Showing posts with label Pakistan Super League. Show all posts
Showing posts with label Pakistan Super League. Show all posts

Thursday, September 10, 2015

Pakistan Super League ..

Pakistan Super League

Super League, had weakened the building, taking strong pillar

Super League, had weakened the building, taking strong pillar
لاہور: سپرلیگ کی کمزور عمارت کو سنبھالنے کیلیے پی سی بی کو مضبوط ستون مل گئے،وسیم اکرم اور رمیزراجہ نے برانڈ ایمبیسیڈر بننے پر حامی بھر لی، گذشتہ روز دونوں نے  نجم سیٹھی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا،  سابق آل راؤنڈر نے کہاکہ فی الحال ایک چھوٹا سا آغاز ہے۔
آئندہ ایڈیشنز کے ملک میں انعقاد کیلیے غیر ملکی کھلاڑیوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرینگے،اسے ایک کامیاب پراڈکٹ بناکر بتدریج پاکستان میں لایا جائیگا۔سابق اوپنر نے کہاکہ70کے قریب کرکٹرز کو مالی فائدہ اورایسا تجربہ حاصل ہوگا جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
تفصیلات کے مطابق وسیم اکرم اور رمیزراجہ کو پاکستان سپر لیگ کا برانڈ ایمبیسیڈر مقرر کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا گیا، بعدازاں پی سی بی کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے قذافی اسٹیڈیم لاہور میں دونوں سابق کرکٹرز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا، انھوں نے بتایا کہ پی ایس ایل کا منصوبہ ایک قدم مزید آگے بڑھ رہا ہے۔
دونوں سابق کپتان شاندار کیریئر کے ساتھ کوچنگ اور کمنٹری کی بدولت بھی کھیل سے وابستہ رہے ہیں، یہ تجربہ اولین لیگ کیلیے بڑا کارآمد ثابت ہوگا،ان کی سپورٹ اور ہدایات کے ساتھ معاملات تیزی سے آگے بڑھیں گے۔
انھوں نے کہاکہ پی ایس ایل خواب نہیں بلکہ عملی شکل اختیار کرنے جا رہی ہے، 20ستمبر کو لوگو کی تقریب رونمائی ہوگی، اگلے 2،3 روز میں نشریات سمیت مختلف حقوق کی فروخت کیلیے اشتہار بھی آنا شروع ہوجائینگے، نجم سیٹھی نے کہا کہ ایونٹ میں7،8ممالک کے کھلاڑی آئینگے، ابتدائی طور پر مقابلے بیرون ملک ہورہے ہیں تاہم بعد میں پاکستان میں انعقاد کرنے کی کوشش کرینگے،لیگ کی ہر ٹیم میں 2 ایمرجنگ پلیئرز شامل ہونگے۔
اس موقع پر وسیم اکرم نے کہا کہ اگر ہمیں سفیر نہ بھی بنایا جاتا تو پاکستانی ہونے کے ناطے پی ایس ایل کو کامیاب بنانے کیلیے اپنا کردار ادا کرتے، ایونٹ کا انعقاد ملکی کرکٹ کیلیے بہت ضروری ہے، اس سے نہ صرف پاکستان کا تاثر بہتر ہوگا بلکہ کرکٹرز و کوچز کو مالی استحکام اور غیر ملکی پلیئرزکے ساتھ کھیلنے سے تجربہ حاصل ہوگا، کم بجٹ کے باوجود بڑے کھلاڑیوں کو بلانے اور ایونٹ کی کامیابی کے امکانات کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ فی الحال یہ آئی پی ایل جیسا بڑا ٹورنامنٹ تو نہیں ہوگا تاہم کئی نامور کرکٹرز نے شرکت پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے۔
ان میں لسیتھ مالنگا اور انجیلو میتھیوز بھی شامل ہیں، انھوں نے کہاکہ فی الحال ایک چھوٹا سا آغاز ہے، کامیاب ایونٹ سے آئندہ ایڈیشنز کیلیے غیر ملکی کھلاڑیوں کا اعتماد بھی حاصل کرنے کی کوشش کرینگے، پی ایس ایل ایک طویل مدت پلان ہے،اس بار مقابلے قطر میں ہونگے، اسے کامیاب پراڈکٹ بناکر بتدریج پاکستان میں لایا جائے گا۔
وسیم اکرم نے کہاکہ آئی پی ایل کو شروع ہوئے کئی سال ہوگئے، اس ایونٹ سے بھارتی کھلاڑیوں کو بے پناہ فائدہ ہوا،کئی پلیئرز ملک کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے، پاکستانی کرکٹرز کو بھی اعتماد کی دولت حاصل اورکئی نئے کھلاڑی سامنے آئینگے، قومی ٹیم کو جو نیا ٹیلنٹ 2سال کے بعد ملتا تھا وہ پی ایس ایل کے انعقاد سے ہرسال حاصل ہوگا، نئے کھلاڑی سلیکٹر ز کی نظروں میں آئینگے۔ رمیز راجہ نے کہاکہ اس نوعیت کا ایونٹ کرانے کیلیے زبردست انتظامی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی، پی ایس ایل کی بدولت پاکستان کرکٹ پر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔
نیا تجربہ ہونے کی وجہ سے اسے بھرپور سپورٹ کی ضرورت ہوگی، میرے لیے خوشی کی بات ہے کہ ملکی پراڈکٹ کی کامیابی کیلیے کچھ کرنے کا موقع ملے گا،انھوں نے کہا کہ ہر ٹیم میں 2ابھرتے ہوئے کھلاڑی بھی شامل ہوں گے جنھیں صلاحیتوں میں نکھار لاتے ہوئے آگے نکلنے کا چانس مل سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ بڑے کرکٹرز کیساتھ پریکٹس، ڈریسنگ روم اور میدان میں حکمت عملی میں شراکت سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع اور اعتماد ملے گا،کوچنگ اسٹاف کی بھی بہتر ٹریننگ ہوگی،اکثر ڈومیسٹک کرکٹ میں پیسہ نہ ہونے کا شکوہ کیا جاتا ہے،کنٹریکٹ صرف 20یا 25 کھلاڑیوں کو ملتے ہیں، پی ایس ایل سے 70کے قریب کھلاڑیوںکو مالی فائدہ اورایسا تجربہ حاصل ہوگا جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

Pakistan Super League

I can leave everything to Pakistan, Wasim Akram ..

