Showing posts with label Books. Show all posts
Showing posts with label Books. Show all posts

Sunday, August 16, 2015

Changing concept of human intelligence ..

انسانی ترقی کے ساتھ انسانی ذہانت کا تصور بھی وسیع ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں ذہانت کے بارے میں پایا جانے والا روایتی تصور بہت محدود ہے۔ وہ شخص جو حساب کتاب میں ماہر ہو‘ زبان و بیان پر عبور رکھتا ہو یا منطقی تصورات آسانی سے سمجھ سکتا ہو ذہین سمجھا جاتا ہے۔ لیکن ذہانت کے اس کے علاوہ بھی پہلو ہیں‘ جو اکثر نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں۔
ممتاز ماہر نفسیات ہورڈگارڈنر نے ذہانت کا دلچسپ اور وسیع تصور پیش کیا۔ اس نے ایسے بچوں اور بڑوں کو بھی ذہین قرار دیا جن کی ذہانت ہماری ذہانت کی مروجہ تعریف سے مختلف ہوتی ہے۔ گارڈنر کے خیال میں ذہانت کی 8 مختلف اقسام ہوتی ہیں۔ تمام افراد میں یہ ذہانت مختلف مقدار میں پائی جاتی ہیں۔
ذہانت کی پہلی قسم
ذہانت کی اقسام میں پہلی قسم لسانی ذہانت یعنی زبان کے درست استعمال کی صلاحیت سے متعلق ہے۔ یہ ذہانت رکھنے والے سننے‘ لکھنے اور بولنے کی اچھی مہارتیں رکھتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کو کہانیاں اور لطائف سناتے نظر آتے ہیں۔ سیاستدانوں‘ لکھاری‘ شاعر‘ ادیب‘ صحافی‘ ایڈیٹرز‘ وکلا‘ ترجمہ کرنے والے اسی ذہانت سے کام لیتے ہیں۔

ذہانت کی دوسری قسم
منطقی اور حسابی ذہانت اعداد و شمار اور منطقی تصورات کو بہتر انداز میں سمجھنے کی صلاحیت سے تعلق رکھتی ہے۔ جب ہم کسی شخص کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اس کا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے یا وہ اپنے ذہن میں لمبا چوڑا حساب فوراً کر لیتا ہے تو یہ دراصل اس کی حسابی ذہانت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ حساب دان‘ سائنسدان‘ انجینئر‘ ڈاکٹر‘ اکاؤنٹنٹ‘ شطرنج کے کھلاڑی ایسی ہی ذہانت رکھتے ہیں۔ آئن سٹائن اور بل گیٹس اس ذہانت کی نمایاں مثالیںہیں۔

ذہانت کی تیسری قسم
نغمگی یا موسیقی میں دلچسپی رکھنے والے بھی ذہین لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کو موسیقی سنتے‘ کمپوز کرتے اور گاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہ سروں کی خوش آہنگ ترتیب آسانی سے یاد کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ کام کرتے ہوئے بھی موسیقی سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔ اچھے شاعر‘ موسیقار اسی ذہانت کا غیر معمولی مظاہرہ کرتے ہیں۔

ذہانت کی چوتھی قسم
بعض افراد میں جسمانی حرکات و سکنات سے تعلق رکھنے والی ذہانت پائی جاتی ہے۔ یہ اپنے جسم کی حرکات کو مہارت کے ساتھ کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپنے کام کے دوران آنکھ اور ہاتھ کے درمیان بہترین ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اچھے کھلاڑی ‘ دستکار‘ اداکار اسی ذہانت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ان افراد میں سپورٹس مین، اپنے فن میں مہارت رکھنے والے بڑھئی‘ ظروف ساز‘ درزی بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔

ذہانت کی پانچویں قسم
بعض افراد چشم تصور سے چیزوں کو ترتیب دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تصویروں میں سوچتے ہیں(Think in Pictures) انسانی دماغ کی پہلی زبان بھی تصاویر میں سوچنا ہے۔ یہ اپنے گردو پیش سے آگاہی اور سمت کا تعین کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ پینٹنگ اور ڈرائنگ میںاپنے خیالات کا اظہار کرنے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ یہ لوگ آرکیٹیکٹ ‘ جہاز رانی کے ماہر‘ ڈیکوریٹر‘ معمار‘ ڈیزائز‘ مجسمہ ساز‘ شطرنج کے کھلاڑیوں کے روپ میں اپنی صلاحیتوں کا جادو جگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ذہانت کی چھٹی قسم
ذہانت کی ایک قسم مظاہر قدرت سے تعلق رکھتی ہے۔ ایسی ذہانت والے افراد قدرتی مناظر پسند کرتے ہیں۔ نباتات کے آپس میں اختلافات کو سمجھنے اور پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح جانوروں میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ موسم میں تغیر کو نوٹ کر لیتے ہیں۔ باغبان‘ کاشت کار‘ شکاری اور اچھے باورچی اسی ذہانت سے اپنے کام کو بہتر سے بہتر بناتے ہیں۔

