ایک بادشاہ کو دنیا سے بڑی رغبت تھی۔ وہ طویل عمر کا خواہش مند تھا۔ محلات' لونڈیاں' غلام' عیش و عشرت کی زندگی' یہ سب اسے بھلا محسوس ہوتا تھا۔ اب وہ کسی ایسے نسخے کی تلاش میں تھا جو اسے تا قیامت حیات رکھتا۔ اسے اس کے دانش ور وزیر نے مشورہ دیا کہ اس کے لیے بادشاہ سلامت کسی درویش سے مشورہ کریں۔ اس کے پاس جوہر کیمیا آب حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قریب کے جنگل میں ایک درویش نے کٹیا بنا رکھی تھی اور شب و روز عبادت میںمصروف تھا۔ ایک روز بادشاہ سلامت اپنے غلاموں کے جھرمٹ میں درویش کے پاس پہنچ گئے۔ درویش نے کھجور کی چٹائی پر اپنے سامنے بٹھا لیا اور روٹی کے خشک ٹکڑے بادشاہ سلامت کے سامنے ایک پیالے میں رکھ دیے۔ بادشاہ نے انکساری سے عرض کی۔ جناب یہ مجھ سے نہ کھائے جائیں گے۔ درویش نے درشت لہجہ اختیار کر کے کہا۔ ''بادشاہ عارضی! اگر تو یہ ٹکڑے نہیں کھا سکتا تو دوزخ میں زقوم کا درخت جو ہے بہت سخت ہے وہ کیسے چبائے گا۔ تو اپنا مدعا بیان کر اور راہ لے۔ میرے اور اللہ کی یاد میں دیوار نہ بن کہ وقت بہت کم ہے۔'' بادشاہ نے عرض کی۔ ''اس دنیا کی زندگی پر روشنی ڈالیے اور یہ بتائیے کہ یہ کتنی ہے؟'' درویش بولا۔ ''ایک چوکور کمرہ بنوا اس پر کاغذ کی چھت ڈال اور اس میں کوئی شہتیر' بالا نہ ہو۔ پھر اس چھت پر بیٹھ جا۔'' بادشاہ بولا۔ ''میں جونہی اس چھت پر بیٹھوں گا کاغذ پھٹ جائے گا اور میں دھڑام سے کمرے میں گر جائوں گا اس پر تو میں ایک ثانیے کے لیے بھی نہیں بیٹھ سکتا؟'' درویش بولا۔ ''عقلمند کو اشارہ کافی ہے۔ اس دنیا کی زندگی کاغذ کی چھت ہے۔ بندہ آیا اور گیا۔ عمر گزرتے دیر نہیں لگتی۔'' بادشاہ فوراً اپنے مطلب کی بات پر آگیا اور بولا۔ ''مجھے طویل عمر کا کوئی پوشیدہ رارز بتائیں۔'' درویش بولا۔ ''دن رات اللہ کی حمد و ثناء اور عبادت کر۔'' حدیث پاک ہے قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے اور جنت کے باغوں میں سے ایک باغ' تو عبادت گزار بن اور قبر کا دائمی آرام و سکون اور وہاں کی قیامت تک کی زندگی حاصل کرلے۔ بادشاہ پر اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے محلات کو خیر باد کہا اور جنگل میں گوشہ نشین ہوگیا۔
No comments:
Post a Comment