Wasim Akram

I can leave everything to Pakistan, Wasim Akram

I can leave everything to Pakistan, Wasim Akram
لاہور: پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے کہا ہے کہ ان کی اولین ترجیح پاکستان ہے جس کے لیے وہ سب کچھ چھوڑ سکتے ہیں۔
قذافی اسٹیڈیم لاہور میں میڈیا سے بات کرت ہوئے وسیم اکرم نے کہا کہ پاکستان سپر لیگ کے انعقاد سے قومی کرکٹرز میں مثبت تبدیلیاں آئیں گی اور فوری طور پر اس کا موازنہ انڈین پریمیئر لیگ سے کرنا درست نہیں کیونکہ آئی پی ایل شروع ہوئے 8 برس ہوچکے ہیں جب کہ پی ایس ایل ابھی کا ابھی آغاز ہے، پاکستان سپر لیگ جیسے جیسے آگے بڑھےگی اس میں کرکٹ کے بڑے نام نظر آئیں گے اور اب بھی اس میں اینجیلو میتھیوز اور لیستھ ملینگا جیسے اہم کھلاڑیوں نے کھیلنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
سابق کپتان کا کہنا تھا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات میں ہونے والی ماسٹر لیگ سے معاہدہ ضرور کیا ہے تاہم میں پاکستانی کرکٹ کے لئے سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں کیونکہ میرا مقصد پیسہ کمانا نہیں بلکہ اپنی خدمات قوم کو فراہم کرنا ہے، اور میری اولین ترجیح اپنے ملک کی مدد کرنا ہے۔
واضح رہے کہ پی سی بی نے سابق ٹیسٹ کرکٹرز رمیز راجہ اور وسیم اکرم کو پاکستان سپر لیگ کا ایمبیسڈرز مقرر کیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے یہ سپر لیگ آئندہ سال قطر کے شہر دوحا میں منعقد کروانے کا اعلان کیا ہے جس میں امید کی جارہی ہے کہ غیر ملکی کرکٹرز کی بڑی تعداد اس لیگ میں شرکت کرے گی۔

Wednesday, September 9, 2015

Pakistan Super League ..

Pakistan Super League

PSL join the foreign players started consultations with the throw

PSL join the foreign players started consultations with the throw
کراچی: پاکستان سپر لیگ میں شرکت سے قبل غیرملکی کرکٹرز نے ایسوسی ایشن سے مشاورت شروع کر دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد کے نام سے5ٹیمیں آئندہ برس 4 سے 24 فروری تک دوحا، قطر میں پی ایس ایل کے دوران ایکشن میں نظر آئیں گی، ایک ملین ڈالر انعامی رقم کے ایونٹ میں پی سی بی کا دعویٰ ہے کہ 40 انٹرنیشنل کرکٹرز شرکت کی خواہش رکھتے ہیں۔
ایونٹ کے حوالے سے فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن (فیکا) کے ایگزیکٹیو چیئرمین ٹونی آئرش نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے،کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ سے نمائندہ ’’ایکسپریس‘‘ کو خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ بعض ممبر کرکٹرز نے پاکستان سپر لیگ کے حوالے سے ہم سے معلومات طلب کی ہیں البتہ ان کے نام نہیں بتا سکتا،ٹونی آئرش نے کہا کہ فیکا پی ایس ایل سمیت کسی بھی ٹوئنٹی 20 لیگ میں پلیئرز کو شرکت کا موقع ملنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ البتہ بعض معاملات پر عمل درآمد ضروری ہے، ایک تو ایونٹ آئی سی سی سے منظور شدہ ہو، سیکیورٹی معاملات کے لحاظ سے کھلاڑیوں کی اس میں شرکت درست ہو،کھیل کا وقار برقرار رکھنے کے سلسلے میں اینٹی کرپشن اور ڈوپنگ کوڈز کا مکمل اطلاق کیا ہو، منفی عناصر سے بچنے کیلیے اینٹی کرپشن یونٹ کا تقرر بھی ضروری ہے۔
اسی کے ساتھ پلیئرز کے ساتھ درست اور منصفانہ معاہدے کیے جائیں۔انھوں نے کہا کہ ہمارا اپنے رکن ارکان کو یہی مشورہ ہوگا کہ اگر ان تمام باتوں پر عمل درآمد کیا جائے تو ضرور پی ایس ایل میں شرکت کریں، ساتھ ان کے اپنے ملک کی کرکٹ بورڈ کا این او سی بھی ضروری ہوگا۔ یاد رہے کہ1998میں قائم شدہ فیکا دنیا بھر کے کرکٹرز کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے،آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ،سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی پلیئرز ایسوسی ایشنز اس کی رکن ہیں،بنگلہ دیشی کرکٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کا بھی فیکا سے اطلاق ہے، ٹیسٹ ممالک میں صرف پاکستان، بھارت اور زمبابوے اس کے رکن نہیں ہیں۔
ایک سوال پر ٹونی آئرش نے کہا کہ ماضی میں بعض ٹی ٹوئنٹی لیگز کے دوران کھلاڑیوں کو معاوضوں کے معاملے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اسی لیے ہم تمام ایسے ایونٹس کے منتظمین کو معاہدے میں یہ شق رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ فیس کا کچھ حصہ لیگ شروع ہونے سے قبل ادا کر دیا جائے گا۔ہم کھلاڑیوں سے بھی کہتے ہیں کہ اس بات پر اصرار کریں۔ بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیشی لیگز کے فکسنگ سے متاثر ہونے کے بعد فیکا چیف نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ سخت اینٹی کرپشن کوڈ کا اطلاق کریں، ایونٹ ہر حالت میں اینٹی کرپشن یونٹ کی زیرنگرانی کرایا جائے جو آئی سی سی کا ہو یا کونسل اسے جانچ چکی ہو۔