ذہانت کی ساتویں قسم
انٹراپرسنل (خودکلامی) ذہانت سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو‘ اپنے جذبات ‘ موڈ اور خواہشات کو کیسے سمجھتے ہیں۔ فلسفہ‘ نفسیات اور تحقیق کے میدان میں کام کرنے والے افراد انٹراپرسنل ذہانت رکھتے ہیں۔ اسی ذہانت کے حوالے سے 2 بڑے نام افلاطون اور ارسطو کے، لئے جا سکتے ہیں۔

ذہانت کی آٹھویں قسم
انٹرپرسنل(دو افراد کے درمیان ابلاغ) ذہانت سے مراد یہ ہے کہ ہم دوسرے لوگوں سے کیسا تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو کیسے سمجھتے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کیسے کرتے اور اپنی بات کیسے اس انداز میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو انہیں بآسانی سمجھ آ سکے۔ یہ افراد دوسروں کے ساتھ ملنے جلنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی تعلق سے سیکھتے ہیں۔ اجتماعی سرگرمیوں میں خوش رہتے ہیں اور دوسروں کے نقطہ نظر کو سننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ذہانت رکھنے والے افراد سماجی تقریبات میں شرکت کرنا پسند کرتے ہیں۔

اس تصور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنی زندگیوں کو مختلف انداز سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہم بچپن میں کن Potentials پر زیادہ توجہ نہیں دے پائے۔ ہم مختلف کورسز‘ مشاغل اور Self improvementکے دوسرے پروگراموں میں شرکت کے ذریعے ان Potentialsکو ترقی دے سکتے ہیں۔
یہ تصور ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد موجود ایسے باصلاحیت لوگوں سے سیکھیں جن کی ذہانت آئی کیو کے ٹیسٹ سے جانچے جانے والی ذہانت سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ لوگ مختلف شعبوں میں پائے جاتے ہیں۔ مختلف اداکاروں کو حرکات و سکنات کے ذریعے ابلاغ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ماہر تعمیرات کی زبان عام استعمال کی زبان سے کتنی مختلف ہے۔ اس مشاہدے سے ہمارے کام اور سیکھنے کے عمل میں بہتری آئے گی۔ اگر ہم اپنی صلاحیتوں کو اچھی طرح پہچان لیں تو ہمارے سیکھنے کا عمل بہتر ہوجائے گا اور ہم تعمیری انداز میں معاشرے کے لئے کام کر سکتے ہیں۔

Saturday, August 8, 2015

Book shelves ..


