Thursday, July 19, 2012

جاوید میانداد کی آپ بیتی "Cutting Edge" سے اقتباس

ان سارے برسوں میں لوگوں نے مجھ سے ان گنت مرتبہ اس ڈکلیئریشن کےبارے میں پوچھا ہے بلکہ یہ ایک ایسا سوال ہے جو مجھ سے سب سے زیادہ مرتبہ کیا گیا ہے۔ لوگوں کو اب تک یہ یقین نہیں آتا کہ عمران نے پاکستان کی اننگز ایک ایسے وقت ختم کردی تھی جب ایک بیٹسمین ٹرپل سنچری کی دہلیز پر تھااور نہ تو میچ اور نہ سیریز میں ہار جیت داؤپرلگی تھی۔ میں نےاس تمام قصے کو بھلانے کی سرتوڑ کوشش کی ہے لیکن لوگ ہیں کہ یاد دلاتے رہتے ہیں۔ جب حیدرآباد میں بھارت کے خلاف 6 میچز کی سیریز کا چوتھا ٹیسٹ شروع ہوا تو پاکستان پہلے ہی یہ سیریز 0-2 سےجیت رہا تھا یہ دونوں ٹیسٹ پاکستان متاثر کن انداز میں، یوں سمجھئے کہ پہلاٹیسٹ ایک اننگز سے اور دوسرا ٹیسٹ دس وکٹوں سے، جیتا تھا اور پاکستانی بلے بازوں نے بھارتی گیندبازوں کے پرخچے اڑا دیئے تھے۔اس پس منظر میں 14 جنوری 1983ء کو حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم میں چوتھا ٹیسٹ شروع ہوا۔ ہم نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا۔ ایک ایسی وکٹ پر جو بڑی ہموار اور مستقل مزاج لگ رہی تھی۔ مجھے چوتھے نمبر پر کھیلنے جانا تھا اور وکٹ کی جو حالت تھی اسےدیکھ کر لگ رہا تھا کہ میری باری آنے میں کافی دیر لگے گی مگر اچانک بلوندر سنگھ سندھو نے پے در پے دو وکٹیں لےلیں۔ 60 رنز کے مجموعی سکور پر مجھے وکٹ پر جانا پڑگیا۔ ہارون رشید ابھی ابھی صفر پر بولڈ ہوئے تھے لیکن مجھے گیند بازی خاصی ہلکی لگی۔ دوسرے اینڈ پر مدثر نذربھی بڑے مطمئن لگ رہے تھے۔ ہم دونوں اپنے شاٹس کھیلتے رہے اور رنز بنتے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہم دونوں کا رخ سنچریوں کی طرف ہوگیا۔ ساتھ ساتھ پارٹنرشپ بھی پھیلتی گئی۔ پہلے 200 رنزاورپھر 300 رنز کی ہوئی اور جب ہم 400 رنزکی پارٹنرشپ تک پہنچے، تب ہمیں معلوم ہواکہ ہم نے 370 رنز کا پچھلا ریکارڈ توڑ کر تیسری وکٹ کی رفاقت کا ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے۔ ہم پھر بھی کھیلتے رہے۔ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں یہ بات بھی تھی کہ ہم ٹیسٹ کرکٹ میں کسی بھی وکٹ پر بہترین شراکت داری کے ریکارڈ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

