یہ بات تو میں وثوق سے نہیں کہ سکتی کہ اشفاق احمد صوفی تھے یا نہیں –
لیکن میں نے کالج میں ہی بھانپ لیا تھا کہ ان کے تیور مختلف ہیں -
ان میں دو باتیں عام لوگوں جیسی نہ تھیں -
صوفی اور عام خلق میں واضح فرق بدی کی "handling" کا ہے -
اپنی فردیت کی سطح پر صوفی بھی ان تمام برائیوں میں وقتاً فوقتاً گرفتار ہوتا ہے جس سے عام انسان دو چار رہتا ہے -
گندہ اور صاف لہو ہر خاکی کے اندر بہتا ہے -
صوفی بھی اپنے اندر جہاد نفس میں مبتلا رہتا ہے اور کبھی کبھی ناکام بھی ہو جاتا ہے -
اسے بھی عشق ہو سکتا ہے -
وہ بھی جھوٹ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے -
حقوق العباد سے غافل ہو سکتا ہے -
صوفی بھی ہر مقام پر ہر وقت اسی طرح خطرے کے زد میں رہتا ہے جس طرح آپ اور میں رہتے ہیں -
لیکن ہر مقام پر صوفی اپنے چھوٹے بڑے گناہوں کو ہم سے مختلف طریقے سے حل کرتا ہے -
جو عام آدمی کے بس کی بات نہیں
توبہ کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو یا اپنے آپ کو معاف کروانا صوفی جلد یا بدیر الله کو راضی کرنے کا فن جانتا ہے -
خان صاحب نے مجھے نسخہ تو نہیں بتایا لیکن قرائن سے لگتا ہے وہ الله کو منانے ، راضی کرنے کا فن جانتے تھے -
دوسرا اہم کام خلق کی رعایت سے ہوا کرتا ہے صوفی برائی کرنے والے سے الله کی مخلوق سمجھ کر محبّت کر جاتا ہے -
چور کی چوری کو برا فعل سمجھتا ہے لیکن چور سے نفرت نہیں کرتا - بلکہ چور کو قطب بننے میں مدد دیتا ہے -
خان صاحب ہر قسم کے لوگوں سے ملتے تھے ، جن میں سارے شرعی عیب تھے - میں نے انھیں کبھی کسی کو اس کے عیب کی وجہ سے چھوڑتے نہیں دیکھا -
وہ کسی کی گوشمالی کرتے نہ نکتہ چینی - شاید چپکے چپکے ان کے حق میں دعا کرتے رہتے ہوں - شید صدقہ خیرات کرتے ہوں لیکن اعلانیہ نہیں -
از بانو قدسیہ راہ رواں صفحہ ٣٩٨
No comments:
Post a Comment