Pakistan Super League

Sunday, September 6, 2015

Pakistan Super League ..

Pakistan Super League

Pakistan Super League players will be auctioned

لاہور: پاکستان سپر لیگ میں کرکٹرز نیلامی کے بجائے امریکی فٹبال لیگ کی طرز پر فروخت کیے جائیں گے۔
تفصیلات کے مطابق پی سی بی اپنی سپر لیگ کے اولین ایڈیشن کا انعقاد آئندہ سال فروری میں کروانے کے لئے کوشاں ہے جس کے لئے غیر ملکی کرکٹرز سے رابطوں کا آغاز ہوچکا، چند کی جانب سے مثبت جواب ملنے پر ان کو معاہدوں کے مسودے بھی ارسال کیے جاچکے، ایونٹ میں مجموعی طور پر 25انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو شامل کرنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے، معاملات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں، تاہم دستیاب کرکٹرز کی فہرست مکمل ہوجانے کے بعد اگلا مرحلہ یہ ہوگا کہ 5 فرنچائز ٹیموں کے مالکان کن کھلاڑیوں کو اپنے اسکواڈز کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ کی رپورٹ کے مطابق انڈین پریمیئر لیگ کے برعکس کھلاڑیوں کی نیلامی نہیں ہوگی بلکہ امریکی نیشنل فٹبال لیگ میں 1936سے رائج ڈرافٹ سسٹم کا طریقہ کار اپنایا جائے گا، کرکٹرز کو 5کیٹیگریز پلاٹینم، ڈائمنڈ،گولڈ، سلور اور ایمرجنگ میں تقسیم کرکے ڈراز کے ذریعے فیصلہ کیا جائے گا کہ کون کس کے حصے میں آتا ہے، اسکواڈ میں ہر کیٹیگری سے مخصوص تعداد شامل کرنے کی اجازت ہوگی، یعنی یہ پہلے سے ہی طے کردیا جائے گاکہ ایک ٹیم میں پلاٹینم، ڈائمنڈ یا دیگر کیٹیگری کے زیادہ سے زیادہ کتنے کھلاڑی شامل کیے جاسکتے ہیں، اس پلان سے ایک تو اسٹار کرکٹرز کی نمائندگی متناسب رہنے سے اسکواڈ متوازن رکھنے میں مدد ملے گی، دوسرے اوپن نیلامی میں کھلاڑیوں کی قیمتیں فرنچائزز کے مجموعی اخراجات کو مخصوص حد سے زیادہ کرسکتی ہیں۔
ذرائع کے مطابق پی ایس ایل میں اظہار دلچسپی کرنے والی فرنچائزز کو بتایا گیا ہے کہ اولین ایڈیشن میں کھلاڑیوں اور کوچنگ اسٹاف پر مجموعی طور پر ایک ملین ڈالر سے زیادہ لاگت نہیں آئے گی۔ مزید معلوم ہوا ہے کہ سرمایہ کاری کرنے والوں کو نشریاتی اور اسپانسر شپ حقوق، ٹکٹوں اور شرٹس کی فروخت میں سے حصہ وصول کرنے کی پیشکش بھی کردی گئی۔
علاوہ ازیں ہر فرنچائز اپنے اسپانسرشپ حقوق اور شرٹ لوگو کی فروخت سے بھی آمدن حاصل کرنے کی مجاز ہوگی۔ آئیکون اور انٹرنیشنل کرکٹرز کے ساتھ ایمرجنگ کیٹیگری میں شامل پاکستانی نوجوان کھلاڑیوں کو بھی آمدن کا اچھا موقع ہاتھ آئے گا، کسی بھی فرنچائز کے لئے منتخب ہونے والے ہر ڈومیسٹک پلیئر کو 21 روزہ ایونٹ کے دوران 15 سے 20 ہزار ڈالر حاصل ہوسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل انتظامی معاملات کمزور ہونے پر بنگلہ دیش اور سری لنکن پریمیئر لیگز ناکام ثابت ہوچکی ہیں، پی سی بی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی اور تجربہ کار بینکر سلمان سرور بٹ کی قیادت میں جاری منصوبے کو کامیاب دیکھنے کے خواب دیکھا رہا ہے لیکن دیار غیر میں پی ایس ایل کا پہلی بار انعقاد جوئے شیر لانے سے کم نہیں، اخراجات کو کنٹرول میں رکھتے ہوئے ایونٹ کو بڑے ناموں سے مزئین کرنا اور اپنی پراڈکٹ کو فائدے کا سودا بنانا آسان نہیں ہوگا۔

Wednesday, August 26, 2015

Pakistan Super League ..

