Showing posts with label Mind. Show all posts
Showing posts with label Mind. Show all posts

Saturday, August 22, 2015

Working in the office for too long increases the risk of mental disorders, Research ..

Research

Working in the office for too long increases the risk of mental disorders

Research Working in the office for too long increases the risk of mental disorders
لندن: ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو افراد دفتری اوقات میں طویل گھنٹوں تک کام کرتے ہیں ان میں دماغی امراض کے پیدا ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔
ہرملازم کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد سے جلد دفتر کے کاموں کونمٹا کراپنے گھرکی راہ لے شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو کہ دفتر میں طویل اوقات تک کام کرنے کو ترجیح دے لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ دفتر کے کاموں سے جلدی جان چھوٹ جائے نہ چاہتے ہوئے بھی زیادہ دیر تک کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انسان اکتاہٹ کا شکار ہوجا تا ہے۔ اسی حوالے سے برطانیہ میں ایک تحقیق کی گئی جس میں یہ بات سامنے آئی کہ دفتر کے اوقات میں زیادہ دیر تک کام کرنے سے انسان میں دماغی امراض کے پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جو افراد پورے ہفتے میں 55 گھنٹے کام کرتے ہیں ان میں دماغی امراض کا خدشہ 33 فیصد تک بڑھ جاتا ہے جب کہ نہ صرف دفتری اوقات میں دیر تک کام کرنا بلکہ ہفتے میں چھٹی کے دن بھی کام کرنا صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔

Research

Tuesday, August 18, 2015

Only 10 minutes to detect cerebral stroke up helmets ..

Health Experts

Only 10 minutes to detect cerebral stroke

Health Experts Only 10 minutes to detect cerebral stroke
اسٹاک ہوم: ماہرین نے جان بچانے والا ہیلمٹ تیارکرلیا ہے جو پہننے والے کے دماغ کا مطالعہ کرتے ہوئے اندازہ لگا سکتا ہے کہ دماغ میں خون جما ہے یا خون بہا ہے اور دماغی اسکیننگ سے قبل بہت حد تک فالج یا کسی اورمرض کا درست اندازہ لگاسکتا ہے۔
اس ہیلمٹ کوسوئیڈن کی سلگرینسکا یونیورسٹی اسپتال میں 500 مریضوں پردو مختلف مطالعوں میں آزمایا جارہا ہے جب کہ ہیلمٹ کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این ایچ ایس) میں متعارف کرایا جائے گا تاکہ ایمرجنسی میں لائے جانے والے مریضوں میں فوری طور پر دماغی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔ اسی طرح کسی مریض کو اسپتال لے جانے سے قبل ایمبولینس میں ہی اس کی کے دماغ میں چوٹ، رگ پھٹنے یا پھر خون کا لوتھڑا جم جانے کا پتا لگالیا جائے گا جس سے مریض کو اسپتال میں علاج کے دوران فائدہ ہوگا۔
اس ہیلمٹ میں مائیکروویو ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے جو بتاسکتی ہے کہ دماغ کی رگ پھٹی ہے یا پھراس میں خون کا لوتھڑابنا ہے جب کہ 85 فیصد کیسوں میں خون کا لوتھڑا دماغی رگ میں جم جاتا ہے اورمریض بے ہوش ہوجاتا ہے اوردنیا بھرمیں اس سے بڑی تعداد میں اموات ہوتی ہیں۔ جب مائیکروویودماغ میں جاتی ہی تو وہ اسٹروک کے مقام کا ایک گراف بتاتی ہیں جس سے مرض کا پتا لگایا جاسکتا ہے جس سے مرض کا اندازہ لگاتے ہوئے بروقت اس کی جان بچائی جاسکتی ہے۔

Health Experts



Sunday, August 16, 2015

Changing concept of human intelligence ..

