانتے ہیں لیکن وہ نہ مانا اور چلّا چلّا کر ہم پر دھونس جمانے لگا۔ یہ شور ابھی جاری تھا کہ عمارت کا صدر دروازہ کھلا اور برآمدے میں وہ چہرہ نمودار ہوا جس کی تصویر ہر مسلمان گھرانے کی زینت بن چکی تھی۔
قائداعظم حسب معمول نہایت اُجلا اور اعلیٰ سوٹ زیب تن کئے ہوئے تھے اور مجاہد حسین صاحب کو پہچانتے ہی مسکرانے لگے اور ہمیں اندر آجانے کوکہا۔ ہمیں وہ اپنے دفتر میں لے گئے اور مجاہد حسین صاحب سے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا۔ انہوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ لڑکا میرے سر ہوگیا تھا کہ وہ آپ کو دیکھنا چاہتا ہے اوراس غرض کے لیے میں کوئی چارہ کروں۔
یہ سنتے ہی قائداعظم میری جانب گھومے اور انگریزی میں کہا ’’لو میاں اب اچھی طرح دیکھ لو۔‘‘ ان کی شخصیت میں کمال جاذبیت تھی اور ان کے چہرے سے نظر ہٹانا مشکل تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں پڑھتا ہوں اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میرا جواب کچھ گول مول تھا ۔
جس پر انہوں نے کہا کہ ’’اپنی تعلیم پر پوری توجہ دو اور پھر جس کام کا بھی انتخاب کرو اسے اعلیٰ طریق سے انجام دو۔‘‘ پھر انہوں نے آواز دی ’’فاطمہ! ان لوگوں کے پینے کے لیے کچھ لاؤ۔‘‘ جلد ہی ایک معتبر خاتون ٹرے میں دو گلاس شربت لے کر آئیں اور ہمیں پیش کیا۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ ہستی قائداعظم کی ہمشیرہ ہیں۔ جنہوں نے ہمیں یہ کمال عزت بخشی۔ ہم کوئی بیس منٹ تک قائداعظم کی خدمت میں حاضر رہے لیکن میں کئی دنوں، ہفتوں اور مہینوں تک ہر کسی کو انتہائی فخر سے بتاتا رہا کہ میں نے واقعی قائداعظم کو دیکھا ہے اور ان سے باتیں بھی کی ہیں۔
قائداعظم 1945ء میں پشاور تشریف لائے جن دنوں میں وہاں فضائیہ کے ایک یونٹ میں متعین تھا۔ وہ دہلی سے انڈین نیشنل ایئرویز کی اس پرواز سے آ رہے تھے جو دوپہر کے وقت پشاور پہنچتی تھی اور جس پر کوئی چودہ پندرہ سیٹوں والا جہاز چلتا تھا۔ قائداعظم کی متوقع آمد کے سبب ہندوستانی افسروں میں خاصی گرما گرم بحث ہونے لگی جو کبھی کبھی ضرورت سے زیادہ تُرش اور ناخوشگوار بھی ہو جاتی اور جس میں ہمارے ساتھ کے چند ہندو افسران کا گہرا تعصب بھی نمایاں ہو جاتا۔
جس دن قائداعظم کو آنا تھا اس روز پھرخاصی تکرار ہوئی جس کے اختتام پر ایک بنگالی پائلٹ بنام بھاسکرن دت نے اعلان کیا ’’آج میرے جہاز کی مشین گنیں لوڈڈ ہوں گی اور میں اس جہاز کو مارگراؤں گا جس میں جناح آرہا ہے۔‘‘ یہ سن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی اور میں نے اسے للکارا: ’’بچو میرا جہاز تمہارے ساتھ چمٹا رہے گا اور پیشتر اس کے کہ تم اس جہاز کے پاس پھٹکو، میں تمہیں مارگراؤں گا۔‘‘
میں نے اس کے ساتھ ہی ٹیک آف کیا اور اس کے جہاز کو ایک لمحے کے لیے نظر سے اوجھل نہ ہونے دیا۔ خدا کا شکر ہے کہ بھاسکرن دت کی تعلّی خالی بڑ ہی ثابت ہوئی اور قائداعظم کا جہاز بخیریت پشاور پہنچ گیا۔ تاہم اس واقعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ بعض ہندو کتنے متعصب اور کٹر ذہن کے مالک تھے اور اس نقطہ نظر کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کی اصل ذمہ داری درحقیقت اکثریتی مذہب کے متعصب اور غیر روادار عناصر پر عائد ہوتی ہے نہ کہ مسلمانوں پر۔
قائداعظم کا پشاور میں نہایت عالیشان استقبال ہوا اور شام کو انہوں نے اسلامیہ کالج میں ایک جلسے سے خطاب کیا۔ فضائیہ کے اکثر مسلمان افسر بھی اس جلسے میں موجود تھے۔
ان کی شمولیت ایک عظیم لیڈر کی تعظیم اور ان سے عقیدت کا اظہار تھا اور ان کی غرض ہرگز یہ نہ تھی کہ وہ کسی سیاسی کارروائی میں حصہ لیں۔ قائداعظم کی تقریر کا خاص نقطہ یہ تھا کہ وہ انگریزی حکومت سے یہ وعدہ حاصل کرچکے ہیں کہ وہ اس وقت تک ہندوستان کوچھوڑ کر نہیں جائیں گے، جب تک کوئی ایسا سیاسی حل نہ ڈھونڈلیا جائے جسے مسلم لیگ بھی قبول کرے۔ سامعین نے اس تقریر اور یقین دہانی کا انتہائی جوش سے خیر مقدم کیا اور ہم سب خوشی خوشی واپس لوٹے۔
آخری مرتبہ میں نے قائداعظم کو اپریل 1948ء میں ان کے رسالپور کے یادگار دورے کے دوران دیکھا۔ پہلے انہوں نے فضائیہ کی ایک پریڈ کا معائنہ کیا اور پھر جب ہمارے میس میں ناشتے کے لیے تشریف لائے تو فضائیہ کے افسروں کے ساتھ ایک تصویر کھنچوائی جو اب ایک قیمتی یادگار بن چکی ہے۔ پھر انہوں نے برّی فوج کی پریڈ کی سلامی لی جو کوئی دو گھنٹے جاری رہی۔ کمزوری کے باوجود وہ تمام وقت سیدھے کھڑے رہے۔ یہ ان کی قوت ارادی اور ہمت کا ایک بین ثبوت تھا۔
ویسے ان کی یہ خصوصیات پہلے ہی ضرب المثل بن چکی تھیں۔ فضائیہ کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا، ’’طاقتور فضائیہ کے بغیر کوئی بھی ملک حملہ آور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ پاکستان کو اپنی فضائیہ بہت جلد منظم کرنی ہے اور یہ فضائیہ اپنی کارکردگی میں کسی سے بھی کمتر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ یہ الفاظ اب تک ہمارے کانوں میں گونج رہے ہیں۔
ایئر مارشل (ر) ظفر چوھری 1972ء سے 1974ء تک پاک فضائیہ کے سربراہ رہے۔ یہ تحریر ان کی کتاب ’’فضائیہ میں گزرے ماہ و سال‘‘ سے لی گئی ہے۔