Showing posts with label T20 Players. Show all posts
Showing posts with label T20 Players. Show all posts

Wednesday, September 9, 2015

Pakistan Super League ..

Pakistan Super League

PSL join the foreign players started consultations with the throw

PSL join the foreign players started consultations with the throw
کراچی: پاکستان سپر لیگ میں شرکت سے قبل غیرملکی کرکٹرز نے ایسوسی ایشن سے مشاورت شروع کر دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق لاہور، کراچی، پشاور، کوئٹہ اور اسلام آباد کے نام سے5ٹیمیں آئندہ برس 4 سے 24 فروری تک دوحا، قطر میں پی ایس ایل کے دوران ایکشن میں نظر آئیں گی، ایک ملین ڈالر انعامی رقم کے ایونٹ میں پی سی بی کا دعویٰ ہے کہ 40 انٹرنیشنل کرکٹرز شرکت کی خواہش رکھتے ہیں۔
ایونٹ کے حوالے سے فیڈریشن آف انٹرنیشنل کرکٹرز ایسوسی ایشن (فیکا) کے ایگزیکٹیو چیئرمین ٹونی آئرش نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے،کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ سے نمائندہ ’’ایکسپریس‘‘ کو خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ بعض ممبر کرکٹرز نے پاکستان سپر لیگ کے حوالے سے ہم سے معلومات طلب کی ہیں البتہ ان کے نام نہیں بتا سکتا،ٹونی آئرش نے کہا کہ فیکا پی ایس ایل سمیت کسی بھی ٹوئنٹی 20 لیگ میں پلیئرز کو شرکت کا موقع ملنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ البتہ بعض معاملات پر عمل درآمد ضروری ہے، ایک تو ایونٹ آئی سی سی سے منظور شدہ ہو، سیکیورٹی معاملات کے لحاظ سے کھلاڑیوں کی اس میں شرکت درست ہو،کھیل کا وقار برقرار رکھنے کے سلسلے میں اینٹی کرپشن اور ڈوپنگ کوڈز کا مکمل اطلاق کیا ہو، منفی عناصر سے بچنے کیلیے اینٹی کرپشن یونٹ کا تقرر بھی ضروری ہے۔
اسی کے ساتھ پلیئرز کے ساتھ درست اور منصفانہ معاہدے کیے جائیں۔انھوں نے کہا کہ ہمارا اپنے رکن ارکان کو یہی مشورہ ہوگا کہ اگر ان تمام باتوں پر عمل درآمد کیا جائے تو ضرور پی ایس ایل میں شرکت کریں، ساتھ ان کے اپنے ملک کی کرکٹ بورڈ کا این او سی بھی ضروری ہوگا۔ یاد رہے کہ1998میں قائم شدہ فیکا دنیا بھر کے کرکٹرز کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے،آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ،سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی پلیئرز ایسوسی ایشنز اس کی رکن ہیں،بنگلہ دیشی کرکٹرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کا بھی فیکا سے اطلاق ہے، ٹیسٹ ممالک میں صرف پاکستان، بھارت اور زمبابوے اس کے رکن نہیں ہیں۔
ایک سوال پر ٹونی آئرش نے کہا کہ ماضی میں بعض ٹی ٹوئنٹی لیگز کے دوران کھلاڑیوں کو معاوضوں کے معاملے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اسی لیے ہم تمام ایسے ایونٹس کے منتظمین کو معاہدے میں یہ شق رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ فیس کا کچھ حصہ لیگ شروع ہونے سے قبل ادا کر دیا جائے گا۔ہم کھلاڑیوں سے بھی کہتے ہیں کہ اس بات پر اصرار کریں۔ بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیشی لیگز کے فکسنگ سے متاثر ہونے کے بعد فیکا چیف نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ سخت اینٹی کرپشن کوڈ کا اطلاق کریں، ایونٹ ہر حالت میں اینٹی کرپشن یونٹ کی زیرنگرانی کرایا جائے جو آئی سی سی کا ہو یا کونسل اسے جانچ چکی ہو۔

Pakistan Super League

Wednesday, August 26, 2015

Pakistan Super League ..

