Saturday, August 15, 2015

Super League will become the super-flops?

’’ایک بار میں نے اگر کمٹمنٹ کر لی تو اس کے بعد اپنے آپ کی بھی نہیں سنتا‘‘
قارئین آپ نے یہ مشہور فلمی ڈائیلاگ ضرور سنا ہو گا، ان دنوں پی سی بی اس کی عملی تصویر بنا ہوا ہے، اس کا حال ایک ضدی بچے جیسا ہو چکا جسے ہر حال میں جو بات ٹھان لی اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے چاہے راہ میں جتنے بھی کانٹے آئیں یا بعد میں جو بھی ہو، میں دیار غیر میں ہونے والی پاکستان سپر لیگ کی بات کر رہا ہوں جس کے انعقاد کیلیے بورڈ بے تاب ہے، اس وقت ویسے ہی انٹرنیشنل ٹیموں کی ملک میں آمد نہ ہونے سے خزانے میں اضافہ نہیں ہو رہا، آپ زمبابوے کی بات نہ کریں، ان بیچارے غریب کرکٹرز کو تو بھاری معاوضے کا لولی پاپ دے کر بلایا گیا تھا، اب پی سی بی کے پاس جو رقم بچی اس کا بڑا حصہ سپر لیگ پر پھونک دیا جائے گا، آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اے کیٹیگری پلیئرز کو ایک کروڑ، بی کو60 اور سی کو 40 لاکھ روپے دینے کی باتیں ہو رہی ہیں، یوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اربوں روپے خرچ ہوں گے، واپس کتنے آئیں گے یہ ایک بڑا سوال ہے، ابھی تو غیرملکی کنسلٹنسی فرم ہی کروڑوں روپے لے چکی ہوگی۔
بورڈ نے ٹورنامنٹ کیلیے سلمان بٹ کو بغیر طریقہ کار اپنائے ڈائریکٹر مقرر کیا، وہ ماضی میں جس بینک سے منسلک تھے اس کی جانب سے ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ایونٹس میں پی سی بی کے ساتھ رہ چکے مگر ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ڈومیسٹک ٹورنامنٹ اور ایک انٹرنیشنل ایونٹ میں زمین آسمان کا فرق ہو گا، اگر پاکستان سپر لیگ اپنے نام کی طرح ملک میں ہی ہو تو یقیناً بورڈ کو مالی فائدہ ہو سکتا ہے مگر دیارغیر میں گراؤنڈز کا کرایہ،کھلاڑیوں کے سفری اخراجات اور دیگر چیزوں پر جو رقم خرچ ہو گی اس کا ابھی کوئی سوچے تو فوراً ایونٹ ملتوی کر دیا جائے،صرف چند بورڈ آفیشلز جس طرح ان دنوں دبئی اور قطر کے چکر لگا رہے ہیں کچھ عرصے بعد اس کی رقم ہی ایک کھلاڑی کو دینے والے معاوضے کے برابر ہو جائے گی۔ بورڈ نے سپرلیگ کیلیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، ابتدا سے ہی ایونٹ مسائل کا شکار نظر آ رہا ہے،لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کرنے والے افسران کی معاملات پر گہری نظر کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ انھیں یہ علم نہیں تھا کہ فروری میں یو اے ای میں سابق کرکٹرز کی ماسٹرز لیگ ہو رہی ہے۔