انسانی ترقی کے ساتھ انسانی ذہانت کا تصور بھی وسیع ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں ذہانت کے بارے میں پایا جانے والا روایتی تصور بہت محدود ہے۔ وہ شخص جو حساب کتاب میں ماہر ہو‘ زبان و بیان پر عبور رکھتا ہو یا منطقی تصورات آسانی سے سمجھ سکتا ہو ذہین سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ذہانت کے اس کے علاوہ بھی پہلو ہیں‘ جو اکثر نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔
ممتاز ماہر نفسیات ہورڈگارڈنر نے ذہانت کا دلچسپ اور وسیع تصور پیش کیا۔ اس نے ایسے بچوں اور بڑوں کو بھی ذہین قرار دیا جن کی ذہانت ہماری ذہانت کی مروجہ تعریف سے مختلف ہوتی ہے۔ گارڈنر کے خیال میں ذہانت کی 8 مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ تمام افراد میں یہ ذہانت مختلف مقدار میں پائی جاتی ہیں۔
ذہانت کی پہلی قسم
ذہانت کی اقسام میں پہلی قسم لسانی ذہانت یعنی زبان کے درست استعمال کی صلاحیت سے متعلق ہے۔ یہ ذہانت رکھنے والے سننے‘ لکھنے اور بولنے کی اچھی مہارتیں رکھتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کو کہانیاں اور لطائف سناتے نظر آتے ہیں۔ سیاستدانوں‘ لکھاری‘ شاعر‘ ادیب‘ صحافی‘ ایڈیٹرز‘ وکلا‘ ترجمہ کرنے والے اسی ذہانت سے کام لیتے ہیں۔

ذہانت کی دوسری قسم
منطقی اور حسابی ذہانت اعداد و شمار اور منطقی تصورات کو بہتر انداز میں سمجھنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتی ہے۔ جب ہم کسی شخص کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اس کا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے یا وہ اپنے ذہن میں لمبا چوڑا حساب فوراً کر لیتا ہے تو یہ دراصل اس کی حسابی ذہانت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ حساب دان‘ سائنسدان‘ انجینئر‘ ڈاکٹر‘ اکاؤنٹنٹ‘ شطرنج کے کھلاڑی ایسی ہی ذہانت رکھتے ہیں۔ آئن سٹائن اور بل گیٹس اس ذہانت کی نمایاں مثالیںہیں۔

ذہانت کی تیسری قسم
نغمگی یا موسیقی میں دلچسپی رکھنے والے بھی ذہین لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کو موسیقی سنتے‘ کمپوز کرتے اور گاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ سروں کی خوش آہنگ ترتیب آسانی سے یاد کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ کام کرتے ہوئے بھی موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ اچھے شاعر‘ موسیقار اسی ذہانت کا غیر معمولی مظاہرہ کرتے ہیں۔

ذہانت کی چوتھی قسم
بعض افراد میں جسمانی حرکات و سکنات سے تعلق رکھنے والی ذہانت پائی جاتی ہے۔ یہ اپنے جسم کی حرکات کو مہارت کے ساتھ کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپنے کام کے دوران آنکھ اور ہاتھ کے درمیان بہترین ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اچھے کھلاڑی ‘ دستکار‘ اداکار اسی ذہانت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ان افراد میں سپورٹس مین، اپنے فن میں مہارت رکھنے والے بڑھئی‘ ظروف ساز‘ درزی بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔

ذہانت کی پانچویں قسم
بعض افراد چشم تصور سے چیزوں کو ترتیب دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تصویروں میں سوچتے ہیں(Think in Pictures) انسانی دماغ کی پہلی زبان بھی تصاویر میں سوچنا ہے۔ یہ اپنے گردو پیش سے آگاہی اور سمت کا تعین کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ پینٹنگ اور ڈرائنگ میںاپنے خیالات کا اظہار کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ یہ لوگ آرکیٹیکٹ ‘ جہاز رانی کے ماہر‘ ڈیکوریٹر‘ معمار‘ ڈیزائز‘ مجسمہ ساز‘ شطرنج کے کھلاڑیوں کے روپ میں اپنی صلاحیتوں کا جادو جگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ذہانت کی چھٹی قسم
ذہانت کی ایک قسم مظاہر قدرت سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسی ذہانت والے افراد قدرتی مناظر پسند کرتے ہیں۔ نباتات کے آپس میں اختلافات کو سمجھنے اور پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح جانوروں میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ موسم میں تغیر کو نوٹ کر لیتے ہیں۔ باغبان‘ کاشت کار‘ شکاری اور اچھے باورچی اسی ذہانت سے اپنے کام کو بہتر سے بہتر بناتے ہیں۔