ڈاکٹر محمد رشید فاصلاتی تعلیم کے شعبے میں پاکستان کی ایک جانی مانی شخصیت ہیں۔ انہوں نے 33 برس تک علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے فاصلاتی اور غیر رسمی تعلیم کے شعبہ کی سربراہی کی۔
آج کل پرسٹن یونیورسٹی اسلام آباد کے ساتھ ڈین فیکلٹی آف ایجوکیشن کے طور پر منسلک ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر 200 سے زائد تحقیقی مقالوں اور کتب کے مصنف ہیں۔ سٹاف ڈویلپمنٹ، غیر رسمی تعلیم، تعلیم کے شعبے میں تحقیق، فاصلاتی تعلیم اور تعلیم سے متعلق ٹیکنالوجیز کا مؤثر استعمال جیسے موضوعات ان کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔
زیر نظر کتاب ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے لکھنے والوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ اس کتاب کو تحریر کرنے کے پیچھے مصنف کا یہی مقصد کارفرما تھا کہ تحقیقی مقالہ لکھنے والے طالب علم ان تکنیکی باریکیوں سے نآشنا ہوتے ہیں جو ایک کامیاب مقالہ لکھنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں رہنمائی کی بہت ضرورت ہوتی۔
مقالے کے موضوع کے انتخاب‘ مقالے کے سپروائزر (نگران) کی طالب علم سے توقعات طالب علم اور سپروائزر کے باہمی تعلق، تحقیق کے طریقہ کار، مقالے کی تکمیل‘ اسے پیش کرنے کے اسلوب اور ViVA سے متعلق تمام تکنیکی تفصیلات انتہائی وضاحت کے ساتھ اس کتاب میں یکجا کردیا گیا ہے۔ کتاب کے اندروہ تمام امورمثالوں کے ساتھ واضح کیے گئے ہیں جن کی کسی تحقیقی مقالے میں پیش آنے کا امکان ہوسکتا ہے۔
اس کتاب کا جائزہ لینے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ تحقیقی مقالہ لکھنے والے طالب علموں کے لیے یہ کتاب مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے اور اس بات کی روشنی میں کام کرنے کی صورت میں غیر ضروری توانائیاں صرف کیے بغیر بہترین نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ بڑے سائز کی پیپر بیک کتاب کی قیمت محض 220 روپے ہے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے اور اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ہر طالب علم سہولت کے ساتھ اسے خرید سکے۔
پنجابی لوک داستانیں
دنیا کی ہر زبان، اس زبان کے بولنے والے اور ان کی تہذیب اپنی لوک داستانوں اور کہانیوں کے ساتھ زندہ رہتی ہے۔ انسان اپنے تہذیبی ارتقاء کے ابتدائی دور ہی میں یہ حقیقت جان گیا تھا کہ کسی بات کو بالواسطہ انداز میں آگے بڑھاکر کیا فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔تو داستانیں کسی معاشرے کی اجتماعی کاوش کے نتیجہ میں غیر ارادی طور پر ابھرتی ہیں اور بجا طور پر اس معاشرے کی اجتماعی فکر، زاویۂ نظر، رسم و رواج اور اقدار کی عکاسی کرتی ہیں۔
اسی لیے کسی مخصوص سماجی اکائی سے تعارف حاصل کرنے کے لیے لوک داستانوں، لوک شاعری اور موسیقی کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’پنجاب لوک داستانیں‘‘ معروف صحافی اور ادیب شفیع عقیل مرحوم نے اردو کے قالب میں ڈھال کر مرتب کیا تھا اور یہ اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن ہے۔ 1963ء میں ’’پنجابی لوک کہانیاں‘‘ کے نام سے ان کی کتاب کا یونیسکو نے دنیا کی سات زبانوں میں ترجمہ شائع کیا تھا۔ اس موضوع پر یہ ان کی دوسری کتاب ہے جسے نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے۔
