Showing posts with label Hikmat Ki Batain. Show all posts
Showing posts with label Hikmat Ki Batain. Show all posts

Thursday, May 2, 2013

Ashfaq Ahmad In Safar Dar Safar : Khoi Hui Muhabbat


پہاڑوں میں ، کھوئی ہوئی محبتیں اور بھولی ہوئی یادیں پھر لوٹ آتی ہیں۔جس طرح بارش کے دنوں میں باہر بوندیں پڑتی ہیں، تو انسان کے اندر بھی بارش ہونے لگتی ہے ۔اوپر سے تو ٹھیک رہتا ہے،لیکن اندر سے بالکل بھیگ جاتا ہے۔اس قدر شرابور کہ آرام سے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں باقی نہیں رہتی ۔یہی کیفیت پہاڑوں میں جا کر ہوتی ہے۔کیسا بھی اچھا ساتھ کیوں نہ ہو انسان تنہا ہو کر رہ جاتا ہے۔اور اداسی کی دھند اسے چاروں طرف سے لپیٹ لیتی ہے۔اندر آہستہ آہستہ اندھیرا چھانے لگتا ہے اور باہر کیسی بھی دھوپ کیوں نہ کھلی ہو، کیسی بھی ٹھنڈی ہوا کیوں نہ چل رہی ہو اندر ٹپاٹپ بوندیں گرنے لگتی ہیں،اور شدید بارش ہو جاتی ہے۔اور اندر سے بھٹکا ہوا انسان باہر کے آدمیوں کے کام کا نہیں رہتا۔ان کا ساتھی نہیں رہتا ۔

Ashfaq Ahmad In Shehr-e-Aarzoo : Dolat K Anbaar


دولت کا انبار کھاد اور کوڑے کے ڈھیر کی مانند ہے ۔ جس شخص کے پاس یہ ڈھیر جمع رہتا ہے ، اس کے وجود سے اس کے گرد و نواح اور اس کی سانسوں سے بدبوکے بھبھاکے آتے رہتے ہیں ۔لیکن جونہی کھاد کا یہ ڈھیر دور دور بکھیر دیا جاتا ہے اور آسمانوں سے اس پر شبنم کا نزول ہوتا ہے تو اس میں سے خوبصورت رنگوں والے خوشبو دار پھول پیدا ہوتے ہیں جن کی خوشبو سے ساری کائنات مہکنے لگتی ہے ۔

Ashfaq Ahmad Zavia 3 : Jawani Aur Burhapa


میں اس کے ذرا قریب ہو گیا اور کہا کہ " جوانی اچھی ہوتی ہے یا بڑھاپا "۔ اس نے کہا" جوانوں کے لیے بڑھاپا اور بوڑھوں کے لیے جوانی " ۔ میں نے کہا وہ کیسے ؟ بولا بوڑھے اگر جوان ہو جائیں تو تو وہ اپنی پہلے والی غلطیاں شاید نہ دہرائیں اور اگر جوان بوڑھوں کو تجربے کے طور پر لیں تو تو ان کی جوانی بے داغ اور بے عیب گذرے ۔ اس بوسیدہ کپڑوں والے بوڑھے نے اتنی وزنی بات کی تھی کہ بڑے مفکر اور دانشور ایسی بات نہیں کر سکتے ۔

Ashfaq Ahmad Zavia 3 : Rehmat Hana


ہمارے بابا جی کا حکم تھا کہ اپنے گھر کے لیے "غریب خانے " کا لفظ کبھی نہ استعمال کیا کرو ۔ یہ بڑی ہیٹی کی بات ہے کہ آپ اپنے گھر کو غریب خانہ کہیں ۔ جس گھر میں اللہ کی رحمتیں ہیں ، برکتیں ہیں ، اولاد ہے ،رزق ہے، روشنی ہے،چھت ہے تو وہ رحمت خانہ ہے نا کہ غریب خانہ ۔

Ashfaq Ahmad Zavia 3 : Khushi Ka Saffar


خوشی ایسے میسر نہیں آتی کہ کسی فقیر کو دو چار آنے دے دیے ۔ خوشی تب ملتی ہے جب آپ اپنی خوشیوں کے وقت سے وقت نکال کر انہیں دیتے ہیں جو دکھی ہوتے ہیں ۔ اور آپ کو ان دکھی لوگوں سے کوئی دنیاوی مطلب بھی نہیں ہوتا ۔ آپ اپنی خوشیوں کا گلا گھونٹ کر جب پریشان حالوں کی مدد کرتے ہیں تو خوشی خودبخود آپ کی طرف سفر شروع کر دیتی ہے ۔ کوئی چیز آپ کو اتنی خوشی نہیں دے سکتی جو خوشی آپ کوکسی روتے ہوئے کی مسکراہٹ دے سکتی ہے ۔