بالآخر دوسرے دن کی سہ پہر میں جب پاکستان کا مجموعی اسکور 511 رنز تھا تو مدثر نذر 231 رنز کے انفرادی اسکور پر دوشی کی گیند پر منندرسنگھ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے۔ اس وقت تک ہماری پارٹنرشپ میں451 رنز بن چکے تھے اور ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ ہم نے ڈان بریڈمین اور پونسفورڈ کا ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کا سب سے بڑی پارٹنرشپ کا ریکارڈ برابر کردیا تھا جو 1934ء میں قائم ہوا تھا۔ ہمارے لئے یہ بڑی حوصلہ شکن بات تھی کہ ہم صرف ایک رن کے فرق سے ایک نیا ورلڈ ریکارڈ قائم نہیں کرسکے۔ اگرچہ ریکارڈز کو میں کرکٹ کا بنیادی نصب العین نہیں سمجھتا لیکن ان کی اہمیت کو نظرانداز بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جب دوسرا دن ختم ہوا تو میں 238 رنز کے انفرادی اسکور پر کھیل رہا تھا۔ ظہیرعباس میرا ساتھ دینے آئے تھےاور وہ 4 رنز پر کھیل رہے تھے۔ ہر ایک اس بارے میں بات کررہا تھا کہ میں نے اور مدثر نے 48 سالہ پرانا ریکارڈ برابر کردیا ہے۔ اس بات نے مجھے یہ احساس دلادیا کہ کئی اور سنگ میل اورریکارڈز بھی میری رسائی میں ہیں۔ میں سچی بات ہے پاکستان کے لئے ٹرپل سنچری کرنا چاہتا تھا۔ اس وقت تک صرف محمدحنیف نے 337 رنز کی انفرادی اننگز کھیل کریہ کارنامہ انجام دیا تھامیں بھی قدرتی طور پر بلے بازی کے اس سنگ میل کو چھونا چاہتاتھا۔ بلکہ میں تو تین سو رنز سے آگے دیکھ رہا تھا بلکہ یہ تک سوچ رہا تھا کہ میں گیری سوبرز کی 365 رنز کی اس وقت تک کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی سب بڑی اننگز سے بھی آگےنکل سکتا ہوں۔ دوسرے دن میدان سے باہر بھی ڈکلیئریشن کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ عمران نے بھی اس کا کوئی ذکر نہیں کیا تھااور نہ ہی کوئی ہدایت دی تھی۔ جب ہم تیسرے دن کھیل شروع کرنے والے تھے اس وقت بھی عمران نے اننگز ڈکلیئر کرنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا تھا اور میں نے اس کا یہ مطلب لیا تھاکہ مجھے تمام تر ممکنہ ریکارڈز کی طرف بڑھنے کا موقع دیا جارہا ہے۔

میں نے تیسری صبح جارحانہ انداز سے بیٹنگ شروع کی حالانکہ جلد ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ اب وکٹ اتنی آسان نہیں رہی ہے اور بھارتی کھلاڑی بھی ایک نیا پلان لےکرمیدان میں آئے ہیں۔ لیکن میں نے بھی چیلنج کو قبول کیا۔ میرا ارادہ تھا کہ پہلے گھنٹے میں تیس چالیس رنز بناؤں گا اور پانی کے وقفے تک اپنا انفرادی اسکور 275 رنز تک لے جاؤں گا۔ پھر کھانے کے وقفے تک 300 رنز بنالوں گا اور کھانے کے وقفے کے بعد 365 رنز کے سنگ میل کی طرف بڑھنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے اندازہ تھا کہ تین دن بلے بازی کرکے ہمیں بھارتی ٹیم کو دو مرتبہ آؤٹ کے لئے زیادہ وقت نہیں ملے گالیکن ہم یہ سیریز پہلے ہی 0-2 سے جیت رہے تھے۔ بھارتی ٹیم میں مقابلےکا بہت کم جذبہ رہ گیا تھا اور اس بات کا بہت کم امکان تھا کہ وہ پانچویں اور چھٹے ٹیسٹ میں سیریز میں واپس آسکیں گے۔ بھارتی ٹیم کی باؤلنگ بری طرح پٹ چکی تھی جبکہ بھارتی بلے بازوں میں عمران کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رہی تھی جو پوری سیریز میں جب چاہتے وکٹ لیتے رہے تھے۔ لہٰذامیرے مطابق حیدرآباد کے اس چوتھے ٹیسٹ کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہی تھی جبکہ مجھے یہاں بلےبازی کا ایک ایسا موقع مل رہا تھا جو پوری زندگی میں شاذ و نادر ہی ملا کرتا ہے۔ چنانچہ میرا خیال تھا کہ عمران تاریخ میں جگہ بنانے کی میری کوشش میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ لیکن میں کتنا غلطی پر تھا؟ جب تیسرے دن کی صبح پانی کے وقفہ ہوا تو عمران نے اننگز ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ ایسی بھی بات نہیں تھی کہ میں کوئی سست روی سے بلے بازی کررہا تھا۔ 60 منٹ کے کھیل میں 42 رنز کا اضافہ کرچکا تھااور 280 رنز پر کھیل رہا تھا۔ ڈکلیئریشن میرے لئے مکمل طور پر غیرمتوقع تھی اور مجھے اپنےکانوں پر یقین نہیں آیا۔ جب میں پانی پی رہا تھا تو میں نے ظہیر کو پویلین کی طرف نظریں کیے دیکھا۔ میں بھی دیکھنے کے لئے مڑا تو میں نے عمران کو ڈکلیئریشن کا اشارہ کرتے دیکھا۔ ایسے لگا جیسے کسی نے مجھے زور دار لات مار دی ہو۔ میں بے حس وحرکت کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ پھر میں نےظہیرکوواپس جاتے دیکھا تو میں بھی غصے سے تلملاتا ہوا بوجھل قدموں کے ساتھ پویلین کی طرف چل دیا۔