269 صفحات پر مشتمل کتاب میں کل 20 کہانیاں شامل ہیں۔ یہ سب وہ کہانیاں ہیں جو ہماری گزری نسلوں نے صدیوں تک سینہ بہ سینہ ایک دوسرے کو منتقل کی ہیں۔ موجودہ دور کی ہوشر با تبدیلیوں کی زد میں آکر بچوں کو کہانیاں سنانے کی روایت دم توڑ رہی ہے۔ شاید ہمارا تعلق اس آخری نسل سے ہے جس نے اپنے بچپن میں اپنی ماؤں، دادیوں اور نانیوں سے یہ کہانیاں سنی ہوں گی۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے اس مشترکہ ورثے کو اردو زبان میں محفوظ کرکے بڑا کام کیا ہے۔
فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ادارہ پاکستان کے دیگر علاقوں کی سوک داستانوں کو بھی اردو زبان میں پیش کرنے کے منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کی یہ ایک بڑی خدمت ہوگی۔ معیاری کاغذ پر چھپی اس پیپر بیک کتاب کی قیمت صرف 180 روپے ہے۔
بلھے شاہ (منتخب کلام مع اردو ترجمہ)
بلھے شاہ قصوری صوفی شاعر تھے جنہوں نے اپنے ٹھیٹھ پنجابی کلام کے ذریعے عوام تک اپنے خیالات پہنچائے اور لوگوں کو حق و صداقت سے آگاہی کا پیغام دیا۔ بابا بلھے شاہ کے اشعار نہ صرف عوام میں قبولیت کی سند سے ہمکنار ہوئے بلکہ ان کے بہت سے مصرعے ضرب المثل بن گئے۔
زیر تبصرہ کتاب میں بلھے شاہ کی 65 منتخب کافیوں اور 20 دوہڑوں کا نثری اردو ترجمہ ڈاکٹر امجد علی بھٹی نے پیش کیا ہے تاکہ اردو زبان بولنے والے بھی اس کی چاشنی سے لطف اٹھاسکیں۔ سید بلھے شاہ کے اشعار میں معاشرہ میں رائج روایات کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ مترجم نے بلھے شاہ کے کلام کا ترجمہ انتہائی خوبصورت اور آسان اردو میں کیا ہے۔
سید بلھے شاہ ایک عالم، فاضل شخصیت تھے آپ کو فقہ، حدیث، تفسیر، منطق اور دیگر اسلامی علوم پر عبور حاصل تھا۔ آپ نے روحانی تربیت شاہ عنایتؒ لاہوری سے حاصل کی تھی اور شاہ عنایتؒ لاہوری ہی آپ کے پیرو مرشد تھے۔ بلھے شاہ نے اپنے کلام میں مخلوق کو انسان دوستی، خدمت خلق، اتحاد، یگانگت اور محبت و پیار کا درس دیا ہے۔ آپ کا کلام آج بھی مردہ دلوں کو زندگی اور مایوسی میں جدوجہد کا درست دیتا ہے۔
ڈاکٹر امجد بھٹی نے اردو ترجمہ کرکے پیغام محبت کو عام کرنے کی قابل تحسین کوشش کی ہے۔کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے شائع کی، اس کی قیمت 120 روپے ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ
مصنف: حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی زندگی پر بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، مگر انھیں پڑھنے کے بعد بھی قاری تشنگی محسوس کرتا ہے کیونکہ ان کتابوں میں اس عظیم رہنما کی زندگی کا مکمل احاطہ نہیں کیا گیا ہے، کسی میں ذاتی زندگی اور کردار کو فوقیت حاصل ہے تو کسی میں صرف سیاسی کردار کو بیان کیا گیا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ قائد اعظم کی شخصیت کا ہر پہلو ایک علیحدہ تمکنت لئے ہوئے ہے، کوئی بھی لکھاری جب اس پر قلم اٹھاتا ہے تو وہ اسی میں گم ہو کر رہ جاتا ہے جو قائد اعظم کی شخصیت کی ہمہ گیری کی نشاندہی کرتا ہے۔ قائد اعظم کے سیاسی کردار پر تو بالخصوص بہت زیادہ لکھا گیا ہے حتیٰ کہ ان کی تقاریر بھی شائع کی گئی ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب کی یہ خوبی ہے کہ مصنف نے اس میں قائد اعظم کے خاندانی، سیاسی، علمی غرض ہر پہلو کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔
جس کے لئے انھوں نے متعدد کتابوں سے بھی استفادہ کیا ہے، اس کتاب کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے کہ مطالعے سے نہ صرف قاری قائد اعظم کی زندگی میں آنے والے نشیب و فراز سے آگاہ ہو تا چلا جاتا ہے بلکہ تحریک پاکستان سے بھی اسے پوری آگہی ملتی ہے ۔ مصنف نے تقسیم بنگال سے لے کر پاکستان بننے تک جو واقعات پیش آئے انھیں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ گویا قاری بیک وقت بانی پاکستان کی ذاتی زندگی اور پاکستان کی تاریخ سے آگاہ ہوتا ہے۔ کتاب کی تربیت حکیم راحت نسیم سوہدروی نے کی ہے، مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ نشریات ، اردو بازار، لاہور نے شائع کیا ہے۔
