محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی عمل سے وابستہ نہیں ہوتا ۔اچھائی برائی ، کمی بیشی ، اونچ نیچ محبّت کے سامنے یہ سب بیکار کی باتیں ہیں ۔محبّت کرنے والا محبوب کی خوبیاں خرابیاں نہیں دیکھ پاتا ، بلکہ محبوب کی خرابیوں کو اپنی کج ادائیوں کی طرح قبول کر لیتا ہے ۔ڈیروں پر اسی محبّت کا مظہر نظر آتا ہے اور غالباً اسی محبّت کی تلاش خلق کو بابوں کے پاس لے جاتی رہی ۔مشکل یہ ہے کہ کچھ لوگ محبّت کے اہل نہیں ہوتے ۔انھیں اپنی ذہانت پر اس قدر مان ہوتا ہے کہ وہ دوسروں میں کیڑے نکال کر ، کسی اور کا قد چھوٹا کر کے ، کسی دوسری کی خوبیوں میں خرابی کا پہلو نکل کر اپنی عظمت کی کلا جگاتے ہیں ۔میں یہ نہیں کہ رہی کہ خان صاحب فرشتہ تھے ۔ان میں انسان ہونے کے ناطے خوبی اور خرابی کے دریا ساتھ ساتھ بہتے ہونگے ۔ان میں بھی حب جاہ کی طلب ہوگی ۔لیکن ان کے چاہنے والوں کی توجہ کبھی ادھر نہیں گئی ۔وہ کبھی ان کی بشریت کی طرف دھیان نہ دے پائے ۔اور انھیں ایک بہت بڑا آدمی ، برگزیدہ صوفی ، اور انمول ادیب سمجھتے رہے ۔لیکن سوسائٹی میں کچھ نکتہ چیں قسم کے لوگ رہتے ہیں جو محبتی طریقہ نہیں اپنا سکتے ۔اور پکڑ پکڑ کر سینت سینت کے خان صاحب کی غلطیاں نکالنے کے درپے رہتے ہیں ۔دونوں قسم کے لوگوں میں صرف رویے کا فرق ہے ۔مہربان لوگوں کا رویہ ماں کی طرح ستر پوشی کا ہے اور عیب ڈھونڈھنے والے اپنے سچ پر اپنی ذہانت پر اعتماد کرتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment