ایک دفعہ مدینہ منورہ میں قحط پڑگیا ۔ آسمان نے پانی برسانا چھوڑ دیاتھا اور زمین نے اناج اگانے سے انکار کردیاتھا ۔اس قحط کی وجہ سے پورے شہر میں غربت پھیل گئی تھی لوگ دانے دانےکے لئے محتاج ہو گئے تھے ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بہت بڑے تاجر تھے۔ان کی تجارت پورے عرب میں پھیلی ہوئی تھی۔اسدوران ان کا ایک تجارتی قافلہ شام سے لوٹا۔ اس قافلے میں ایک ہزار اونٹ تھے ۔کھانے پینے کی اشیاکے ساتھ جب یہ قافلہ مدینہ کو پہنچاتو لوگوں کو تھوڑی راحت ہوئی ۔ بچے بوڑھے خوش ہوئے لیکن جیسے ہی یہ قافلہ مدینہ پہنچا تاجروں کا ایک وفد بھی ساتھ ساتھ یہاں پہنچ گیا ۔
اس وفد نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ اپنا مال فروخت کرنا چاہیں گے؟ ان کا ارادہ تھا کہ سارا مال خرید لیں اور قحط کی وجہ سے مجبور لوگوں کو مہنگے داموں فروخت کرکے بہت سارا نفع کمائیں
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ آپ اس کی کیا قیمت لگاتے ہیں؟
انھوں نے جواب دیا کہ ہم آپ کو دوگنا نفع دیں گے ۔ یعنی ایک دینار کا مال دو دینار میں خریدیں گے!حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اتنا نفع تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے ۔حضرت عثمان کا جواب سن کر انھوں نے نفع اور بڑھا دیا ۔ پھر بھی عثمان رضی اللہ عنہ نے وہی جواب دیا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے۔انھوں نے نفع اور بڑھا دیا لیکن اب بھی عثمان نے یہی کہا کہ اتنا تو مجھے پہلے سے ہی مل رہا ہے!
یہ سن کر وہ تاجر حیران ہوئے ۔ انھوں نے پوچھا کہ عثمان ہم اہل مدینہ کو خوب جانتے ہیں ،یہاں کوئی تاجر ایسا نہیں جو تمہارے مال کو ہم سے زیادہ قیمت میں خریدے۔ آخر وہ کون ہے جو تمہیں ہم سے زیادہ نفع دے رہا ہے؟
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا -- اللہ !
جو نفع تم مجھے دے رہے ہو ،میرے رب نے مجھے اس سے بہت زیادہ نفع دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ کہہ کر حضرت عثمان نے اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ تمام مال اہل مدینہ اور ضرورتمندوں کے درمیان تقسیم کردیا جائے۔حضرت عثمان کے سامنے اس وقت قرآن کی یہ آیت تھی؛
"جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں انکے خرچ کی مثال ایسی ہے ،جیسے ایک دانہ بویا جائے، اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں، اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھا دیتا ہے،وہ فراخت دست بھی ہے اور علیم بھی"۔(البقرہ261 )
Top of Form
No comments:
Post a Comment