Thursday, June 27, 2013

حکایات شیخ سعدی رحم��ہ اللہ علیہ


دو شخص آپس کی مخالفت میں اس حد تک پہنچے ہوئے تھے کہ چیتے کی طرح ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی سوچتے تھے۔ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہ تھے۔ اک دوسرے کی نظروں سے بچنے کے لیے انہیں آسمان کے نیچے جگہ نہ ملتی تھی۔ ان میں ایک کو موت نے آ دبوچا۔ دوسرے کو اس کی موت کی بہت خوشی ہوئی۔ کافی عرصے بعد وہ اس کی قبر کے باس سے گذرا تو اس نے دیکھا کہ جس متکبر کے مکان پر سونے کی پاش ہوئی تھی آج اس کی قبر مٹی سے لپی ہوئی تھی۔ غصے میں آکر اس نے مرے ہوئے دشمن کی قبر کا تختہ اکھاڑ ڈالا۔ دیکھا تو تاج پہننے والا سرایک گڑھے میں پڑا ہوا تھا۔اس کی خوبصورت آنکھوں میں مٹی بھری ہوئی تھی۔ وہ قبر کی جیل میں قید ہو چکا تھا اور اس کے جسم کو کیڑے مکوڑے کھارہے تھے۔اس کا موٹا تازہ جسم پہلی رات کے چاند کی طرح دبلا ہو چکا تھا اور اس کا سر و قد تنکے کی طرح باریک ہو گیا تھا۔ اس کے پنجے اور ہتھیلی کے جوڑ بالکل علیحدہ ہو چکے تھے۔ دشمن کی یہ حالت زار دیکھ کر اس کا دل بھر آیا۔ اس کے آنسوئوں سے قبر کی مٹی تر ہو گئی۔ وہ اپنے کرتوتوں پر شرمندہ ہو گیا اور تلافی کے لیے اس نے حکم دیا کہ اس کی قبر پر لکھ دیا جائے کہ کوئی شخص کسی دشمن کی موت پر خوش نہ ہو کیونکہ وہ خود بھی زیادہ دن موت کے ہاتھوں سے بچ نہیں سکے گا۔ اس کی یہ بات سن کر ایک خدا شناس آدمی کو رونا آگیا اور کہنے لگا۔ اے قادرمطلق خدا! اگر تو نے اس کی بخشش نہ کی جس کی حالت زار پر دشمن بھی رو پڑا تو تیری رحمت پر بڑا تعجب ہوگا۔ ہمارا جسم بھی کسی دن ایسا ہو جائے گا کہ اسے دیکھ کر دشمنوں کو بھی رحم آجائے گا۔ دو دن کی زندگی ہے کوئی نہیں جانتا موت کب آجائے اس زندگی میں کسی چیز پر غرور اور تکبر نہ کرنا چاہیے . . .

No comments:

Post a Comment