Pakistan Super League

PCB announces to the Pakistan Super League in Qatar

PCB announces to the Pakistan Super League in Qatar
لاہور: پی سی بی نے پہلی پاکستان سپر لیگ آئندہ سال قطر کے دارالحکومت دوحا میں منعقد کروانے کا اعلان کردیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی اور سپر لیگ کی گورننگ کونسل کے چیئرمین نجم سیٹھی نے قذافی اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ٹورنامنٹ آئندہ سال 4 سے 24 فروری تک قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہوگا جس میں 5 ٹیمیں حصہ لیں گی اور اس دوران مجموعی طور پر 24 میچ کھیلے جائیں گے۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ میں بھارت کے سوا دیگر تمام ممالک کے نامور کرکٹرز نے کھیلنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں ویسٹ انڈیز کے 4، جنوبی افریقا اور سری لنکا کے 2، 2 ٹاپ کھلاڑی شامل ہیں جب کہ توقع ہے کہ انگلینڈ ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے  کھلاڑی بھی ایونٹ میں شریک ہوں گے۔
سپر لیگ  کے پہلے ایڈیشن کی انعامی رقم 10 کروڑ روپے ہے  اور اس میں لاہور، کراچی، اسلام آباد ،پشاور اور کوئٹہ کی ٹیمیں شامل ہوں گی جب کہ تمام میچ دوحا کے اسٹیڈیم میں ہی کھیلیں جائیں گے۔ فرنچائز کے مالکان، براڈکاسٹرز اور اسپانسرز کی تفصیلات اگلے 3 ماہ میں طے کی جائیں گی جب کہ قطر کے حکام سے آئندہ 10 روز میں معاہدہ طے کرلیا جائے گا ۔
واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ آئی پی ایل کی طرز پر ٹی ٹوئنٹی لیگ کے انعقاد کے لیے کافی عرصے سے کوشش کررہا ہے لیکن ملک میں سیکیورٹی خدشات  اور مختلف وجوہات کے سبب یہ لیگ منعقد نہیں ہو سکی۔ پہلے یہ لیگ متحدہ عرب امارات میں ہونا تھی لیکن مقررہ تاریخ میں وہاں کے اسٹیڈیمز دستیاب نہیں تھے جس کی وجہ سے سپر لیگ کو قطر منتقل کرنا پڑا۔

Tuesday, August 18, 2015

Pakistan Super League balloon was then fainted ..

Pakistan Super League

PSL balloon was then fainted

Pakistan Super League balloon was then fainted
کراچی / لاہور: پاکستان سپرلیگ کے غبارے سے پھر ہوا نکلنے لگی، وینیوز کی تلاش میں سرگرداں بورڈ تاریخ پر تاریخ دینے لگا، فروری اور اپریل کے بعد اب چیئرمین نے مئی میں ایونٹ سجانے کا عندیہ دے دیا،آئی پی ایل کے ساتھ صحرائی وینیوز پر سخت گرمی ٹاپ پلیئرز کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
شہریار خان کا کہنا ہے کہ  ٹوئنٹی 20 ٹورنامنٹ قطر میں ہوسکتا ہے مگر یو اے ای کا آپشن بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جلد ہی بورڈ کا وفد دونوں ممالک کا ایک اور دورہ کرے گا، آئندہ 10 روز میں شیڈول اور وینیوز کے بارے میں حتمی فیصلہ کر لیں گے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان سپر لیگ انعقاد سے قبل ہی تنازعات کا شکار ہے، سب سے بڑا اعتراض ایونٹ کے ملک سے باہر انعقاد پر سامنے آیا جسے بورڈ خاطر میں لانے کو تیار ہی نہیں ہے،اس کی منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک اتنے بڑے ٹورنامنٹ کے لیے مناسب وینیو تک تلاش نہیں کیا جا سکا۔
دوسری جانب ایونٹ کے انعقاد کی ایک کے بعد دوسری تاریخ دینے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔  پی سی بی نے پہلے فروری 2016میں انعقاد کا اعلان کیا، ایسے میں یہ حقائق سامنے آئے کہ اس وقت متحدہ عرب امارات کے تینوں سینٹرز سابق کرکٹرز کی ماسٹرز چیمپئنز لیگ کے میزبان ہونگے، فیوچر ٹور پروگرام کے تحت بھی اس عرصے میں صرف ملکی اور ویسٹ انڈین کھلاڑی ہی دستیاب ہوتے، یہ جاننے کے بعد شہریارخان نے اپریل میں انعقاد کی بات کر دی حالانکہ اس وقت آئی پی ایل کے میچز جاری ہونگے، جب میڈیا کے ذریعے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی گئی تو اب بورڈ چیئرمین کی جانب سے ایونٹ مئی میں منعقد کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔
نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں گورننگ بورڈ اجلاس میں ایگزیکٹیو کمیٹی سربراہ نجم سیٹھی نے ارکان کو پاکستان سپر لیگ کے حوالے سے پیش رفت سے آگاہ کیا، انھوں نے بتایا کہ ایونٹ کا ایکشن پلان اگلی میٹنگ میں پیش کردیا جائے گا۔ بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شہریار خان نے بتایا کہ فروری میں متحدہ عرب امارات کے اسٹیڈیم ماسٹرز ٹوئنٹی 20 لیگ کیلیے بک ہونگے، لہذا پاکستان سپر لیگ کا انعقاد  قطر میں ہونے کے امکانات ہیں۔
انھوں نے واضح کیا کہ یو اے ای کو ابھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہاں پر بھی ایونٹ کے انعقاد کا آپشن ہمارے سامنے موجود ہے، ٹورنامنٹ کی تاریخوں میں ممکنہ ردوبدل کے حوالے سے چیئرمین پی سی بی نے کہا کہ ہمارے سامنے ایک تجویز یہ بھی موجود ہے کہ ایونٹ آئندہ سال فروری کے بجائے مئی میں کرا لیا جائے،اس کیلیے انٹرنیشنل کرکٹرز کی مصروفیات اور دستیابی کو بھی دیکھنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ پی سی بی کا ایک وفد جلد ہی پی ایس ایل کے معاملات پر بات چیت کیلیے یو اے ای اور قطر جائے گا،آئندہ 10روز میں شیڈول اور وینیوز کے بارے میں حتمی فیصلہ کرلینگے۔ واضح رہے کہ پی ایس ایل کے مئی میں انعقاد سے بھی تاریخیں آئی پی ایل سے متصادم ہوں گی کیونکہ رواں برس بھی انڈین لیگ کا فائنل 24 مئی کو کھیلا گیا تھا۔
ورلڈ ٹوئنٹی20 کے مارچ اپریل میں بھارت میں ہی انعقاد کی وجہ سے آئی پی ایل مئی کے آخر تک جاری رہ سکتی ہے۔ اگر پی سی بی مئی کے آخر میں ایونٹ کرانے پر بضد بھی رہا تب چاہے مقابلے متحدہ عرب امارات میں ہوں یا پھر قطر میں شدید گرمی کا بہرحال سامنا کرنا پڑے گا، صحرائی وینیوز پر جھلسا دینے والی گرمی میں شاید ہی کوئی ٹاپ پلیئر کھیلنے کو تیار ہو۔