Pakistan Super League

PCB announces to the Pakistan Super League in Qatar

PCB announces to the Pakistan Super League in Qatar
لاہور: پی سی بی نے پہلی پاکستان سپر لیگ آئندہ سال قطر کے دارالحکومت دوحا میں منعقد کروانے کا اعلان کردیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی اور سپر لیگ کی گورننگ کونسل کے چیئرمین نجم سیٹھی نے قذافی اسٹیڈیم میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ ٹورنامنٹ آئندہ سال 4 سے 24 فروری تک قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہوگا جس میں 5 ٹیمیں حصہ لیں گی اور اس دوران مجموعی طور پر 24 میچ کھیلے جائیں گے۔
نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ پاکستان سپر لیگ میں بھارت کے سوا دیگر تمام ممالک کے نامور کرکٹرز نے کھیلنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے جن میں ویسٹ انڈیز کے 4، جنوبی افریقا اور سری لنکا کے 2، 2 ٹاپ کھلاڑی شامل ہیں جب کہ توقع ہے کہ انگلینڈ ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے  کھلاڑی بھی ایونٹ میں شریک ہوں گے۔
سپر لیگ  کے پہلے ایڈیشن کی انعامی رقم 10 کروڑ روپے ہے  اور اس میں لاہور، کراچی، اسلام آباد ،پشاور اور کوئٹہ کی ٹیمیں شامل ہوں گی جب کہ تمام میچ دوحا کے اسٹیڈیم میں ہی کھیلیں جائیں گے۔ فرنچائز کے مالکان، براڈکاسٹرز اور اسپانسرز کی تفصیلات اگلے 3 ماہ میں طے کی جائیں گی جب کہ قطر کے حکام سے آئندہ 10 روز میں معاہدہ طے کرلیا جائے گا ۔
واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ آئی پی ایل کی طرز پر ٹی ٹوئنٹی لیگ کے انعقاد کے لیے کافی عرصے سے کوشش کررہا ہے لیکن ملک میں سیکیورٹی خدشات  اور مختلف وجوہات کے سبب یہ لیگ منعقد نہیں ہو سکی۔ پہلے یہ لیگ متحدہ عرب امارات میں ہونا تھی لیکن مقررہ تاریخ میں وہاں کے اسٹیڈیمز دستیاب نہیں تھے جس کی وجہ سے سپر لیگ کو قطر منتقل کرنا پڑا۔

Saturday, August 15, 2015

Super League will become the super-flops?