مجھے یاد ہے جب میں واپس جارہا تھا تو سنیل گاوسکر قدم بڑھا کر میرے برابر آئے اور پوچھنے لگے۔ "یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے؟" ہم نے اننگز ڈکلیئرکردی۔ بمشکل یہ الفاظ میرے منہ سے نکلے۔ گاوسکر کو یقین نہیں آیا اور وہ کہنے لگے۔ میں ہوتا تو کبھی اننگز ڈکلیئر نہیں کرتا اگر کوئی بھارتی بلے باز اس طرح 300 رنز کے اتنے قریب ہوتا بلکہ دنیا میں کوئی بھی کپتان ایسا نہیں کرتا جیسا عمران نے کیا۔ جیسے جیسے میں پویلین کے قریب تر ہوتاگیا۔ مجھے جو دھچکا لگا تھا غصہ اس کی جگہ لیتا گیا۔ غصے سے کھولتا ہوا میں سیدھا ڈریسنگ روم میں گیا۔ اس وقت ڈریسنگ روم میں کوئی بھی نہیں تھا اور یہ ٹھیک بھی تھا کیونکہ اس وقت غصے میں کچھ بھی کرسکتا تھا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ سب لوگ باقاعدہ منصوبے کے تحت ڈریسنگ روم سے چلے گئے تھے کیونکہ کوئی بھی اس وقت میرا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ہر ایک کو میرے احساسات کا اندازہ تھا۔ اپنی بلے بازی کی خداداد صلاحیت کے علاوہ سنیل گاوسکر ایک دانشور بھی ہیں اور ان کی یہ بات سولہ آنے درست تھی کہ دنیا کا کوئی بھی کپتان وہ نہ کرتا جو اس دن عمران نے کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے صفحات پر عمران کا وہ خاص فیصلہ جس نے مجھے بے یار و مددگار چھوڑدیا ہمیشہ ایک عجیب و غریب اور منفرد فیصلے کے طور پر یاد کیا جائےگا۔ بالآخر ہم نے وہ ٹیسٹ آسانی سے جیت لیا۔ اب خداہی بہتر جانتا ہے کہ عمران کے اس فیصلےکے پس پردہ کیا محرکات تھے۔ کیا وہ واقعی اس ٹیسٹ میچ کو نیک نیتی سے فیصلہ کن بناناچاہتے تھے۔ جبکہ یہ افواہیں بھی تھیں کہ عمران کے اطراف کے بعض لوگوں نے عمران سے یہ فیصلہ کروایا تھااور انہیں یہ بات سمجھائی تھی کہ میرے 300 رنز بنانے سے عمران کی بالنگ اور کپتانی کے کارنامے پس منظر میں چلے جائیں گے۔ یہ سب کہنے سننے کے باوجود میں یہ بھی کہوں گا کہ عمران کے اس ڈکلیئریشن سے ایک لحاظ سے مجھے فائدہ بھی پہنچا۔ عمران نے مجھ میں بالآخر 365 رنز کی امنگ جگا دی۔ اس کے بعدجب بھی میں 100 سے آگے نکلا میری نظریں سیدھی 300 رنز کے سنگ میل پر گئیں۔ اس سوچ نے ہی مجھ سے اکثر بیشترلمبی اننگزکھلوائیں۔ تھینکس ٹو عمران۔

جاوید میانداد کی آپ بیتی "Cutting Edge" سے اقتباس

 

No comments:

Post a Comment