Pakistan Super League

Saturday, August 15, 2015

Super League will become the super-flops?

’’ایک بار میں نے اگر کمٹمنٹ کر لی تو اس کے بعد اپنے آپ کی بھی نہیں سنتا‘‘
قارئین آپ نے یہ مشہور فلمی ڈائیلاگ ضرور سنا ہو گا، ان دنوں پی سی بی اس کی عملی تصویر بنا ہوا ہے، اس کا حال ایک ضدی بچے جیسا ہو چکا جسے ہر حال میں جو بات ٹھان لی اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے چاہے راہ میں جتنے بھی کانٹے آئیں یا بعد میں جو بھی ہو، میں دیار غیر میں ہونے والی پاکستان سپر لیگ کی بات کر رہا ہوں جس کے انعقاد کیلیے بورڈ بے تاب ہے، اس وقت ویسے ہی انٹرنیشنل ٹیموں کی ملک میں آمد نہ ہونے سے خزانے میں اضافہ نہیں ہو رہا، آپ زمبابوے کی بات نہ کریں، ان بیچارے غریب کرکٹرز کو تو بھاری معاوضے کا لولی پاپ دے کر بلایا گیا تھا، اب پی سی بی کے پاس جو رقم بچی اس کا بڑا حصہ سپر لیگ پر پھونک دیا جائے گا، آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اے کیٹیگری پلیئرز کو ایک کروڑ، بی کو60 اور سی کو 40 لاکھ روپے دینے کی باتیں ہو رہی ہیں، یوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اربوں روپے خرچ ہوں گے، واپس کتنے آئیں گے یہ ایک بڑا سوال ہے، ابھی تو غیرملکی کنسلٹنسی فرم ہی کروڑوں روپے لے چکی ہوگی۔
بورڈ نے ٹورنامنٹ کیلیے سلمان بٹ کو بغیر طریقہ کار اپنائے ڈائریکٹر مقرر کیا، وہ ماضی میں جس بینک سے منسلک تھے اس کی جانب سے ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ایونٹس میں پی سی بی کے ساتھ رہ چکے مگر ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ڈومیسٹک ٹورنامنٹ اور ایک انٹرنیشنل ایونٹ میں زمین آسمان کا فرق ہو گا، اگر پاکستان سپر لیگ اپنے نام کی طرح ملک میں ہی ہو تو یقیناً بورڈ کو مالی فائدہ ہو سکتا ہے مگر دیارغیر میں گراؤنڈز کا کرایہ،کھلاڑیوں کے سفری اخراجات اور دیگر چیزوں پر جو رقم خرچ ہو گی اس کا ابھی کوئی سوچے تو فوراً ایونٹ ملتوی کر دیا جائے،صرف چند بورڈ آفیشلز جس طرح ان دنوں دبئی اور قطر کے چکر لگا رہے ہیں کچھ عرصے بعد اس کی رقم ہی ایک کھلاڑی کو دینے والے معاوضے کے برابر ہو جائے گی۔ بورڈ نے سپرلیگ کیلیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، ابتدا سے ہی ایونٹ مسائل کا شکار نظر آ رہا ہے،لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کرنے والے افسران کی معاملات پر گہری نظر کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ انھیں یہ علم نہیں تھا کہ فروری میں یو اے ای میں سابق کرکٹرز کی ماسٹرز لیگ ہو رہی ہے۔
یہ بھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس دوران سوائے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے تمام ٹیمیں مصروف ہوں گی، میں نے جب ان باتوں کی اپنے مضامین میں نشاندہی کی تو ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ فائل بنا کر حکام کے پاس پہنچ گئے کہ سر یہ دیکھیں سپر لیگ کی مخالفت ہو رہی ہے، اگر آنکھیں بند کر بیٹھ جائیں تو حقیقت رخ نہیں بدل لیتی آپ کو اس کا سامنا کرنا چاہیے، سپر لیگ اربوں روپے کا منصوبہ ہے اس کا انعقاد مکمل سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو ایونٹ کیلیے غیرملکی کرکٹرز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے،کسی صحافی کو ایس ایم ایس کر دینا بہت آسان ہے کہ فلاں فلاں کھلاڑی سے معاہدہ ہونے والا ہے مگر حقیقتاً اب تک کسی کے ایجنٹ نے ’’ہاں‘‘ نہیں کی، ایک نئے ایونٹ کیلیے کون اپنی قومی ٹیم کو چھوڑ کر آئے گا؟باقی ماسٹرز لیگ نے کئی پرانے کھلاڑیوں کو ایڈوانس رقم کے چیک بھی بھیج دیے ہیں، اگر بڑے نام تیار بھی ہو گئے تو ایک اہم مسئلہ درپیش ہے، بیشتر کے انڈین پریمیئر لیگ سے معاہدے ہیں، ان دنوں پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے ہیں۔