’’ایک بار میں نے اگر کمٹمنٹ کر لی تو اس کے بعد اپنے آپ کی بھی نہیں سنتا‘‘
قارئین آپ نے یہ مشہور فلمی ڈائیلاگ ضرور سنا ہو گا، ان دنوں پی سی بی اس کی عملی تصویر بنا ہوا ہے، اس کا حال ایک ضدی بچے جیسا ہو چکا جسے ہر حال میں جو بات ٹھان لی اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے چاہے راہ میں جتنے بھی کانٹے آئیں یا بعد میں جو بھی ہو، میں دیار غیر میں ہونے والی پاکستان سپر لیگ کی بات کر رہا ہوں جس کے انعقاد کیلیے بورڈ بے تاب ہے، اس وقت ویسے ہی انٹرنیشنل ٹیموں کی ملک میں آمد نہ ہونے سے خزانے میں اضافہ نہیں ہو رہا، آپ زمبابوے کی بات نہ کریں، ان بیچارے غریب کرکٹرز کو تو بھاری معاوضے کا لولی پاپ دے کر بلایا گیا تھا، اب پی سی بی کے پاس جو رقم بچی اس کا بڑا حصہ سپر لیگ پر پھونک دیا جائے گا، آپ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اے کیٹیگری پلیئرز کو ایک کروڑ، بی کو60 اور سی کو 40 لاکھ روپے دینے کی باتیں ہو رہی ہیں، یوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اربوں روپے خرچ ہوں گے، واپس کتنے آئیں گے یہ ایک بڑا سوال ہے، ابھی تو غیرملکی کنسلٹنسی فرم ہی کروڑوں روپے لے چکی ہوگی۔
بورڈ نے ٹورنامنٹ کیلیے سلمان بٹ کو بغیر طریقہ کار اپنائے ڈائریکٹر مقرر کیا، وہ ماضی میں جس بینک سے منسلک تھے اس کی جانب سے ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی ایونٹس میں پی سی بی کے ساتھ رہ چکے مگر ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ڈومیسٹک ٹورنامنٹ اور ایک انٹرنیشنل ایونٹ میں زمین آسمان کا فرق ہو گا، اگر پاکستان سپر لیگ اپنے نام کی طرح ملک میں ہی ہو تو یقیناً بورڈ کو مالی فائدہ ہو سکتا ہے مگر دیارغیر میں گراؤنڈز کا کرایہ،کھلاڑیوں کے سفری اخراجات اور دیگر چیزوں پر جو رقم خرچ ہو گی اس کا ابھی کوئی سوچے تو فوراً ایونٹ ملتوی کر دیا جائے،صرف چند بورڈ آفیشلز جس طرح ان دنوں دبئی اور قطر کے چکر لگا رہے ہیں کچھ عرصے بعد اس کی رقم ہی ایک کھلاڑی کو دینے والے معاوضے کے برابر ہو جائے گی۔ بورڈ نے سپرلیگ کیلیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، ابتدا سے ہی ایونٹ مسائل کا شکار نظر آ رہا ہے،لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کرنے والے افسران کی معاملات پر گہری نظر کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ انھیں یہ علم نہیں تھا کہ فروری میں یو اے ای میں سابق کرکٹرز کی ماسٹرز لیگ ہو رہی ہے۔
یہ بھی کوئی نہیں جانتا تھا کہ اس دوران سوائے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے تمام ٹیمیں مصروف ہوں گی، میں نے جب ان باتوں کی اپنے مضامین میں نشاندہی کی تو ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ فائل بنا کر حکام کے پاس پہنچ گئے کہ سر یہ دیکھیں سپر لیگ کی مخالفت ہو رہی ہے، اگر آنکھیں بند کر بیٹھ جائیں تو حقیقت رخ نہیں بدل لیتی آپ کو اس کا سامنا کرنا چاہیے، سپر لیگ اربوں روپے کا منصوبہ ہے اس کا انعقاد مکمل سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے، یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو ایونٹ کیلیے غیرملکی کرکٹرز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے،کسی صحافی کو ایس ایم ایس کر دینا بہت آسان ہے کہ فلاں فلاں کھلاڑی سے معاہدہ ہونے والا ہے مگر حقیقتاً اب تک کسی کے ایجنٹ نے ’’ہاں‘‘ نہیں کی، ایک نئے ایونٹ کیلیے کون اپنی قومی ٹیم کو چھوڑ کر آئے گا؟باقی ماسٹرز لیگ نے کئی پرانے کھلاڑیوں کو ایڈوانس رقم کے چیک بھی بھیج دیے ہیں، اگر بڑے نام تیار بھی ہو گئے تو ایک اہم مسئلہ درپیش ہے، بیشتر کے انڈین پریمیئر لیگ سے معاہدے ہیں، ان دنوں پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے ہیں۔
بھارت نے پہلے کبھی پاکستان کا فائدہ نہیں ہونے دیا، اب اگر وہ اپنے زیرمعاہدہ کرکٹرز کو پی ایس ایل میں شرکت سے روک لے پھر کیا ہوگا؟ اسی طرح بنگلہ دیش سے بھی پاکستانی تعلقات خوشگوار نہیں، اس کی لیگ میں ہمارے کھلاڑی نہیں جاتے تھے اب اگر وہ حساب چکانے کا سوچے تو نیا مسئلہ منتظر ہوگا، پھر ٹی وی رائٹس سب سے بڑا ایشو ہے، اگر کسی اپنے کو نوازنے کا فیصلہ ہو چکا تو اور بات ہے بصورت دیگر موجودہ براڈ کاسٹر سے معاہدے کی صورت میں بھارتی بورڈ کو جواز مل جائے گا کہ وہ آئی پی ایل پلیئرز کو روک لے، ٹین اسپورٹس کے باسز کی جانب سے باغی لیگ کرانے کے اعلان نے اسے شور مچانے کا موقع فراہم کر دیا ہے،اپنے کھلاڑیوں کو تو ریلیز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ آئی پی ایل میں ہمارے کھلاڑیوں کو تو شامل نہیں کرتا پاکستان کی لیگ میں اپنے کرکٹرز کیسے بھیجے گا؟ ان دنوں ویسے ہی تعلقات انتہائی کشیدہ اور دسمبر میں باہمی سیریز کا انعقاد ہی خطرے میں پڑ چکا ہے، اس سے روابط میں مزید تناؤ آئے گا۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی بورڈ اور براڈکاسٹر کا تنازع حل ہو چکا مگر حقیقتاً ایسا نہیں لگتا، مسئلہ یہ ہے کہ پی سی بی کو زیادہ رقم اس کے سوا کوئی اور چینل شاید ہی دینے پر آمادہ ہو، یوں معاہدہ کیا تو مصیبت نہ کیا تو بھی مصیبت منتظر ہوگی۔ ایونٹ کیلیے وینیوز کے انتخاب نے بھی پی سی بی آفیشلز کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں، میڈیا ڈپارٹمنٹ والے روزانہ پاکستانی اخبارات میں کرکٹ کی خبروں کے تراشے اعلیٰ حکام کو بھیجتے ہیں مگر وہ صرف انہی کو اہمیت دیتے جس میں ان کے بارے میں کچھ ہو، اسی لیے کئی ماہ قبل جب ماسٹرز لیگ کے انعقاد کا اعلان ہوا تو کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، امارات کرکٹ کوئی پی سی بی کا ماتحت ادارہ نہیں جوگراؤنڈز کرائے پر دیتے ہوئے پیشگی اطلاع دے، جب میرے جیسے عام صحافی یہ بات جانتے تھے کہ فروری میں سابق کرکٹرز کی ایک لیگ امارات میں ہونے والی ہے تو پی سی بی کو کیوں اس کا علم نہ تھا؟ اور اگر حکام یہ بات جانتے تھے تو ایسے میں کیوں فروری میں مقابلوں کا فیصلہ کیا؟