ذہانت کی ساتویں قسم
انٹراپرسنل (خودکلامی) ذہانت سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو‘ اپنے جذبات ‘ موڈ اور خواہشات کو کیسے سمجھتے ہیں۔ فلسفہ‘ نفسیات اور تحقیق کے میدان میں کام کرنے والے افراد انٹراپرسنل ذہانت رکھتے ہیں۔ اسی ذہانت کے حوالے سے 2 بڑے نام افلاطون اور ارسطو کے، لئے جا سکتے ہیں۔

ذہانت کی آٹھویں قسم
انٹرپرسنل(دو افراد کے درمیان ابلاغ) ذہانت سے مراد یہ ہے کہ ہم دوسرے لوگوں سے کیسا تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو کیسے سمجھتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کیسے کرتے اور اپنی بات کیسے اس انداز میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں بآسانی سمجھ آ سکے۔ یہ افراد دوسروں کے ساتھ ملنے جلنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی تعلق سے سیکھتے ہیں۔ اجتماعی سرگرمیوں میں خوش رہتے ہیں اور دوسروں کے نقطہ نظر کو سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ذہانت رکھنے والے افراد سماجی تقریبات میں شرکت کرنا پسند کرتے ہیں۔

اس تصور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنی زندگیوں کو مختلف انداز سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہم بچپن میں کن Potentials پر زیادہ توجہ نہیں دے پائے۔ ہم مختلف کورسز‘ مشاغل اور Self improvementکے دوسرے پروگراموں میں شرکت کے ذریعے ان Potentialsکو ترقی دے سکتے ہیں۔
یہ تصور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد موجود ایسے باصلاحیت لوگوں سے سیکھیں جن کی ذہانت آئی کیو کے ٹیسٹ سے جانچے جانے والی ذہانت سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ لوگ مختلف شعبوں میں پائے جاتے ہیں۔ مختلف اداکاروں کو حرکات و سکنات کے ذریعے ابلاغ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ماہر تعمیرات کی زبان عام استعمال کی زبان سے کتنی مختلف ہے۔ اس مشاہدے سے ہمارے کام اور سیکھنے کے عمل میں بہتری آئے گی۔ اگر ہم اپنی صلاحیتوں کو اچھی طرح پہچان لیں تو ہمارے سیکھنے کا عمل بہتر ہوجائے گا اور ہم تعمیری انداز میں معاشرے کے لئے کام کر سکتے ہیں۔

Wednesday, August 12, 2015

It is possible to reduce epileptic seizures listen to music, Study

اوہایو: امریکی ماہرین کے مطابق مرگی کے مریض اگر موسیقی سنیں تو اس سے مرض کے دوروں کی شدت اور تعداد دونوں میں کمی کی جاسکتی ہے۔
اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے مطابق صحت مند افراد کے مقابلے میں مرگی کے مریضوں کا دماغ موسیقی پر مختلف انداز میں ردِ عمل دکھاتا ہے، مریضوں نے جان کولٹرن اور موزارٹ کی موسیقی پر مرگی کے دوروں کی کم شدت کا مظاہرہ کیا۔ ماہرین نے پہلے 10 منٹ تک  مریضوں کو خاموش رکھا اوران کی دماغ کی لہریں نوٹ کیں اور پھر 10 منٹ موسیقی سناکر ان لہروں کا دوبارہ جائزہ لیا گیا۔
مطالعے کے مرکزی کردار ڈاکٹر کرسچیئن کیریٹن کے مطابق مرگی کے مریضوں کی اکثریت کے ایک مخصوص دماغی حصے ’’ ٹیمپرل لوب‘‘ میں سرگرمی ہوتی ہے جو احساس کو بامعنی انداز دیتا ہے اور 80 فیصد مریضوں کے دورے میں دماغ کا یہی حصہ شامل ہوتا ہے لیکن آواز اور موسیقی کا احساس دلانے کا کام بھی یہی حصہ کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مرگی کے دورے میں دماغ کا یہ حصہ خود کو ہی پروسیس کرتا ہے اور مریض بے حس ہوکر گرجاتا ہے لیکن جب مریضوں کو مخصوص میوزک سنایا گیا تو ’’ٹیمپرل لوب‘‘ موسیقی کو پروسیس کرنے لگا اور انہیں کوئی دورہ نہیں پڑا۔
تحقیق کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ مرگی کے دورے میں موسیقی سننے کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ مرگی کے دوروں سے بچ سکتے ہیںجب کہ  دوسری جانب ایک اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ موسیقی کا اثر کسی درد کو دور کرنے والی دوا کی طرح ہوتا ہے جو تکلیف کے احساس کو کم کردیتا ہے۔

Saturday, August 8, 2015

The foods that cause an increase in mental ability ..