بھارت نے پہلے کبھی پاکستان کا فائدہ نہیں ہونے دیا، اب اگر وہ اپنے زیرمعاہدہ کرکٹرز کو پی ایس ایل میں شرکت سے روک لے پھر کیا ہوگا؟ اسی طرح بنگلہ دیش سے بھی پاکستانی تعلقات خوشگوار نہیں، اس کی لیگ میں ہمارے کھلاڑی نہیں جاتے تھے اب اگر وہ حساب چکانے کا سوچے تو نیا مسئلہ منتظر ہوگا، پھر ٹی وی رائٹس سب سے بڑا ایشو ہے، اگر کسی اپنے کو نوازنے کا فیصلہ ہو چکا تو اور بات ہے بصورت دیگر موجودہ براڈ کاسٹر سے معاہدے کی صورت میں بھارتی بورڈ کو جواز مل جائے گا کہ وہ آئی پی ایل پلیئرز کو روک لے، ٹین اسپورٹس کے باسز کی جانب سے باغی لیگ کرانے کے اعلان نے اسے شور مچانے کا موقع فراہم کر دیا ہے،اپنے کھلاڑیوں کو تو ریلیز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ آئی پی ایل میں ہمارے کھلاڑیوں کو تو شامل نہیں کرتا پاکستان کی لیگ میں اپنے کرکٹرز کیسے بھیجے گا؟ ان دنوں ویسے ہی تعلقات انتہائی کشیدہ اور دسمبر میں باہمی سیریز کا انعقاد ہی خطرے میں پڑ چکا ہے، اس سے روابط میں مزید تناؤ آئے گا۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی بورڈ اور براڈکاسٹر کا تنازع حل ہو چکا مگر حقیقتاً ایسا نہیں لگتا، مسئلہ یہ ہے کہ پی سی بی کو زیادہ رقم اس کے سوا کوئی اور چینل شاید ہی دینے پر آمادہ ہو، یوں معاہدہ کیا تو مصیبت نہ کیا تو بھی مصیبت منتظر ہوگی۔ ایونٹ کیلیے وینیوز کے انتخاب نے بھی پی سی بی آفیشلز کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں، میڈیا ڈپارٹمنٹ والے روزانہ پاکستانی اخبارات میں کرکٹ کی خبروں کے تراشے اعلیٰ حکام کو بھیجتے ہیں مگر وہ صرف انہی کو اہمیت دیتے جس میں ان کے بارے میں کچھ ہو، اسی لیے کئی ماہ قبل جب ماسٹرز لیگ کے انعقاد کا اعلان ہوا تو کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، امارات کرکٹ کوئی پی سی بی کا ماتحت ادارہ نہیں جوگراؤنڈز کرائے پر دیتے ہوئے پیشگی اطلاع دے، جب میرے جیسے عام صحافی یہ بات جانتے تھے کہ فروری میں سابق کرکٹرز کی ایک لیگ امارات میں ہونے والی ہے تو پی سی بی کو کیوں اس کا علم نہ تھا؟ اور اگر حکام یہ بات جانتے تھے تو ایسے میں کیوں فروری میں مقابلوں کا فیصلہ کیا؟
قطرکے بارے میں پہلے ہی نشاندہی کر چکا کہ وہاں سہولتوں کی کمی ہے، گراؤنڈ دوحا شہر سے باہر انڈسٹریل ایریا میں واقع ہے، میڈیا سینٹر سمیت وہاں امپائرز و ریفریز روم موجود نہیں، ڈریسنگ روم بھی عالمی معیار کے نہیں، گذشتہ برس تو سابق ڈائریکٹر مارکیٹنگ بدر رفاعی نے مستقبل میں سپرلیگ اور انٹرنیشنل کرکٹ ایونٹ کرانے کے سبز باغ دکھاکر ایک مقامی بزنسمین کوگراؤنڈ کی تزئین و آرائش پر آمادہ کر لیا تھا، اب ایسا نہیں ہوسکتا، قطری حکومت نے زبانی وعدہ کیا مگر تاحال تحریری یقین دہانی نہیں کرائی، اب اگر پی سی بی چند دنوں کے ایونٹ کیلیے اپنے طور پر رقم خرچ کرے تو اسے کیا فائدہ ہوگا؟ اسی لیے دوبارہ یو اے ای کی منت سماجت ہو رہی ہے کہ اچھا ایک گراؤنڈ ہی دے دو، شاید بات بن جائے بصورت دیگر دوحا میں امارات جتنا کراؤڈ آنے کی توقع رکھنا فضول ہوگا۔
موجودہ حالات میں اگر پی سی بی نے ہر حال میں سپر لیگ کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو انعقاد اپنے ملک میں ہی کرنا چاہیے،دنیا تعریف پر مجبور ہے کہ جاری آپریشن کی وجہ سے ملکی حالات میں بہتری آ چکی، ہمارا بورڈ ہی نہیں مان رہا، چیئرمین شہریار خان کہہ رہے ہیں کہ ایونٹ پاکستان میں ہوا تو بڑے کرکٹرز نہیں آئیں گے، اگر ڈی ویلیئرز، سنگاکارا، اسٹیون اسمتھ، مائیکل کلارک، کرس گیل اور برینڈن میک کولم جیسے کھلاڑی کھیلنے کو تیار ہیں تو یقیناً انعقاد امارات یا دوحا میں ہونا چاہیے، بصورت دیگر بڑے نام شامل نہیں تو چھوٹے کرکٹرز کو تو زمبابوے کی طرح ڈالرز دکھا کر پاکستان بھی بلایا جا سکتا ہے،اس سے اخراجات میں بے انتہا کمی آئے گی، سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کا کام ہے جیسے اس نے زمبابوے سے ہوم سیریز میں بخوبی انجام دیا، اب بھی اعتماد کر کے دیکھیں، ملک میں شائقین معیاری کرکٹ کو ترسے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زمبابوے جیسی ٹیم کے میچز دیکھنے کیلیے قذافی اسٹیڈیم