قطرکے بارے میں پہلے ہی نشاندہی کر چکا کہ وہاں سہولتوں کی کمی ہے، گراؤنڈ دوحا شہر سے باہر انڈسٹریل ایریا میں واقع ہے، میڈیا سینٹر سمیت وہاں امپائرز و ریفریز روم موجود نہیں، ڈریسنگ روم بھی عالمی معیار کے نہیں، گذشتہ برس تو سابق ڈائریکٹر مارکیٹنگ بدر رفاعی نے مستقبل میں سپرلیگ اور انٹرنیشنل کرکٹ ایونٹ کرانے کے سبز باغ دکھاکر ایک مقامی بزنسمین کوگراؤنڈ کی تزئین و آرائش پر آمادہ کر لیا تھا، اب ایسا نہیں ہوسکتا، قطری حکومت نے زبانی وعدہ کیا مگر تاحال تحریری یقین دہانی نہیں کرائی، اب اگر پی سی بی چند دنوں کے ایونٹ کیلیے اپنے طور پر رقم خرچ کرے تو اسے کیا فائدہ ہوگا؟ اسی لیے دوبارہ یو اے ای کی منت سماجت ہو رہی ہے کہ اچھا ایک گراؤنڈ ہی دے دو، شاید بات بن جائے بصورت دیگر دوحا میں امارات جتنا کراؤڈ آنے کی توقع رکھنا فضول ہوگا۔
موجودہ حالات میں اگر پی سی بی نے ہر حال میں سپر لیگ کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو انعقاد اپنے ملک میں ہی کرنا چاہیے،دنیا تعریف پر مجبور ہے کہ جاری آپریشن کی وجہ سے ملکی حالات میں بہتری آ چکی، ہمارا بورڈ ہی نہیں مان رہا، چیئرمین شہریار خان کہہ رہے ہیں کہ ایونٹ پاکستان میں ہوا تو بڑے کرکٹرز نہیں آئیں گے، اگر ڈی ویلیئرز، سنگاکارا، اسٹیون اسمتھ، مائیکل کلارک، کرس گیل اور برینڈن میک کولم جیسے کھلاڑی کھیلنے کو تیار ہیں تو یقیناً انعقاد امارات یا دوحا میں ہونا چاہیے، بصورت دیگر بڑے نام شامل نہیں تو چھوٹے کرکٹرز کو تو زمبابوے کی طرح ڈالرز دکھا کر پاکستان بھی بلایا جا سکتا ہے،اس سے اخراجات میں بے انتہا کمی آئے گی، سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کا کام ہے جیسے اس نے زمبابوے سے ہوم سیریز میں بخوبی انجام دیا، اب بھی اعتماد کر کے دیکھیں، ملک میں شائقین معیاری کرکٹ کو ترسے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ زمبابوے جیسی ٹیم کے میچز دیکھنے کیلیے قذافی اسٹیڈیم میں ہزاروں لوگ موجود ہوتے، اگر بین الاقوامی معیار کا ٹورنامنٹ پاکستان میں کرایا جائے تو کراؤڈ کے آنے سے بھاری گیٹ منی بھی حاصل ہو سکتی ہے، کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ساتھ فیصل آباد و دیگر ایسے شہروں میں میچز کرائیں جہاں کراؤڈ کے آنے کی توقع ہو، اس سے بورڈ کو ہر لحاظ سے فائدہ ہو گا، سپر لیگ دیار غیر میں کرانے کے اعلان سے ہم نے زمبابوین سیریز کے کامیاب انعقاد کا ایڈوانٹیج گنوا دیا، اب بیرون ملک لوگ دوبارہ شک میں پڑ چکے کہ یہ اپنا ایونٹ پاکستان میں نہیں کرانا چاہتے دال میں کچھ کالا ضرور ہے، ہمیں یہ تاثر دور کرنا ہوگا۔
