شیخ عبد القادر جیلانی اپنا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار سخت مہنگائی کے ایام میں مجھے بہت ہی تنگی کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ کئی دن تک مجھے کچھ کھانے کو نہ ملا صورت حال یہ تھی کہ میں گری پڑی چیزیں اٹھا کر کھاتا رہا یہاں تک کہ ایک دن سخت بھوک کی وجہ سے میں گھر سے نکلا اور دریا کی طرف چلا کہ شاید وہاں کوئی سبزی کا پتہ یا اور کوئی چیز مل جائے جس سے میں اپنے بھوک کی آگ بجھاؤں، اس تلاش میں جس جگہ بھی پہنچتا دیکھتا کہ فقیر و مسکین لوگ ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے ہیں چنانچہ میں شرما کر واپس ہو جاتا۔ یہ صورت حال دیکھ کر وہاں سے واپس ہوا کہ شاید شہر میں کوئی گری پڑی چیز بھوک مٹانے کے لئے مل جائے لیکن کوئی چیز کھانے کے لئے نہ مل سکی اب میں بہت تھک چکا تھا اور مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہ گئی تھی اس لئے ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گیا اور موت کا انتظار کرنے لگا ، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ ایک اجنبی نوجوان مسجد میں داخل ہوتا ہے اس کے پاس روٹی اور بھونا ہوا گوشت تھا وہ بیٹھ کر کھانے لگا، میں اس کی طرف للچلائی نظروں سے دیکھ رہا تھا، وہ جب بھی کوئی لقمہ اٹھا تھا تو لالچ سے میرا منہ کھل جاتا کچھ دیر میں وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ بسم اللہ کرو، میں نے انکار کیا لیکن اس نے قسم دلائی کہ تمہیں ضرور کھانا ہے چنانچہ میں بھی اس کے ساتھ تھوڑا تھوڑا کھانے لگا اس نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو، کیا کرتے ہو اور تمہارا گھر کہاں ہے ؟ میں نے اسے بتلایا کہ میں گیلان کا رہنے والا ایک متفقہ [طالب فقہ] ہوں، اس نے کہا کہ میں بھی گیلان کا رہنے والا ہوں، کیا تم مجھے ایک گیلانی نوجوان کے بارے میں کچھ بتلا سکتے ہو جس کا نام عبد القادر ہے اسے لوگ سبط ابو عبد اللہ الصومعی الزاہد کے نام سے جانتے ہیں، میں نے جواب دیا کہ وہ تو میں ہی ہوں، یہ سن کر وہ پریشان ہو گیا ، اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم اے بھائی میں جب بغداد پہنچا تو میرے پاس کچھ زاد سفر باقی تھا، میں تمہارے بارے میں پوچھتا رہا لیکن تمہارے بارے میں کسی نے کوئی خبر نہ دی، یہاں تک کہ میرا زاد راہ ختم ہو گیا، حتی کہ تین دن ایسے گزر گئے کہ میرے پاس تمہاری امانت کے علاوہ کوئی اور چیز باقی نہ رہ گئی، اس لئے جب آج چوتھا دن ہوا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھوک پر تین دن گزر گئے اب تو میرے لئے مردار بھی حلال ہے اس لئے تمہاری امانت میں ایک روٹی اور بھونے ہوئے گوشت کے اس ٹکڑے کی قیمت لے لی، یہ لو کھاؤ یہ تمہارا مال ہے اور میں اب تمہارا مہمان ہوں ہم نے اس سے پوچھا کہ اصل قصہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ تمہاری ماں نے مجھے آٹھ دینار دے کر بھیجا تھا واللہ اس میں سے ہم نے کوئی خیانت نہیں کی ہے ، شیخ کہتے ہیں کہ میں نے اسے تسلی دی، اس کے دل کو اطمینان دلایا اور جو امانت لے کر آیا تھا اس میں سے کچھ اسے بھی دے دیا۔ [السیر ۴۴۴، ۴۴۵/ ۲۰، ذیل الطبقات ۲۹۸/۱]
No comments:
Post a Comment