میں ہزاروں لوگ موجود ہوتے، اگر بین الاقوامی معیار کا ٹورنامنٹ پاکستان میں کرایا جائے تو کراؤڈ کے آنے سے بھاری گیٹ منی بھی حاصل ہو سکتی ہے، کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ساتھ فیصل آباد و دیگر ایسے شہروں میں میچز کرائیں جہاں کراؤڈ کے آنے کی توقع ہو، اس سے بورڈ کو ہر لحاظ سے فائدہ ہو گا، سپر لیگ دیار غیر میں کرانے کے اعلان سے ہم نے زمبابوین سیریز کے کامیاب انعقاد کا ایڈوانٹیج گنوا دیا، اب بیرون ملک لوگ دوبارہ شک میں پڑ چکے کہ یہ اپنا ایونٹ پاکستان میں نہیں کرانا چاہتے دال میں کچھ کالا ضرور ہے، ہمیں یہ تاثر دور کرنا ہوگا۔
سپر لیگ کیلیے اچھی قیمت پر ٹیمیں فروخت کرنا بھی پی سی بی کیلیے چیلنج ہے، مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے والی بعض شخصیات کو سخت دشواری کا سامنا ہو گا، سبز باغ دکھا کر چند اداروں کو ٹیمیں بیچ بھی دیں اور اگر پہلے ایونٹ کا شایان شان انداز سے انعقاد نہ ہو سکا تو وہ بھی فیصلے پر نظرثانی پر مجبور ہو جائیں گے، اس صورت میں دیگر کمپنیز کو بھی اسپانسر شپ کیلیے قائل کرنا دشوار ہوگا، مجھے یقین ہے کہ جہاندیدہ شہریارخان اس صورتحال کو بھانپ چکے ہیں، وہ سابق سفارتکار رہ چکے، پہلے بھی پی سی بی کی سربراہی کا اعزاز پایا جبکہ ٹیم منیجر بھی رہے، انھیں کھیل کی اچھی طرح سمجھ بوجھ ہے، اسی لیے انھوں نے سپرلیگ کی کھلے عام مخالفت کر دی تھی، مگر پھر جب ساتھیوں نے ناراضی ظاہر کی تو اب اظہار خیال میں محتاط ہیں، نجم سیٹھی کو کرکٹ معاملات کا اتنا اندازہ نہیں، وہ سیاسی فیلڈ کے کھلاڑی ہیں،ان کی چڑیا کو بھی کرکٹ میدانوں میں اڑنا زیادہ پسند نہیں، وہ ٹویٹر کی دنیا کے بادشاہ ہیں۔
انھیں اندازہ نہیں کہ کھیل میں معاملات بالکل الگ ہیں،کاغذ پر بڑے بڑے منصوبے بن جاتے مگر عملی جامہ 10فیصد کو بھی نہیں پہنایا جا سکتا، اس کیلیے برسوں منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے، بھارت نے آئی پی ایل سوچتے ہی نہیں کرا دی، اس نے بھرپور منصوبہ بندی سے دنیائے کرکٹ کو اپنے بس میں کیا، پہلے بیرون ملک کرکٹ کے دوران اپنے اسپانسرز کو بھیجا جنھوں نے بھاری رقوم دے کر بورڈز کو متاثر کیا، پھر آئی سی سی ایونٹس میں بھارتی اسپانسرز چھا گئے، اس سے ساکھ اور بڑھی، اب آئی پی ایل کی باری آئی جس کا اعلان ہوتے ہی دنیا بھر کے بڑے کرکٹرز کھنچے چلے آئے اور بورڈز نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا،اب سب ڈالرز میں کھیل رہے ہیں مگر کرکٹ کا ستیاناس ہو چکا،آسٹریلیا کے سابق کرکٹرز ایشز سیریز میں بدترین کارکردگی کا سبب انڈین لیگ کو ہی قرار دے رہے ہیں، میچ فکسنگ کا ناسور پھر سر اٹھا چکا، چند چھوٹے مہرے پکڑے گئے پھر انھیں بھی کلین چٹ مل گئی، سری نواسن کے داماد اور ٹیم پر پابندی لگ گئی وہ بدستور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے حکمران ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کرکٹ میں اب کن لوگوں کا راج ہے، سری لنکا نے لیگ کرائی تو ٹیمیں بھاری رقم دے کر بعض افراد نے خریدیں بعد میں علم ہوا وہ تو بھارتی بکیز تھے، پورے پورے میچز فکسڈ ہوئے، بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی ہوا، اس کے کئی معروف کھلاڑی سٹے بازوں کے چنگل میں پھنسے، ایسی لیگز پیسہ لائیں تو ساتھ کرپشن کی راہ بھی کھلتی گئی، پی سی بی کو اس جانب بھی توجہ دینا چاہیے، ٹیمیں فروخت کرتے ہوئے اچھی طرح جانچ پڑتال کرنا پڑے گی، اسی طرح جلد بازی کا مظاہرہ سپر لیگ کو سپرفلاپ بنا سکتا ہے، پہلا تاثر آخری ثابت ہوتا ہے بورڈ حکام کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے، ابھی ویسے ہی ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملے میں تنازعات جاری ہیں پہلے انھیں حل کریں، ٹیم کو بہتری کی جانب لے کر جائیں، پیسہ تو آتا رہے گا پہلا مقصد قومی کرکٹ ٹیم کو کامیابی کی راہ پر گامزن کرنا ہونا چاہیے،مگر افسوس کہ اس وقت تو خوب دولت کمانا ہی حکام کی اولین ترجیح دکھائی دیتی ہے۔