سپر لیگ کیلیے اچھی قیمت پر ٹیمیں فروخت کرنا بھی پی سی بی کیلیے چیلنج ہے، مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ میں تیزی سے ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے والی بعض شخصیات کو سخت دشواری کا سامنا ہو گا، سبز باغ دکھا کر چند اداروں کو ٹیمیں بیچ بھی دیں اور اگر پہلے ایونٹ کا شایان شان انداز سے انعقاد نہ ہو سکا تو وہ بھی فیصلے پر نظرثانی پر مجبور ہو جائیں گے، اس صورت میں دیگر کمپنیز کو بھی اسپانسر شپ کیلیے قائل کرنا دشوار ہوگا، مجھے یقین ہے کہ جہاندیدہ شہریارخان اس صورتحال کو بھانپ چکے ہیں، وہ سابق سفارتکار رہ چکے، پہلے بھی پی سی بی کی سربراہی کا اعزاز پایا جبکہ ٹیم منیجر بھی رہے، انھیں کھیل کی اچھی طرح سمجھ بوجھ ہے، اسی لیے انھوں نے سپرلیگ کی کھلے عام مخالفت کر دی تھی، مگر پھر جب ساتھیوں نے ناراضی ظاہر کی تو اب اظہار خیال میں محتاط ہیں، نجم سیٹھی کو کرکٹ معاملات کا اتنا اندازہ نہیں، وہ سیاسی فیلڈ کے کھلاڑی ہیں،ان کی چڑیا کو بھی کرکٹ میدانوں میں اڑنا زیادہ پسند نہیں، وہ ٹویٹر کی دنیا کے بادشاہ ہیں۔
انھیں اندازہ نہیں کہ کھیل میں معاملات بالکل الگ ہیں،کاغذ پر بڑے بڑے منصوبے بن جاتے مگر عملی جامہ 10فیصد کو بھی نہیں پہنایا جا سکتا، اس کیلیے برسوں منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے، بھارت نے آئی پی ایل سوچتے ہی نہیں کرا دی، اس نے بھرپور منصوبہ بندی سے دنیائے کرکٹ کو اپنے بس میں کیا، پہلے بیرون ملک کرکٹ کے دوران اپنے اسپانسرز کو بھیجا جنھوں نے بھاری رقوم دے کر بورڈز کو متاثر کیا، پھر آئی سی سی ایونٹس میں بھارتی اسپانسرز چھا گئے، اس سے ساکھ اور بڑھی، اب آئی پی ایل کی باری آئی جس کا اعلان ہوتے ہی دنیا بھر کے بڑے کرکٹرز کھنچے چلے آئے اور بورڈز نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا،اب سب ڈالرز میں کھیل رہے ہیں مگر کرکٹ کا ستیاناس ہو چکا،آسٹریلیا کے سابق کرکٹرز ایشز سیریز میں بدترین کارکردگی کا سبب انڈین لیگ کو ہی قرار دے رہے ہیں، میچ فکسنگ کا ناسور پھر سر اٹھا چکا، چند چھوٹے مہرے پکڑے گئے پھر انھیں بھی کلین چٹ مل گئی، سری نواسن کے داماد اور ٹیم پر پابندی لگ گئی وہ بدستور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے حکمران ہیں۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کرکٹ میں اب کن لوگوں کا راج ہے، سری لنکا نے لیگ کرائی تو ٹیمیں بھاری رقم دے کر بعض افراد نے خریدیں بعد میں علم ہوا وہ تو بھارتی بکیز تھے، پورے پورے میچز فکسڈ ہوئے، بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی ہوا، اس کے کئی معروف کھلاڑی سٹے بازوں کے چنگل میں پھنسے، ایسی لیگز پیسہ لائیں تو ساتھ کرپشن کی راہ بھی کھلتی گئی، پی سی بی کو اس جانب بھی توجہ دینا چاہیے، ٹیمیں فروخت کرتے ہوئے اچھی طرح جانچ پڑتال کرنا پڑے گی، اسی طرح جلد بازی کا مظاہرہ سپر لیگ کو سپرفلاپ بنا سکتا ہے، پہلا تاثر آخری ثابت ہوتا ہے بورڈ حکام کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے، ابھی ویسے ہی ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملے میں تنازعات جاری ہیں پہلے انھیں حل کریں، ٹیم کو بہتری کی جانب لے کر جائیں، پیسہ تو آتا رہے گا پہلا مقصد قومی کرکٹ ٹیم کو کامیابی کی راہ پر گامزن کرنا ہونا چاہیے،مگر افسوس کہ اس وقت تو خوب دولت کمانا ہی حکام کی اولین ترجیح دکھائی دیتی ہے۔