Ashfaq Ahmad Zavia 3 : Aarzoo


بابا جی یہ آپ کے بیٹے صاحب شکوہ کناں ہیں کہ آپ انہیں وہ مراعات نہیں دیتے جو دی جانی چاہئیں ۔ اس پر بابا جی کہنے لگے میری آرزو ہے کہ اسے انسان کی مدد اور سہارے کی عادت نہ رہے اور یہ بلا واسطہ طور پر خدا سے مدد طلب کرے اگر یہ انسان سے کوئی آرزو وابستہ کرے گا تو یہ خدا سے اتنا ہی دور ہوتا چلا جائے گا ۔

Wednesday, May 1, 2013

Ashfaq Ahmad Zavia 2 : Well Wishing


آپ کے ذہن میں کوئی ایسی دلیل آ جائے جو بہت طاقتور ہو اور اس سے اندیشہ ہو کہ اگر میں یہ دلیل دوں گا تو یہ بندہ شرمندہ ہو جائے گا کیونکہ اس آدمی کے پاس اس دلیل کی کوئی کاٹ نہیں ہو گی ۔ شطرنج کی ایسی چال میرے پاس آگئی ہے کہ یہ اس کا جواب نہیں دے سکے گا اس موقعے پر بابے کہتے ہیں کہ اپنی دلیل روک لو بندہ بچا لو ، اسے ذبح نہ ہونے دوکیونکہ وہ زیادہ قیمتی ہے ۔

Tuesday, April 30, 2013

Ashfaq Ahmad in Sheher-e-Aarzoo


اب انسان نے اپنے آپ کو کیا بنا لیا ہے امیر علی ؟ میں یعقوب نہیں ہوں میرا بیٹا وجاہت علی نہیں ہے ، انسان نہیں ہے ۔ ہم سب نمبرز ہیں ۔ کوٹھی نمبر، کار نمبر ، لائسنس نمبرز ، فون نمبرز، انشورنس پالیسی نمبرز بینک اکاؤنٹ نمبر ۔ میں انسان کی حیثیت سے نہیں جانا جاتا اپنے نمبروں کی وجہ سے پہچانا جاتا ہوں ۔ یہ نمبرز میرے شناختی کارڈ ہیں ۔ کوئی یعقوب کو نہیں جانتا ان نمبرز کو سب جانتے ہیں ۔

Sunday, April 28, 2013

Ashfaq Ahmad in Manchalay Ka Soda


سورج جب چمکنے لگتا ہے تو بڑی روشنی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دن چڑھ آتا ہے ، دھوپ پھیلتی ہے ، حدت ہوتی ہے، تپش ہوتی ہے، لیکن یہ پھیلی ہوئی گرمی جلاتی نہیں آگ نہیں لگاتی ۔ اور جب یہ روشنی یہ دھوپ ایک نقطے پہ مرکوز ہوتی ہے تو آگ لگتی ہے ، کاغذ جل اٹھتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اصل میں سارا راز ایک نقطے پر مرکوز ہونے میں ہے ۔ خواہش ہو ، ارادہ ہو، دعا ہو یہ ساری کی ساری ہماری وِل کی صورتیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ نیم رضا ۔ ۔ ۔ ۔ نیم گرم ۔ ۔ ۔ ۔نیم جاں ۔ ۔ ۔ ۔ ارادے کی صورت ۔ لیکن جب تک ہمارے ارادے کی تپش کسی مرکز پر فوکس نہیں ہوتی وہ جلا نہیں سکے گی ، بھڑک نہیں سکے گی ، بھڑکا نہیں سکے گی ۔

Bano Qudsia in Raja Gidh : Dil Aur Jism


محبت پانے والا بھی اس بات پر مطمئن نہیں ہوتا کہ اسے ایک دن کے لیے مکمل محبت حاصل ہوئی تھی ۔ محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے ۔ روز سورج نہ چڑھے تو دن نہیں ہوتا ۔ جس روز محبت کا سورج طلوع نہ ہو رات رہتی ہے ۔ یہ دل اور جسم بڑے بیری ہیں ایک دوسرے کے ۔ جسم روندا جائے تو یہ دل کو بسنے نہیں دیتا اور دل مٹھی بند رہے تو تو یہ جسم کی نگری کو تباہ کر دیتا ہے ۔

Daily Quran and Hadith, Jamad Al Thani 19, 1434 April 29, 2013

IN THE NAME OF "ALLAH" 
Assalamu'alaikum Wa Rahmatullah e Wa Barakatuhu,

 

 

Thursday, April 25, 2013

Ashfaq Ahmad : Dil Ki Hushi


کسی غریب یا ضرورت مند کو آسانی فراہم کریں اور بجائے کسی پر ظاہر کرنے کے دل ہی دل میں خوش ہوں کہ اے اللہ تیرا شکر ہے کہ اس قابل ہوا کہ تیرے بندے کے کام آسکا ۔ اور آپ مجھے اور نوازنا اور عزت دینا کہ میں مزید اس کارِ خیر کو جاری رکھ سکوں اور مدد کر کے خوشی محسوس کرنا وقار ہے ۔