یہ بھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس دوران سوائے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے تمام ٹیمیں مصروف ہوں گی، میں نے جب ان باتوں کی اپنے مضامین میں نشاندہی کی تو ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ فائل بنا کر حکام کے پاس پہنچ گئے کہ سر یہ دیکھیں سپر لیگ کی مخالفت ہو رہی ہے، اگر آنکھیں بند کر بیٹھ جائیں تو حقیقت رخ نہیں بدل لیتی آپ کو اس کا سامنا کرنا چاہیے، سپر لیگ اربوں روپے کا منصوبہ ہے اس کا انعقاد مکمل سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو ایونٹ کیلیے غیرملکی کرکٹرز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے،کسی صحافی کو ایس ایم ایس کر دینا بہت آسان ہے کہ فلاں فلاں کھلاڑی سے معاہدہ ہونے والا ہے مگر حقیقتاً اب تک کسی کے ایجنٹ نے ’’ہاں‘‘ نہیں کی، ایک نئے ایونٹ کیلیے کون اپنی قومی ٹیم کو چھوڑ کر آئے گا؟باقی ماسٹرز لیگ نے کئی پرانے کھلاڑیوں کو ایڈوانس رقم کے چیک بھی بھیج دیے ہیں، اگر بڑے نام تیار بھی ہو گئے تو ایک اہم مسئلہ درپیش ہے، بیشتر کے انڈین پریمیئر لیگ سے معاہدے ہیں، ان دنوں پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے ہیں۔
بھارت نے پہلے کبھی پاکستان کا فائدہ نہیں ہونے دیا، اب اگر وہ اپنے زیرمعاہدہ کرکٹرز کو پی ایس ایل میں شرکت سے روک لے پھر کیا ہوگا؟ اسی طرح بنگلہ دیش سے بھی پاکستانی تعلقات خوشگوار نہیں، اس کی لیگ میں ہمارے کھلاڑی نہیں جاتے تھے اب اگر وہ حساب چکانے کا سوچے تو نیا مسئلہ منتظر ہوگا، پھر ٹی وی رائٹس سب سے بڑا ایشو ہے، اگر کسی اپنے کو نوازنے کا فیصلہ ہو چکا تو اور بات ہے بصورت دیگر موجودہ براڈ کاسٹر سے معاہدے کی صورت میں بھارتی بورڈ کو جواز مل جائے گا کہ وہ آئی پی ایل پلیئرز کو روک لے، ٹین اسپورٹس کے باسز کی جانب سے باغی لیگ کرانے کے اعلان نے اسے شور مچانے کا موقع فراہم کر دیا ہے،اپنے کھلاڑیوں کو تو ریلیز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ آئی پی ایل میں ہمارے کھلاڑیوں کو تو شامل نہیں کرتا پاکستان کی لیگ میں اپنے کرکٹرز کیسے بھیجے گا؟ ان دنوں ویسے ہی تعلقات انتہائی کشیدہ اور دسمبر میں باہمی سیریز کا انعقاد ہی خطرے میں پڑ چکا ہے، اس سے روابط میں مزید تناؤ آئے گا۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی بورڈ اور براڈکاسٹر کا تنازع حل ہو چکا مگر حقیقتاً ایسا نہیں لگتا، مسئلہ یہ ہے کہ پی سی بی کو زیادہ رقم اس کے سوا کوئی اور چینل شاید ہی دینے پر آمادہ ہو، یوں معاہدہ کیا تو مصیبت نہ کیا تو بھی مصیبت منتظر ہوگی۔ ایونٹ کیلیے وینیوز کے انتخاب نے بھی پی سی بی آفیشلز کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں، میڈیا ڈپارٹمنٹ والے روزانہ پاکستانی اخبارات میں کرکٹ کی خبروں کے تراشے اعلیٰ حکام کو بھیجتے ہیں مگر وہ صرف انہی کو اہمیت دیتے جس میں ان کے بارے میں کچھ ہو، اسی لیے کئی ماہ قبل جب ماسٹرز لیگ کے انعقاد کا اعلان ہوا تو کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، امارات کرکٹ کوئی پی سی بی کا ماتحت ادارہ نہیں جوگراؤنڈز کرائے پر دیتے ہوئے پیشگی اطلاع دے، جب میرے جیسے عام صحافی یہ بات جانتے تھے کہ فروری میں سابق کرکٹرز کی ایک لیگ امارات میں ہونے والی ہے تو پی سی بی کو کیوں اس کا علم نہ تھا؟ اور اگر حکام یہ بات جانتے تھے تو ایسے میں کیوں فروری میں مقابلوں کا فیصلہ کیا؟