Wednesday, August 12, 2015

PCB Karachi found a unique solution to the conflict ..

کراچی: پی سی بی نے کے سی سی اے سے تنازع کا منفرد حل ڈھونڈ لیا،احتجاج نظرانداز کرتے ہوئے قومی ٹوئنٹی20ایونٹ کیلیے کراچی کی دونوں ٹیمیں خود ہی منتخب کر لیں۔
دوسری ٹیم کوکوالیفائی کرانے کیلیے شاہد آفریدی کوکپتان بنا دیا جبکہ سرفراز احمد نائب ہوںگے، ٹیم میں کئی دیگر ٹیسٹ کرکٹرز بھی شامل ہیں، پہلے سے مین راؤنڈ میں موجود وائٹس ٹیم خلاف توقع غیرمعروف کھلاڑیوں پر مشتمل ہے، قیادت ٹیسٹ بیٹسمین فیصل اقبال کریںگے۔ تفصیلات کے مطابق کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن نے نئے ڈومیسٹک سیزن میں تبدیلیوں کو مسترد کرتے ہوئے بورڈ سے مطالبہ کیا تھا کہ اس کی 2 ٹیموں کو ایونٹس کا حصہ بنایا جائے، چیئرمین شہریارخان نے اسے مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اب کوئی تبدیلی نہیں ہو گی، 2ٹیمیں کھلانی ہیں تو کوالیفائی کریں، کے سی سی اے نے بطور احتجاج ٹی ٹوئنٹی کیلیے ڈیڈ لائن گزرنے تک پلیئرز کے نام ارسال نہ کیے، لہذا بورڈ نے ازخود دونوں ٹیموں کا انتخاب کرلیا، البتہ کراچی کی دوسری ٹیم کے باہر ہونے کا خدشہ کم کرتے ہوئے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے والی بلوز میں کئی ٹیسٹ اسٹارز کو شامل کر لیا گیا ہے، قیادت شاہد آفریدی کریں گے، سرفراز احمد ان کے نائب ہیں، دیگر پلیئرز میں خرم منظور، خالد لطیف، اسد شفیق، شاہ زیب حسن، فواد عالم، انور علی، محمد سمیع، رومان رئیس، فراز احمد، محمد وقاص، فواد خان، عبدالامیر، شاہ زیب احمد، محمد حسن، سعد علی اور طاہر خان موجود ہیں۔
دوسری جانب پہلے سے مین راؤنڈ میں موجود بلوز ٹیم میں غیرمعروف کھلاڑیوں کو رکھا گیا ہے، ٹیسٹ بیٹسمین فیصل اقبال کپتان اور رمیز راجہ نائب ہوں گے، دیگر پلیئرز میں فضل سبحان، احسان علی،شہریارغنی،سعود شکیل، بابر آغا، سیف اﷲ بنگش، میر حمزہ، تابش خان، بابر رحمان، اعظم حسین، طاہر ہارون، مرزا احسن جمیل، جنید الیاس، رامیز عزیز، مرزا عدنان بیگ اور ماجد خان موجود ہیں۔ یاد رہے کہ عام طور پر وائٹس ٹیم میں اسٹارز اور بلوز میں نئے پلیئرز شامل ہوتے ہیں، مگر پی سی بی نے کراچی کی دونوں ٹیموں کو مین راؤنڈ کھلانے کیلیے یہ فیصلہ کیا، پریس ریلیز کے مطابق کھلاڑیوں کا انتخاب جونیئر سلیکشن کمیٹی کے سربراہ باسط علی اور کراچی ریجن کے پی سی بی ہیڈکوچ اعظم خان نے کیا۔ کوالیفائنگ ایونٹ یکم سے 5 ستمبر تک پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا، یہی وینیو8 سے 15تاریخ تک مین راؤنڈ کا میزبان بھی ہوگا۔

Tuesday, August 11, 2015

Ahmed Shahzad '' Bad Boy 'was raging on the label ..