Wednesday, April 24, 2013

Ibn-e-Insha aur Qateel Shifai

ابن انشاء اور قتیل شفائی
*********************
ابن انشاء کا کلام"انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو" جس کے لکھنے کے ایک ماہ بعد وہ وفات پاگئے تھے۔
اس کے بعد قتیل شفائی نے غزل لکھی "یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی"، دونوں غزلیں اپنے اعتبار سے اردو ادب ميں ایک اچھا اضافہ ہيں۔
ہاں، یہ اور بات ہے کہ قتیل صاحب کی غزل زیادہ افسردہ کر جاتی ہے۔
___________________________________________

ابن انشاء

انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر ميں جی کو لگانا کيا
وحشی کو سکوں سےکيا مطلب، جوگی کا نگر ميں ٹھکانا کيا

اس دل کے دريدہ دامن کو، ديکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی ميں سو چھيد ہوئے، اس جھولی کا پھيلانا کيا

شب بيتی ، چاند بھی ڈوب چلا ، زنجير پڑی دروازے میں
کيوں دير گئے گھر آئے ہو، سجنی سے کرو گے بہانا کيا

پھر ہجر کی لمبی رات مياں، سنجوگ کی تو يہی ايک گھڑی
جو دل ميں ہے لب پر آنے دو، شرمانا کيا گھبرانا کيا

اس روز جو اُن کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

اس حُسن کے سچے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ ديں، کيوں بن ميں نہ جا بسرام کرے
ديوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے ديوانہ کيا
***********************************
قتیل شفائی

یہ کس نے کہا تم کوچ کرو، باتیں نہ بناؤ انشا جی
یہ شہر تمہارا اپنا ہے، اسے چھوڑ نہ جاؤ انشا جی

جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں، سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا اِن سے بھی منہہ پھیروگے، یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشا جی

کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی، یہ کیسر کیاری چاہت کی
تم جن کو ہنسانے آئے تھے، اُن کو نہ رلاؤ انشا جی

تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی، اِک بات ہماری بھی مانو
کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں، اُس دیس نہ جاؤ انشا جی

بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ پر
پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشا جی

اِک رات تو کیا وہ حشر تلک، رکھے گی کھُلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے، سجنی کو بتاؤ انشا جی

نہیں صرف "قتیل" کی بات یہاں، کہیں "ساحر" ہے کہیں "عالی" ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے، دامن نہ چھڑاؤ انشا جی 

Daily Quran and Hadith, Jamad Al Thani 14, 1434 April 24, 2013

IN THE NAME OF "ALLAH" 

Assalamu'alaikum Wa Rahmatullah e Wa Barakatuhu,





Wednesday, April 17, 2013

Ashfaq Ahmad Baba Sahba : Mot Aur Mazhab


اگر آدمی کو موت نہ آتی ، اگر وہ ہمیشہ زندہ رہتا یعنی اس دنیا میں موت نہ ہوتی تو پھر شاید مذہب کا بھی کوئی وجود نہ ہوتا ۔

Daily Quran and Hadith, Jamad Al Thani 8, 1434 April 18, 2013

IN THE NAME OF "ALLAH" 

Assalamu'alaikum Wa Rahmatullah e Wa Barakatuhu,




Ashfaq Ahmad Manchalay ka Soda


ماں باپ کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کی محبت بے لوث ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہیں اولاد سے کچھ درکار نہیں ۔ ساتھ ساتھ وہ اولاد کو اپنی مرضی کے مطابق دیکھنے کے خواہشمند بھی ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچوں کی زندگی میں دخل اندازی کر کے بچوں پر دباؤ بھی ڈالتے ہیں ۔ رکاوٹ بھی پیدا کرتے ہیں ۔ اور یہ بھی سمجھتے رہتے ہیں کہ ان کی محبت بے غرض ہے ۔

Ashfaq Ahmad Zavia 2 : Ajeeb Deen


یہ عجیب دین ہے کہ شام سے یا رات سے منسوب کر کے اس کے دن کا اور مہینہ کا آغاز کیا جاتا ہے ۔ دنیا کے کسی اور مذہب میں ایسا نہیں ہے اور کسی امت پر ایسا بوجھ نہیں ۔ اس کی وجہ جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اس اُمّت کو یہ بارِ گراں عطا کیا گیا ہے کہ باوصف اس کے کہ تمہارا نیا دن چڑھ گیا ہے تم نئے ماہ میں داخل ہو گئے ہو ۔ اور اس کے بعد پوری تاریک رات کا سامنا ہے لیکن تم ایک عظیم اُمّہ ہو ۔ تم ایک پر وقار امت سے تعلق رکھتے ہو ۔ تم اس تاریکی سے گھبرانا ہرگز ہرگز نہیں بلکہ اس تاریکی سے گذر کر اپنے وجود پر اعتماد کر کے تمہیں اس صبح تک پہنچنا ہے جس سے ساری جگہ روشنی پھیلے گی ، گویا اس تاریکی کے اندر ہی اندر آپ کو اپنی ذات ، وجود اور شخصیت سے روشنی کرنی ہے ۔