’’میں ضرور اپنی یادیں بتاؤںگا مگر پہلے میری طرف سے موجودہ کرکٹرز سے ایک سوال کرو کہ پاکستان نے ان کیلیے بہت کچھ کیا مگر جواب میں انھوں نے ملک کوکیا دیا‘‘؟
جشن آزادی کے موقع پر جب میں ایک سابق کرکٹر سے تاثرات لینے پہنچا تو انھوں نے مجھ سے الٹا یہ سوال داغ دیا، ان کی بات غلط نہ تھی پھر وہ دل کا غبار نکالنے لگے، انھوں نے مجھے بتایا کہ ’’ ہمارے زمانے میں ہمیں جتنا معاوضہ ملتا تھا اس کی ہم بچوں کیلیے ٹافیاں ہی خرید سکتے تھے مگر اس کی کبھی کسی سے شکایت نہ کی، ہمارے لیے سب سے اہم بات گرین کیپ تھی، دیار غیر میں جب سبز ہلالی پرچم لہراتا دیکھتے تو اس خوشی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا تھا، اب تو تم لوگ 14 اگست کو ہی پرچم الماریوں سے نکالتے ہو، گھر یا کار پر لگاتے ہو یا شرٹ پر 20روپے کا بیج لگا کر سمجھتے ہو کہ پاکستانی ہونے کا حق اداکر دیا، ایسا نہیں ہے‘‘۔
وہ لمبا لیکچر دینے لگے ایسے میں جب میں نے سامنے رکھا چائے کا کپ اٹھایا تو میری بیزاری بھانپ گئے اور کہنے لگے’’ لگتا ہے بور ہو رہے ہو، چلو میں پھر کرکٹ کی طرف آ جاتا ہوں تو ہم طویل سفر کر کے دور دراز کے ممالک جاتے مگر ماتھے پر شکن تک نہ ہوتی، اب تو بزنس کلاس کا سفر کر کے بھی کرکٹرز شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں، ہمارے دور میں جب میچ ہوتا تو ہمیں یہ فکر نہیں ہوتی تھی کہ اچھا پرفارم کیا تو بورڈ سے بونس ملے گا، یا سینٹرل کنٹریکٹ میں رقم بڑھانے کیلیے دباؤ ڈال سکیں گے، ہم تو یہ سوچتے تھے کہ ٹیم جیتی تو پاکستان کا نام روشن ہوگا، پہلے تو انٹرویوز میں کھلاڑی رسماً کہہ دیتے تھے کہ ملک و قوم کیلیے کھیلتے ہیں مگر اب تو ایسا بھی نہیں ہوتا‘‘
میں نے جواب دیا سر کوئی مفت میں کیسے کھیل سکتا ہے تو ایکدم وہ غصے میں آ کر کہنے لگے ’’ ایسا کون کہہ رہا ہے پیسے ضرور لو مگر ترجیح پاکستان کو دو،اس وقت ایک اوسط قومی کرکٹر بھی سالانہ 40،50لاکھ روپے کما لیتا ہو گا، اسٹارز کی آمدنی تو کروڑوں میں ہے، اس کے باوجود وہ کبھی معاوضوں کیلیے لڑتے ہیں تو کبھی کچھ اور شکایت ہوتی ہے، کوئی خوش نہیں لگتا، بعض لوگ یہ پوائنٹ دیتے ہیں کہ ہمارا انٹرنیشنل کیریئر کتنا طویل ہے لہذا جتنا کما سکتے ہیں کمائیں گے، یہی سوچ انھیں کرپشن کی جانب مائل کرتی ہے، اب مجھے یہ بات بتاؤ کہ اس وقت کوئی ایسا نوجوان یا سینئر کرکٹر ہے جو کسی ادارے میں ملازم نہ ہو،ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس کی جاب جاری رہتی ہے، ایسے میں روزی روٹی کا مسئلہ نہیں، اصل بات لالچ ہے، ملک کیلیے کھیلنا چھوڑ دیا اسی لیے ٹیم کا آج یہ حال ہے، ہاں میں سمجھ گیا کہ تم کیا کہنے والے ہو کہ ابھی سری لنکا کو تو ہرایا ہے،ایک سیریز کی فتح پر اتنا خوش نہ ہو آگے بہت چیلنجز آنے ہیں‘‘۔
