Tuesday, April 16, 2013

Bay-Pardagi


ایک فیشن ایبل اپ ٹوڈیٹ لڑکی منہ پر پوڈر ملے لب پر سرخی لگائے ساڑھی پہنے اور پوری حشر سامانیوں کے ساتھ کلکتہ کی ایک بارونق سڑک پر جا رہی تھی کہ سامنے سے ایک نوجوان نمودار ہوا۔ جب یہ لڑکی اس نوجوان کے قریب پہنچی تو اس نوجوان نے اس لڑکی کو پکڑ لیا اور اسکے ساتھ عملی بدتمیزی شروع کردی، نوجوان کی اس جرأت و بے باکی پر فیشن کی پتلی گھبرائی اور نوجوان کو جھڑکنے لگی اور اس کے بعد اس سے پیچھا چھڑا کر گھر پہنچی۔وہ ایک امیر باپ کی بیٹھی تھی۔ اس نے عدالت میں اس نوجوان کے خلاف دعویٰ دائرہ کر دیا۔ جج جو عیسائی تھا اس نے نوجوان کو عدالت میں طلب کرکے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ حرکت کیوں کی؟نوجوان نے جواب دیا کہ جناب ! آپ مجھ سے کیا پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں بڑا حیران ہوں کہ آپ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ دیکھئے جناب ! پیٹرول کے نزدیک اگر آگ آجائے تو پیٹرول کی فطرت ہے کہ وہ بھڑک اُٹھے اور جل جائے۔ آگ جب بھی پیٹرول کے نزدیک آئے گی پیٹرول لازماً جلے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پیٹرول کی ٹنکیوں پر لکھا ہوتا ہے کہ یہاں سگریٹ پینا منع ہے اور آگ اس جگہ سے دُور رہے۔اب اگر آگ چولھے سے نکل کر خودبخود چل کر پیٹرول پمپ کے نزدیک آجائے اور پیٹرول بھڑک اور جل اُٹھے تو کیا پیٹرول سے پوچھیں گے کہ اے پیٹرول بتائو تم کیوں بھڑک اُٹھے؟پیٹرول سے ایسا سوال لایعنی ہوگا۔ سوال تو آگ سے ہوگا کہ تم چولہے سے نکل کر پیٹرول کے پاس کیوں آئیں اور کیوں پیٹرول کو بھڑک اُٹھنے کا موقعہ دیا؟ جناب عالیٰ اسی طرح مرد کی یہ فطرت ہے کہ عورت اگر بن ٹھن کر مرد کے قریب آئے گی تو مرد کا خواہ مخواہ اس کی طرف میلان ہوگا اور اس کے جذبات بھڑک اُٹھیں گے۔ آپ مجھ سے نہ پوچھئے اس لڑکی سے پوچھئے کہ یہ بن سنور کر گھر سے کیوں نکلی؟ اور کیوں ایک ایسی شاہراہ عام سے گزری جہاں سینکڑوں پیٹرول صفت مردوں کے بھڑک اُٹھنے کا خطرہ تھا۔ یہ شعلہ آتش جب میرے نزدیک آیا تو فطرتاً میرے جذبات میں ہیجان پیدا ہوا اور میں بھڑک اُٹھا اور نتیجہ وہی نکلا جو نکل سکتا تھا آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ مجرم کون ہے؟ جج کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور اس نے یہ فیصلہ لکھا جو اخبارات میں اس طرح آیا کہ نوجوان کو باعزت بری کیا جاتا ہے اور لڑکی کو ایک سال کے لئے اس پردے میں رہنے کی سزا دیتا ہوں جس کا حکم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ (ماہنامہ طیبہ: جولائی ۱۹۵۲) 'بے پردگی'' مصنفہ اہلیہ ڈاکٹر محمد رضا ص 303 تا 315

No comments:

Post a Comment