السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة
پیران پیر کے شہر بغداد میں ایک بندہ تھا جو کسی پر عاشق تھا - اس کے لئے تڑپتا تھا ، روتا تھا چیخیں مارتا اور زمین پر سر پٹختا تھا - لیکن اس کا محبوب اسے نہیں ملتا تھا -
اس شخص نے ایک بار خدا سے دعا کی کہ اے الله ! ایک بار مجھے میرے محبوب کے درشن تو کرا دے -
الله تعالیٰ کو اس پر رحم آگیا اور اس کا محبوب ایک مقررہ مقام پر جہاں بھی کہا گیا تھا پہنچ گیا -
دونوں جب ملے تو عاشق ایک چٹھیوں کا بڑا بنڈل لے آیا - یہ وہ خط تھے جو وہ اپنے اس محبوب کے ہجر میں لکھتا رہا تھا - اس نے وہ کھول کر اپنے محبوب کو سنانے شروع کر دیے -
پہلا خط سنایا اور اپنے ہجر کے دکھڑے بیان کیے - اس طرح دوسرا خط ، پھر تیسرا خط ، اور جب وہ گیارویں خط پر پہنچا تو اس کے محبوب نے اسے ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا
" گدھے کے بچے ! میں تیرے سامنے موجود ہوں ، اپنے پورے وجود کے ساتھ اور تو مجھے چٹھیاں سنا رہا ہے - یہ کیا بات ہوئی "
سلطان سنگھاڑا فروش کہنے لگا بھا جی ! " ہماری عبادت بھی ایسی ہی ہوتی ہے - آدمی چٹھیاں سناتا رہتا ہے ، محبوب اس کے گھر میں ہوتا ہے ، اس سے بات نہیں کرتا - جب تک اس سے بات نہیں کریگا چٹھیاں سنانے کا کوئی فائدہ نہیں -
از اشفاق احمد زاویہ ٢ سلطان سنگھاڑے والا صفحہ ٧٤
No comments:
Post a Comment