علامہ اقبال کا تصور ریاست اور دوسرے مضامین
مصنف: ڈاکٹر وحید قریشی‘مرتب:ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی 
قیمت: 300 روپے‘ناشر:بزم اقبال2کلب روڈ لاہور۔
ڈاکٹر وحید قریشی، نامور محقق ،نقاد اور شاعر، برسوں پنجاب یونیورسٹی میں فارسی اور اردو کے استاد رہے، متعددکئی علمی اداروں کی سربراہی کی۔ مقتدر ہ قومی زبان اسلام آباد کے صدر نشین بھی رہے۔
زیرتبصرہ کتاب علامہ اقبال پر ان کی 21 تحریروں کا مجموعہ ہے۔ جسے ان کے شاگرد ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی نے، جو خود بھی معروف اقبال شناس ہیں بہت سے اضافوں کے ساتھ مرتب ومدون کیاہے۔ مرتب نے بعض مضامین پر وضاحت کے لیے مختصر حواشی کا اضافہ بھی کیا ہے ۔
کتاب میں شامل چند اہم مضامین کے عنوانات حسب ذیل ہیں: علامہ اقبال کا تصور ریاست۔ توحید کے اطلاقی پہلو،فکر اقبال کی روشنی میں۔ فلسفٔہ خودی کے بعض عمرانی پہلو۔ افکاراقبال (اقبال اور پاکستان کا خواب۔اقبال اور تخیل پاکستان۔ اقبال اور ملی تشخص۔ علامہ اقبال کا نظریہ ء حیات۔علامہ اقبال اور ہمارے علاقائی اختلافات ۔ اقبال اور مردمومن)۔خطوط اقبال کا ذخیرہ محمد عمرالدین(تجزیہ و معنویت) ۔ علامہ اقبال کے تین نادر خطوط۔اس کے علاوہ بھی بہت کچھ شامل ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی ایک راست فکر نقاد تھے۔ مثلاًاقبال اور عشق رسولؐ کے باب میں لکھتے ہیں:’’ عشق رسولؐ سے مراد رسولؐ پاک ﷺ کی ذات سے صرف محبت نہیں بلکہ ذات کو اعمال کے حوالے سے دیکھتے ہوئے اسوہ حسنہ کی پیروی کو اس عشق کا لازمی حصہ قرار دیا ہے۔ عشقِ رسول ؐاگر اسوئہ حسنہ کی پیروی کا نام ہے تو اسوئہ حسنہ کی پیروی دراصل قرآن پاک کی تعلیمات کی پیروی ہے۔‘‘ (ص27)
اسی طرح ’’اقبال اور پاکستان کا خواب‘‘ کے باب میں رقم طراز ہیں: ’’حصول پاکستان کی مہم محض اقتصادی فوائد کی مہم نہیں تھی۔ علامہ نے تو یہاں تک کہا کہ اگر مسلمانوں کے لیے آزاد ریاست صرف اقتصادی امور کے لیے ہے تو انھیں ایسا ملک نہیں چاہیے۔ وہ تو مسلمانوں کے دین کے لیے اور بطور ایک قوم منظم کرنے کے لیے الگ ریاست چاہتے تھے ۔‘‘ (40) اقبالیات پر یہ ایک وقیع او ر اہم کتاب ذخیرہ اقبالیات میں قابل قدر اضافہ ہے۔ (فیاض احمد ساجد)
بوڑھا اور سمندر(ناول)
مصنف: ارنسٹ ہیمنگوے‘ترجمہ: شاہدحمید
ناشر:القا پبلی کیشنز،12-K، مین بلیوارڈ گلبرگ 2لاہور
ارنسٹ ہیمنگوے1899ء میں امریکہ میں پیداہوئے، بحیثیت صحافی اپنے کیرئیر کا آغاز کیا،جنگ عظیم اول، دوم اور ہسپانوی خانہ جنگی میں شریک رہے، طبعاً سیلانی تھے، افریقہ ، فرانس اور کیوبا میں رہے،1961ء میں خودکشی کرلی۔
ان کا ناول ’The Old man and the sea‘ مغرب اور لاطینی امریکہ کے ہرباسی نے پڑھ رکھاہوگا لیکن پاکستان میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اب ارنسٹ ہیمنگوے سے واقف ہو گی کیونکہ یہ انگریزی ناول گزشتہ کئی برسوں سے ان کے کالج نصاب کا حصہ ہے۔ یہ ناول پہلی بار ستمبر1952ء میں Lifeمیگزین میں چھپا جو صرف دو دن میں پچاس لاکھ بک گیا۔
اس کی کتابی اشاعت بھی اسی سال ہوئی۔1953ء میں اسے فکشن کا Pulitzerانعام دیاگیا۔20ویں صدی کے اس شاہکار ناول کی بدولت ہیمنگوے کو1954میں ادب کا نوبل انعام دیاگیا۔