میں نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو وہ مزید کہنے لگے کہ ’’بعض سابق کرکٹرز بھی کم نہیں، جاوید میانداد بڑا پاکستان کی باتیں کرتا ہے مگر بورڈ میں کئی سال ڈائریکٹر جنرل رہ کر کروڑوں روپے تنخواہ بغیر کچھ کام کیے لیے، وہ کیا تھا؟ وسیم اکرم بھارت بھاگا بھاگا جاتا ہے مگر پی سی بی بلائے تو 10دن چند گھنٹے کوچنگ کے بھی لاکھوں روپے طلب کرتا ہے، میڈیا میں ان سب سے باتیں کرا لو مگر حقیقت کچھ اور ہے، بعض کھلاڑی شکوے شکایت کرتے پھرتے ہیں تو مجھے بڑا غصہ آتا ہے،اگر پاکستان انھیں کرکٹ میں مواقع نہ دیتا تو اپنے گاؤں دیہات میں کھیتی باڑی کر رہے ہوتے، وہ جو ـــــ بڑا ہیرو بنا پھرتا ہے اس کی اوقات 2ہزار روپے ماہانہ کی نہ تھی، اسی ملک نے اسے ارب پتی بنا دیا، کوئی برطانوی تو کوئی آسٹریلوی لڑکی سے شادی کر کے وہاں کا شہری بنا ہوا ہے، مگرملک کا احسان نہیں مانتا، برا بھلا کہتا رہتا ہے کہ یہاں ایسا ہے ویسا ہے، پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اتنا نہیں کما سکتے جتنا کرکٹرز چند روز میں کما لیتے ہیں، انھیں یہ سوچنا چاہیے۔ اور چند بورڈ حکام کے بارے میں بھی سنو، وہ کہتے تھے یا ہیں کہ ہم تو ملک کیلیے اعزازی کام کر رہے ہیں اب تو ایسی بات پر ہنسی بھی نہیں آتی، قریبی عزیزوں کو نوازنا، اہل خانہ کے ساتھ مفت ہوائی سفر، لاکھوں روپے الاؤنس اگر یہی ملک کی خدمت ہے تو سب سے ایسی خدمت لینی چاہیے، فلاں چیئرمین جب کراچی آتے تو اہل خانہ اور دوستوںکی فائیو اسٹار ہوٹل میں دعوت کا بل کون بھرتا تھا؟‘‘۔
میں اب گھڑی دیکھنے لگا تو کہنے لگے کہ ’’ جاتے جاتے ایک سوال کا جواب دے دو، کیا تم بھارتی فلمیں نہیں دیکھتے؟ اگر کوئی تم سے کہے کہ آؤ سلمان خان یا کترینہ کیف سے ملوانے لے جاتا ہو تو کیا انکار کر دو گے؟‘‘ نہیں ناں، تو بھائی اپنے کالمز میں بھارت کے ساتھ کرکٹ روابط کی مخالفت کرنا چھوڑدو، میں نے گذشتہ دنوں پڑھا تھا جو تم نے لکھا‘‘ میں وضاحت دینے لگا تو وہ کہنے لگے کہ ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں، بس اگلی بار جب لکھو تو یہ ضرور لکھنا کہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں، اس ملک نے ہی ہمیں اپنے اپنے شعبے میں کامیابیاں دیں، اگر ہم کچھ نہیں کر پا رہے تو اس میں اپنی ہی کوتاہی ہو گی، ملک کو برا بھلا نہ کہیں،14اگست اور 23مارچ کے علاوہ بھی حب الوطنی کا مظاہرہ کیا کریں، اگر ہم خود کو ٹھیک کر لیں تو ہمارے ملک میں جو مسائل ہیں وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگیں گے‘‘۔
اسی کے ساتھ ہم نے ہاتھ ملائے اور میں واپس روانہ ہو گیا، راستے بھرمیں یہی سوچتے رہا کہ انھوں نے باتیں تو سچی کیں البتہ تلخ تھیں، بہت سے لوگوں کو شاید پسند نہ آئیں ،لیکن اگر ہمیں کوئی تبدیلی لانی ہے تو آغاز اپنے آپ سے کرنا ہوگا، صرف ’دل دل پاکستان‘ گانے سے کوئی پاکستانی نہیں بن جاتا ہمیں دل سے پاکستانی بننا چاہیے۔