لاہور: احمد شہزاد’’بیڈ بوائے‘‘ کے لیبل پر جھنجھلانے لگے،ان کا کہنا ہے کہ زندگی گزارنے کا اپنا انداز لیکن نظم و ضبط کی خلاف ورزی کرتا نہ رویہ خراب ہے، ویرات کوہلی سے موازنہ درست نہیں، وہ بھارت اور میں اپنے ملک پاکستان کی جانب سے کھیلتا ہوں۔
تفصیلات کے مطابق احمد شہزاد اورعمر اکمل پرڈسپلن کی خلاف ورزی کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں، ورلڈکپ کے بعد کوچ وقار یونس اور کپتان مصباح الحق کی رپورٹس میں دونوں کو ڈراپ کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا، بھارتی خبر رساں ایجنسی کو ایک انٹرویو میں احمد شہزاد نے ان الزامات کو مسترد کر دیا،انھوں نے کہاکہ میں اپنی کرکٹ سے لطف اندوز ہوتا ہوں، اچھا لباس اور کھانا پسند ہیں، تھوڑا ’’شومین‘‘ بھی ہوں،اگر اس طرح کا انداز نہ اپنائیں تو ایک اوسط درجے کے کھلاڑی بن کر رہ جائیں گے۔
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں نظم و ضبط کی پاسداری نہیں کرتا، رویہ درست نہیں، ساتھی کھلاڑیوں کی قدر نہیں کرتا یا ایک پروفیشنل کے طور پر ان کے ساتھ نہیں چل سکتا، میرے بارے میں بہت ساری غلط باتیں پھیلا دی گئی ہیں، خاندان کی طرح کسی ٹیم میں موجود لوگوں میں بھی اختلاف رائے ہوسکتا ہے تاہم اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ کسی کھلاڑی میں ڈسپلن کی کمی ہے،ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ جن لوگوں نے رپورٹ جمع کرائی وہی اس کی وجہ بھی بتا سکتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ میں ہمیشہ اچھا پرفارم نہیں کرسکتا تاہم ٹیم مینجمنٹ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ابھی صرف 23سال کا ہوں، میری کارکردگی کسی 28یا 30سال کے تجربہ کار کھلاڑی کے معیار پر نہ پرکھی جائے۔انھوں نے کہا کہ میرا ویرات کوہلی سے موازنہ درست نہیں، وہ بھارت اور میں اپنے ملک پاکستان کی جانب سے کھیلتا ہوں، میں نے ابھی 70ون ڈے میچز میں حصہ لیا  جبکہ ان کے میچز کی تعداد دگنی ہے،کیریئر میں 100ٹیسٹ کھیلنا چاہتا ہوں۔
احمد شہزاد نے کہا کہ کوچ وقار یونس کھلاڑیوں کو پچ، کنڈیشنز یا حریف کسی بھی چیز کی فکر سے آزاد ہوکر جارحانہ انداز میں کھیلنے کی ہدایت کرتے ہیں، ہم سب اسی مزاج کے مطابق ڈھلنے کی کوشش کررہے ہیں، انھوں نے کہا کہ آفریدی ایک جارح مزاج کپتان اورکبھی کامیاب تو کبھی ناکام ہوتے ہیں، مصباح الحق بڑی پلاننگ اور باریک بینی سے سوچ کر قدم اٹھاتے ہیں۔

Monday, August 10, 2015

Super League players also uary separation ..

کراچی: سپر لیگ سے پاکستانی کھلاڑیوں کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔
پی سی بی آئندہ برس فروری میں ٹوئنٹی 20 لیگ کرانے کے لیے سرگرم ہے، یو اے ای کے گراؤنڈز مصروف ہونے کی وجہ سے قطر میں مقابلوں کا انعقاد ہوگا، ایونٹ میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کو بھاری معاوضوں کی ادائیگی ہوگی، ابتدائی طور پر تین کیٹیگریز بنانے کی تجویز سامنے آئی ہے۔
اے میں اپنے ملک میں سپراسٹار درجے کے حامل آئیکون کرکٹرز شامل ہوں گے، پاکستان کی جانب سے مختصر طرز کی ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی سمیت چند کرکٹرز کو یہ اسٹیٹس مل سکتا ہے، اس میں شامل ایک لاکھ ڈالر (ایک کروڑ سے زائد پاکستان روپے) حاصل کریں گے، اگر کسی ٹیم کے 8میچز ہونے ہیں اور کوئی پلیئر ان میں سے بعض نہ کھیل سکا تو اسے شرکت کرنے والے مقابلوں کے لحاظ سے ادائیگی ہو گی۔ ابتدائی تجویز کے مطابق بی کیٹیگری میں شامل کھلاڑیوں کو60 ہزار اور سی کو40 ہزار ڈالر دیے جائیں گے۔ اس تجویز کو ابھی پی ایس ایل حکام کی حتمی منظوری درکارہے۔
اس وقت غیرملکی کرکٹرز سے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، زبانی طور پر تو دلچسپی کا اظہار کیا گیا مگر تاحال ایک بھی کھلاڑی سے معاہدہ نہیں ہو سکا، کرکٹ بورڈ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ فروری میں سوائے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے کوئی اور ٹیم فارغ نہیں، ایسے میں موجودہ کھلاڑیوں سے معاہدہ دشوار ہو گا، حال ہی میں ریٹائر ہونے والے کئی معروف کرکٹرز اس وقت یو اے ای میں ماسٹرز لیگ کھیل رہے ہوں گے، ایسے میں ایونٹ میں اسٹارز کی آمد پاکستان کے لیے سخت چیلنج ہے۔