ممبئی: دماغ بدن کا انتہائی اہم حصہ ہے جو جسم کے تمام افعال کنٹرول کرتا ہے اوراسے مزید بہتر بنانے کے لیے قدرت نے اہم ترین پھل اورسبزیاں پیدا کی ہیں جن میں چند اہم اشیا ایسی ہیں جو دماغی امراض کو نہ صرف دور کرسکتی ہیں بلکہ اس کی صلاحیت کو بھی بڑھا سکتی ہیں۔
اخروٹ:
ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ روزانہ نصف مٹھی اخروٹ کھانے سے یادداشت بہترہوتی ہے، اخروٹ کو دماغ کا ایندھن بھی قراردیا جاسکتا ہے جودماغی افعال کوبہتر بناتے ہیں اس میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈز اور اینٹی آکسیڈنٹس موجود ہوتے ہیں جب کہ اس میں شامل وٹامن ای ذہنی صلاحیت میں کمی کو روکتا ہے۔ اخروٹ کوکشمش اور انجیر کے ساتھ ملانے کے بھی بے حد فوائد ہیں اگر آپ دن میں بادام اور کاجو جیسی کوئی اور شے روزانہ کھاتے ہیں تو اس کی 7 سے 8 گریاں روزانہ کافی رہیں گی۔
 انڈے:
آملیٹ اور ہاف فرائی انڈہ ناشتے میں کھاکر اپنے دن کا آغاز کریں کیونکہ اس میں کولائن نامی ایک کیمیکل ہوتا ہے جو دماغی خلیات (سیلز) میں نیوروسگنلزکو بہتر بناتا ہے اور مجموعی طور پر یادداشت، دماغی صلاحیت بہتر ہوتی ہے اسی لیے ابلے ہوئے انڈے پر لیموں کا تازہ رس، زیتون کا تیل ، پیاز اور کالی مرچیں چھڑک کا انڈے کی سلاد بھی بنائی جاسکتی ہے اوراگر کوئی مجبوری نہ ہو تو روزانہ ایک انڈہ ضرور کھائیں اور اگر انڈہ نہ کھاسکیں تو گوبھی اور جھینگوں سے کولائن حاصل کیا جاسکتا ہے۔

 دہی:
دہی میں ٹائروسین نامی امائنو ایسڈ ہوتا ہے جو اعصابی خلیات کے رابطوں کو مضبوط کرتا ہے اور دہی کا استعمال دماغ کو تروتازہ اور آپ کو چوکنا رکھتا ہے۔
اسے کھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دہی پر پسے ہوئے سورج مکھی بیج چھڑک دیں یا پھر بیریز ڈال کر اسے میٹھا کرکے بھی کھایاجاسکتا ہے۔ روزانہ ایک کپ دہی ضرور استعمال کریں اسی طرح ٹائروسین کیلوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
 دارچینی:
ہرگھر میں موجود دارچینی ایک جادوئی مصالحہ ہے جس کی خوشبو بھی دماغ پر بہتر اثرات مرتب کرتی ہے اس میں موجود دہ اہم اجزا پرواینتھوسائناڈنس اور سینامیلڈیہائڈ دماغ میں خون کی روانی کو بڑھاتے ہیں اور دماغ کو تیز کرتے ہیں۔
اسی لیے صبح کے وقت دار چینی کی ایک چٹکی بہت مفید ثابت ہوتی ہے اس کے علاوہ یہ ذیابیطس کے مرض کو بھی دور کرتی ہے اس کے علاوہ کئی طرح کی بیریوں میں بھی یہ دونوں اجزا موجود ہوتے ہیں۔
ہلدی:
ہلدی میں 2 درجن سے زائد ایسے کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو نہ صرف جلن کو کم کرتے ہیں بلکہ الزائیمر بھگاتے ہیں اور دماغ کو بہتر رکھتے ہیں۔ رات کے اوقات میں ہلدی کو دودھ میں ڈال کر پینا فائدہ مند ہے۔