یہ ناول ایک بوڑھے مچھیرے کی کہانی ہے جو کافی دن مچھلی پکڑنے میں ناکام رہتاہے۔ کبھی کاسانتیاگو چمپئن اب لوگوں کی نظر میں بس ’’ سلاؤ‘‘ بن کے رہ گیا جو بدقسمتی کی بدترین مثال ہے۔
حتیٰ کہ اس کے واحد شاگرد کے ماں باپ بھی اپنے لڑکے کو اسے ملنے سے منع کرتے ہیں۔ اور پھر وہ دن بھی آتاہے جب سانتیاگو سمندر اور اس کی تمام تر ہولناکیوں سے بھڑ جاتاہے۔ یقیناً آپ اس خوبصورت ناول کوپڑھتے ہوئے اس کی ہرسطر کا خوب مزہ لیں گے۔
پاکستانی سیاست کے مدوجزر
مصنف: مقتدامنصور
ناشر: بُک ٹائم، اردوبازار، کراچی
صفحات:224،قیمت:500روپے
مقتدامنصور روزنامہ ایکسپریس میں برسوں سے اپنے مضامین کے ذریعے ملکی مسائل اور معاملات اظہار خیال کر رہے ہیں۔ اپنے ان مضامین کو وہ جمیل الدین عالی صاحب کی طرح اظہاریے کا نام دیتے ہیں۔
اردو اخبارات میں شایع ہونے والے اکثر نام ور کالم نویسوں کی تحریریں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے بس کالم کا اور اپنا پیٹ بھرنے کے لیے لفظوں کی بازی گری کی ہے۔ کوئی حال سے یکسر غیرمتعلق ہوکر تاریخ کے دریچوں میں جابیٹھتا ہے تو کوئی خالصتاً ذاتی واقعات بیان کرکے کالم کو پرسنل ڈائری کا ورق بنادیتا ہے۔
کسی دلیل اور تجزیے کے بغیر نجومیوں کی طرح پیش گوئی کرنے اور اس پر مصر رہنے کا چلن بھی جاری ہے۔ ایک بار نام کا سکہ چل گیا تو اب محنت کی کیا ضرورت، جو بھی لکھ دو چھپ جائے گا۔ ایسے میں مقتدا منصور داد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے خود کو اس روش سے بچائے رکھا ہے۔ وہ واقعات اور ایشوز کا گہرائی سے جائزہ لیتے اور تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے اختلاف کیا جائے یا اتفاق، لیکن یہ قاری کو سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ان کے مضامین کے ذریعے ہماری تاریخ کے بہت سے گوشے سامنے آتے ہیں لیکن وہ حالات حاضرہ کا پس منظر ہوتے ہیں، کہ مقتدا منصور حال کو فراموش کرکے ماضی میں جھانکتے رہنے کے قائل نہیں۔ وہ سیکولر اور لبرل سوچ کے حامل اور اپنے نظریات پر سختی سے قائم ہیں، چناں چہ وہ نظریاتی کمٹمنٹ کے ساتھ اور اپنے نظریات کی روشنی میں حالات اور واقعات کا جائزہ لیتے اور تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کی تازہ تصنیف ’’پاکستانی سیاست کے مدوجزر‘‘ مصنف تجزیاتی مضامین پر مشتمل کتاب ہے، جس میں شامل تحریروں کی بڑی تعداد سندھ کی تاریخ، سیاست اور مسائل کے احاطہ کیے ہوئے ہے۔
مقتدامنصور سندھی زبان پر گرفت رکھتے ہیں اور اردو اور انگریزی کے ساتھ سندھی میں بھی مضامین لکھتے رہے ہیں۔ سندھی سے شناسائی نے انھیں سندھ کی تاریخ اور ایشوز سے گہری آگاہی عطا کی ہے، جس سے اردو اور دیگر زبانیں بولنے والے بیشتر صحافی اور کالم نویس محروم ہیں، لہٰذا سندھ سے متعلق ان کے مضامین ارضِ مہران کے معاملات کو سمجھنے میں ہماری راہ نمائی کرتے ہیں۔
کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتاب سندھ کے ایشوز سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے کس قدر معلوماتی ثابت ہوسکتی ہے، مثلاً ’’انگریز دور میں سندھ کی سیاست‘‘، ’’انگریز دور میں کراچی کی سیاسی اور سماجی حیثیت‘‘،’’قیام پاکستان کے بعد سندھ کا سیاسی وسماجی منظرنامہ‘‘، ’’مہاجر سیاست اور ایم کیوایم کا ظہور‘‘، ’’ایم کیوایم آویزش کے سندھ کی سیاست پر اثرات‘‘، ’’سلگتا ہوا سندھ۔‘‘ اس کے ساتھ یہ کتاب پاکستان کے سیاسی وسماجی مسائل، ہمارے وطن کے مسائل کی نظریاتی جہت، صحافت کے ایشوز اور عالمی معاملات کی بابت سوچ کے در وا کرتے مضامین سامنے لاتی ہے۔

Thursday, November 29, 2012