قطرکے بارے میں پہلے ہی نشاندہی کر چکا کہ وہاں سہولتوں کی کمی ہے، گراؤنڈ دوحا شہر سے باہر انڈسٹریل ایریا میں واقع ہے، میڈیا سینٹر سمیت وہاں امپائرز و ریفریز روم موجود نہیں، ڈریسنگ روم بھی عالمی معیار کے نہیں، گذشتہ برس تو سابق ڈائریکٹر مارکیٹنگ بدر رفاعی نے مستقبل میں سپرلیگ اور انٹرنیشنل کرکٹ ایونٹ کرانے کے سبز باغ دکھاکر ایک مقامی بزنسمین کوگراؤنڈ کی تزئین و آرائش پر آمادہ کر لیا تھا، اب ایسا نہیں ہوسکتا، قطری حکومت نے زبانی وعدہ کیا مگر تاحال تحریری یقین دہانی نہیں کرائی، اب اگر پی سی بی چند دنوں کے ایونٹ کیلیے اپنے طور پر رقم خرچ کرے تو اسے کیا فائدہ ہوگا؟ اسی لیے دوبارہ یو اے ای کی منت سماجت ہو رہی ہے کہ اچھا ایک گراؤنڈ ہی دے دو، شاید بات بن جائے بصورت دیگر دوحا میں امارات جتنا کراؤڈ آنے کی توقع رکھنا فضول ہوگا۔
موجودہ حالات میں اگر پی سی بی نے ہر حال میں سپر لیگ کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو انعقاد اپنے ملک میں ہی کرنا چاہیے،دنیا تعریف پر مجبور ہے کہ جاری آپریشن کی وجہ سے ملکی حالات میں بہتری آ چکی، ہمارا بورڈ ہی نہیں مان رہا، چیئرمین شہریار خان کہہ رہے ہیں کہ ایونٹ پاکستان میں ہوا تو بڑے کرکٹرز نہیں آئیں گے، اگر ڈی ویلیئرز، سنگاکارا، اسٹیون اسمتھ، مائیکل کلارک، کرس گیل اور برینڈن میک کولم جیسے کھلاڑی کھیلنے کو تیار ہیں تو یقیناً انعقاد امارات یا دوحا میں ہونا چاہیے، بصورت دیگر بڑے نام شامل نہیں تو چھوٹے کرکٹرز کو تو زمبابوے کی طرح ڈالرز دکھا کر پاکستان بھی بلایا جا سکتا ہے،اس سے اخراجات میں بے انتہا کمی آئے گی، سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کا کام ہے جیسے اس نے زمبابوے سے ہوم سیریز میں بخوبی انجام دیا، اب بھی اعتماد کر کے دیکھیں، ملک میں شائقین معیاری کرکٹ کو ترسے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زمبابوے جیسی ٹیم کے میچز دیکھنے کیلیے قذافی اسٹیڈیم میں ہزاروں لوگ موجود ہوتے، اگر بین الاقوامی معیار کا ٹورنامنٹ پاکستان میں کرایا جائے تو کراؤڈ کے آنے سے بھاری گیٹ منی بھی حاصل ہو سکتی ہے، کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ساتھ فیصل آباد و دیگر ایسے شہروں میں میچز کرائیں جہاں کراؤڈ کے آنے کی توقع ہو، اس سے بورڈ کو ہر لحاظ سے فائدہ ہو گا، سپر لیگ دیار غیر میں کرانے کے اعلان سے ہم نے زمبابوین سیریز کے کامیاب انعقاد کا ایڈوانٹیج گنوا دیا، اب بیرون ملک لوگ دوبارہ شک میں پڑ چکے کہ یہ اپنا ایونٹ پاکستان میں نہیں کرانا چاہتے دال میں کچھ کالا ضرور ہے، ہمیں یہ تاثر دور کرنا ہوگا۔