Wednesday, August 12, 2015

Super League, Pakistan once again looked to the UAE ..


کراچی: قطرمیں ناکافی سہولتوں کے سبب پاکستان ایک بار پھر سپر لیگ کیلیے یو اے ای کی جانب دیکھنے لگا، کسی ایک وینیو کو ماسٹرز لیگ کیلیے مختص نہ کرنے کی درخواست کا سوچا جا رہا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پی سی بی آئندہ برس ٹوئنٹی 20 لیگ کرانے کیلیے دن رات ایک کیے ہوئے ہے مگر مشکلات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں، اسے سابق کرکٹرز کی ماسٹرز لیگ کی وجہ سے متحدہ عرب امارات میں تین وینیوز حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے، اسی لیے قطر سے رابطہ کیا گیا مگر وہاں سہولتوں کی کمی ہے، بورڈ نے قطر کرکٹ ایسوسی ایشن کو خط لکھ کر میڈیا سینٹر کی تعمیر اور پویلینز کو کشادہ کرنے کا کہا مگر وہ اپنی جانب سے رقم خرچ کرنے کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتا، کئی دیگر وجوہات کی بنا پر بھی پی سی بی حکام قطر میں ایونٹ کا انعقاد نہیں چاہتے، اسی لیے ایک بار پھر یو اے ای کرکٹ حکام سے رابطہ کر لیا گیا ہے، ان سے کہا گیا کہ لیگ کے لیے دبئی اسپورٹس سٹی ہی دے دیں۔
ماسٹرز لیگ کا انعقاد تو شارجہ اور ابوظبی میں بھی ہو سکتا ہے، پاکستان نے اس سلسلے میں اعلیٰ سطح پر بھی کوششیں شروع کر دی ہیں، اماراتی حکام نے مشورہ دیا ہے کہ پی سی بی ازخود ماسٹرز لیگ کے منتظمین سے درخواست کرے، مگر ذرائع نے بتایاکہ ماضی میں اس قسم کی کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا تھا،مالی خسارے کے خدشے کو مدنظر رکھتے ہوئے ماسٹرز ایونٹ کے منتظمین کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے، ان کے نزدیک دبئی اہم ترین وینیو ہے وہاں میچز نہ کرانا درست نہیں ہو گا۔ حالیہ اقدامات کے باوجود بھی اگر بات نہ بنی تو پاکستان کو مجبوراً ایونٹ کا انعقاد دوحا قطر میں ہی کرنا ہوگا۔

Monday, August 10, 2015

Super League players also uary separation ..

کراچی: سپر لیگ سے پاکستانی کھلاڑیوں کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔
پی سی بی آئندہ برس فروری میں ٹوئنٹی 20 لیگ کرانے کے لیے سرگرم ہے، یو اے ای کے گراؤنڈز مصروف ہونے کی وجہ سے قطر میں مقابلوں کا انعقاد ہوگا، ایونٹ میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کو بھاری معاوضوں کی ادائیگی ہوگی، ابتدائی طور پر تین کیٹیگریز بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔
اے میں اپنے ملک میں سپراسٹار درجے کے حامل آئیکون کرکٹرز شامل ہوں گے، پاکستان کی جانب سے مختصر طرز کی ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی سمیت چند کرکٹرز کو یہ اسٹیٹس مل سکتا ہے، اس میں شامل ایک لاکھ ڈالر (ایک کروڑ سے زائد پاکستان روپے) حاصل کریں گے، اگر کسی ٹیم کے 8میچز ہونے ہیں اور کوئی پلیئر ان میں سے بعض نہ کھیل سکا تو اسے شرکت کرنے والے مقابلوں کے لحاظ سے ادائیگی ہو گی۔ ابتدائی تجویز کے مطابق بی کیٹیگری میں شامل کھلاڑیوں کو60 ہزار اور سی کو40 ہزار ڈالر دیے جائیں گے۔ اس تجویز کو ابھی پی ایس ایل حکام کی حتمی منظوری درکارہے۔
اس وقت غیرملکی کرکٹرز سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، زبانی طور پر تو دلچسپی کا اظہار کیا گیا مگر تاحال ایک بھی کھلاڑی سے معاہدہ نہیں ہو سکا، کرکٹ بورڈ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فروری میں سوائے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے کوئی اور ٹیم فارغ نہیں، ایسے میں موجودہ کھلاڑیوں سے معاہدہ دشوار ہو گا، حال ہی میں ریٹائر ہونے والے کئی معروف کرکٹرز اس وقت یو اے ای میں ماسٹرز لیگ کھیل رہے ہوں گے، ایسے میں ایونٹ میں اسٹارز کی آمد پاکستان کے لیے سخت چیلنج ہے۔