2 ماہ کی چھٹیاں گزارنے کے بعد شہریار خان برطانیہ سے واپس آ ہی گئے، اتوار کو جب میں نے ان سے فون پر گفتگو کی تو ایسا لگا جیسے تازہ دم ہو کر واپس آئے ہیں اور اب بورڈ کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے ہیں تیار ہو چکے۔ ویسے آج کل کے زمانے میں اتنے اہم ادارے کے سربراہ کا طویل رخصت پر جانا بڑا عجیب سا تھا.
پی سی بی ملازمین 2 دن کی چھٹی کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ کہیں کوئی دوسرا جگہ نہ چھین لے،ہمارے ملک میں تو ویسے بھی ماتحت ایک دن اختیار ملنے پر بھی خود کو بادشاہ سمجھتے ہوئے ایسی من مانی کرتا ہے۔جیسے اس سے اچھا کام کوئی کر ہی نہیں سکتا، چیئرمین کرکٹ بورڈ کے نجم سیٹھی سے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، دونوں لاکھ کہیں کہ ہم دونوں بہت اچھے دوست ہیں مگر یہ بات تو شاہ رخ خان اور سلمان خان بھی کہتے ہیں البتہ دل سے کتنے قریب ہیں یہ کوئی راز نہیں،سیٹھی صاحب کو پی سی بی اتنا پیارا ہے کہ انھوں نے آئی سی سی کی صدارت کو ٹھکرا دیا، یا وہ سمجھ گئے تھے کہ صدر کا عہدہ کتنا ’’بااختیار‘‘ ہے اسی لیے اپنے دوست ظہیرعباس کو تحفتاً سونپ دیا۔
وہ اب تک سری لنکا تو جا چکے ہیں اپنے دور میں چند ٹورز اور کر لیں گے، اس کے سوا کچھ کام تو ان سے کوئی لے گا نہیں، نجم سیٹھی سابق چیئرمین رہ چکے اور اب طاقتور ایگزیکٹیو بورڈ کے سربراہ ہیں،ان سے کوئی ٹکر لینے کا نہیں سوچ سکتا، اس کے باوجود 2ماہ تک ان کیلیے میدان خالی چھوڑ کر شہریارخان نے دو باتیں واضح کر دیں، ایک یہ کہ انھیں عہدے کی کوئی فکر نہیں جس کو آنا ہے آ جائے ان کا کچھ داؤ پر نہیں لگا ہوا۔
دوسرا اس سے چیئرمین کی ملکی کرکٹ کے لئے سنجیدگی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ٹیم برے حالات سے گزر رہی تھی، چیمپئنز ٹرافی میں رسائی خطرے میں پڑنے سمیت کئی دیگر تنازعات کا بھی سامنا تھا، مگر انھوں نے کسی بات کی پروا نہ کی اور طویل رخصت پر چلے گئے، ایسے میں ٹیم سری لنکا سے ایک ٹیسٹ ہار گئی،پھر میڈیا میں شور مچا کہ چیئرمین کرکٹ میں دلچسپی نہیں لے رہے تو ایک دم سے ان کے ’’چاہنے والوں‘‘ نے پریس ریلیز جاری کر دی کہ وہ تو انگلینڈ میں کرکٹ آفیشلز سے ملاقاتیں کر رہے ہیں بے کار نہیں بیٹھے ہوئے،ادھر موقع ملنے پر نجم سیٹھی نے کھل کر اسٹروکس کھیلنے شروع کیے۔ وہ سپر لیگ ،دیگر باتوں کی وجہ سے میڈیا میں ’’ان‘‘ ہوئے تو ایک دم سے لندن سے شہریارخان کا بیان سامنے آ گیا کہ لیگ ’’فلاپ ہو جائے گی، میں تو اس کے حق میں ہی نہیں ہوں‘‘، ان کے ساتھی دن رات جس ایونٹ کی کامیابی کیلیے کام کر رہے ہیں اس کے بارے میں ایسی باتیں کچھ حیران کن سی تھیں، بعد میں جاری کردہ پریس ریلیز بھی اس کے اثرات زائل نہ کر سکا، اصولاً تو جب چیئرمین چھٹیوں پر تھے تو انھیں میڈیا سے دور ہی رہنا چاہیے تھا ایسے میں ہر روز نت نئے انٹرویوز نے جلتی پر تیل چھڑکنے جیسا کام کیا، نجم سیٹھی کو ایسا لگنے لگا کہ ان کی کوششوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔
بورڈ کے دونوں بڑوں کو آمنے سامنے لانے میں ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں‘‘ کا کردار ہے،کس نے ایسا کیا اس کی تحقیقات ہوں تو سب واضح ہو جائے گا، شہریارخان اور نجم سیٹھی بظاہر تو ساتھ ساتھ مگر حقیقتاً ایک پیج پر دکھائی نہیں دیتے، دیکھتے ہیں آگے کیا ہو گا، چیئرمین کو واپسی پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے، سب سے پہلے انھیں کھل کر واضح کرنا چاہیے کہ سپر لیگ کا انعقاد چاہتے ہیں یا نہیں، اگر ہاں تو نجم سیٹھی و دیگر کا ساتھ دیں، ایونٹ کی کامیابی سے کوئی ایک شخص ہیرو نہیں بنے گا بلکہ بورڈ کوہی فائدہ ہو گا، اسی طرح ناکامی صرف نجم سیٹھی کی نہیں بلکہ پورے پی سی بی کی ہوگی،اسی لیے سب کو ایک ساتھ کام کرنا چاہیے، ایک اور عجیب بات ٹیم کی فتوحات کے باوجود تنازعات ہیں۔
سرفراز احمد کو نہ کھلانے پر شہریارخان نے لندن سے ہی بیان داغ دیا کہ ’’کپتان اور کوچ سے وضاحت طلب کروں گا‘‘، اس نے بھی صورتحال بگاڑ دی، ایسے معاملات پر اگر کچھ پوچھنا ہی تھا تو خاموشی سے پوچھ لیتے ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت تھی، اس تنازع سے ٹیم کے ساتھ قومی اتحاد کو بھی نقصان پہنچا ہے، لوگ سرفراز کو نہ کھلانے کے معاملے کو کچھ اور ہی رخ دے رہے ہیں، یہ غلط ہے،چیئرمین کو اس تنازع کو بھی فوراً ختم کرنا ہوگا، ڈومیسٹک کرکٹ میں مجوزہ تبدیلیوں کے بعد اب کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کھل کر مخالفت کر رہی ہے۔ اس کے تحفظات بھی دور کرنا چاہئیں، بورڈ اس معاملے میں بھی محاذ آرائی کے موڈ میں لگتا ہے اس سے بہتری کے بجائے مسائل میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ ویسے اگر چیئرمین کو لگتا ہے کہ وہ بے اختیار ہیں، سپر لیگ ان کی مخالفت کے باوجود ہو رہی ہے تو ایسے میں مناسب یہی ہے کہ وہ عہدہ چھوڑ کر کسی دوسرے کو کام کرنے کا موقع دیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان نے سری لنکا کو شکست دی مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہماری ٹیم اس وقت ون ڈے رینکنگ میں آٹھویں نمبر پر آ چکی، کارکردگی میں تسلسل کا فقدان ہے، ورلڈکپ اور بنگلہ دیش میں کیا ہوا یہ اتنی پرانی بات نہیں جسے فراموش کر دیا جائے، درحقیقت معاملات اس وقت بھی بگڑے ہوئے ہیں البتہ تشکیل نو کے مراحل سے گذرنے والی ٹیم پر فتح سے وقتی طور پر ریلیف مل گیا ہے، آگے انگلینڈ کی سیریز بھی آنے والی ہے، مسائل کے مستقل حل کیلیے اختیارات کی رسہ کشی چھوڑ کر سب کو ساتھ مل کرکام کرنا ہوگا۔
No comments:
Post a Comment