سپر لیگ کیلیے اچھی قیمت پر ٹیمیں فروخت کرنا بھی پی سی بی کیلیے چیلنج ہے، مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے والی بعض شخصیات کو سخت دشواری کا سامنا ہو گا، سبز باغ دکھا کر چند اداروں کو ٹیمیں بیچ بھی دیں اور اگر پہلے ایونٹ کا شایان شان انداز سے انعقاد نہ ہو سکا تو وہ بھی فیصلے پر نظرثانی پر مجبور ہو جائیں گے، اس صورت میں دیگر کمپنیز کو بھی اسپانسر شپ کیلیے قائل کرنا دشوار ہوگا، مجھے یقین ہے کہ جہاندیدہ شہریارخان اس صورتحال کو بھانپ چکے ہیں، وہ سابق سفارتکار رہ چکے، پہلے بھی پی سی بی کی سربراہی کا اعزاز پایا جبکہ ٹیم منیجر بھی رہے، انھیں کھیل کی اچھی طرح سمجھ بوجھ ہے، اسی لیے انھوں نے سپرلیگ کی کھلے عام مخالفت کر دی تھی، مگر پھر جب ساتھیوں نے ناراضی ظاہر کی تو اب اظہار خیال میں محتاط ہیں، نجم سیٹھی کو کرکٹ معاملات کا اتنا اندازہ نہیں، وہ سیاسی فیلڈ کے کھلاڑی ہیں،ان کی چڑیا کو بھی کرکٹ میدانوں میں اڑنا زیادہ پسند نہیں، وہ ٹویٹر کی دنیا کے بادشاہ ہیں۔
انھیں اندازہ نہیں کہ کھیل میں معاملات بالکل الگ ہیں،کاغذ پر بڑے بڑے منصوبے بن جاتے مگر عملی جامہ 10فیصد کو بھی نہیں پہنایا جا سکتا، اس کیلیے برسوں منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے، بھارت نے آئی پی ایل سوچتے ہی نہیں کرا دی، اس نے بھرپور منصوبہ بندی سے دنیائے کرکٹ کو اپنے بس میں کیا، پہلے بیرون ملک کرکٹ کے دوران اپنے اسپانسرز کو بھیجا جنھوں نے بھاری رقوم دے کر بورڈز کو متاثر کیا، پھر آئی سی سی ایونٹس میں بھارتی اسپانسرز چھا گئے، اس سے ساکھ اور بڑھی، اب آئی پی ایل کی باری آئی جس کا اعلان ہوتے ہی دنیا بھر کے بڑے کرکٹرز کھنچے چلے آئے اور بورڈز نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا،اب سب ڈالرز میں کھیل رہے ہیں مگر کرکٹ کا ستیاناس ہو چکا،آسٹریلیا کے سابق کرکٹرز ایشز سیریز میں بدترین کارکردگی کا سبب انڈین لیگ کو ہی قرار دے رہے ہیں، میچ فکسنگ کا ناسور پھر سر اٹھا چکا، چند چھوٹے مہرے پکڑے گئے پھر انھیں بھی کلین چٹ مل گئی، سری نواسن کے داماد اور ٹیم پر پابندی لگ گئی وہ بدستور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے حکمران ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کرکٹ میں اب کن لوگوں کا راج ہے، سری لنکا نے لیگ کرائی تو ٹیمیں بھاری رقم دے کر بعض افراد نے خریدیں بعد میں علم ہوا وہ تو بھارتی بکیز تھے، پورے پورے میچز فکسڈ ہوئے، بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی ہوا، اس کے کئی معروف کھلاڑی سٹے بازوں کے چنگل میں پھنسے، ایسی لیگز پیسہ لائیں تو ساتھ کرپشن کی راہ بھی کھلتی گئی، پی سی بی کو اس جانب بھی توجہ دینا چاہیے، ٹیمیں فروخت کرتے ہوئے اچھی طرح جانچ پڑتال کرنا پڑے گی، اسی طرح جلد بازی کا مظاہرہ سپر لیگ کو سپرفلاپ بنا سکتا ہے، پہلا تاثر آخری ثابت ہوتا ہے بورڈ حکام کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے، ابھی ویسے ہی ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملے میں تنازعات جاری ہیں پہلے انھیں حل کریں، ٹیم کو بہتری کی جانب لے کر جائیں، پیسہ تو آتا رہے گا پہلا مقصد قومی کرکٹ ٹیم کو کامیابی کی راہ پر گامزن کرنا ہونا چاہیے،مگر افسوس کہ اس وقت تو خوب دولت کمانا ہی حکام کی اولین ترجیح دکھائی دیتی ہے۔

No comments:

Post a Comment