حضرت عزیز علیہ السلام جب ' بخت نصر ' کی قید سے رہا ہوئے تو ایک گدھے پر سوار ہو کر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ اپنے شہر کی ویرانی اور بربادی دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ چاروں طرف چکر لگایا مگر انہیں کسی انسان کی شکل نظر نہیں آئی۔ ہاں یہ دیکھا کہ وہاں کے درختوں پر خوب زیادہ پھل آئے ہیں جو پک کر تیار ہو چکے ہیں مگر کوئی ان پھلوں کو توڑنے والا نہیں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ بے اختیار آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکل پڑا کہ انی یحی ھذہ اللہ بعد موتھا یعنی اس شہر کی ایسی بربادی اور ویرانی کے بعد بھلا کس طرح اللہ تعالیٰ پھر اس کو آباد کرے گا ؟ پھر آپ نے کچھ پھلوں کو توڑ کر تناول فرمایا اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا پھر بچے ہوئے پھلوں کو اپنے جھولے میں ڈال لیا اور بچے ہوئے انگور کے شیرہ کو اپنی مشک میں بھر لیا اور اپنے گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا اور پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے اور اسی نیند کی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے درندوں، پرندوں، چرندوں اور جن و انسان سب کی آنکھوں سے آپ کو اوجھل کر دیا کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا۔ یہاں تک کہ ستر برس کا زمانہ گزر گیا تو ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ بیت المقدس کے اس ویرانے میں داخل ہوا اور بہت سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا اور شہر کو پھر دوبارہ آباد کر دیا اور بچے کھچے بنی اسرائیل کو جو اطراف و جوانب میں بکھرے ہوئے تھے سب کو بلا بلا کر اس شہر میں آباد کر دیا اور ان لوگوں نے نئی عمارتیں بنا کر اور قسم قسم کے باغات لگا کر اس شہر کو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور با رونق بنا دیا۔ جب حضرت عزیز علیہ السلام کو پورے ایک سو برس وفات کی حالت میں ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ فرمایا تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا گدھا مر چکا ہے اور اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھری پڑیں ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور مشک میں رکھا ہوا انگور کا شیرہ بالکل خراب نہیں ہوا، نہ پھلوں میں کوئی تغیر نہ شیرے میں کوئی بو باس یا بدمزگی پیدا ہوئی ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اب بھی آپ کے سر اور داڑھی کے بال کالے ہیں اور آپ کی عمرو ہی چالیس برس ہے۔ آپ حیران ہو کر سوچ بچار میں پڑے ہوئے تھے کہ آپ پر وحی اتری اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے دریافت فرمایا کہ اے عزیز! آپ کتنے دنوں تک یہاں رہے ؟ تو آپ نے خیال کر کے کہا کہ میں صبح کے وقت سویا تھا اور اب عصر کا وقت ہو گیا ہے، یہ جواب دیا کہ میں دن بھر یا دن بھر سے کچھ کم سوتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں، اے عزیز! تم پورے سو برس یہاں ٹھہرے رہے، اب تم ہماری قدرت کا نظارہ کرنے کے لئے ذرا اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر بکھر چکی ہیں اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں پر نظر ڈالو کہ ان میں کوئی خرابی اور بگاڑ نہیں پیدا ہوا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے عزیز! اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ان ہڈیوں کو اٹھا کر ان میں گوشت پوست چڑھا کر اس گدھے کو زندہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عزیز علیہ السلام نے دیکھا کہ اچانک بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک دم تمام ہڈیاں جمع ہو کر اپنے اپنے جوڑ سے مل کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور لمحہ بھر میں اس ڈھانچے پر گوشت پوست بھی چڑھ گیا اور گدھا زندہ ہو کر اپنی بولی بولنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عزیز علیہ السلام نے بلند آواز سے یہ کہا: اعلم ان اللہ علیٰ کل شئ قدیر ہ ( پ3، البقرۃ: 259 ) ( تفسیر جمل علی الجلالین، ج1، ص322، پ3، البقرۃ: 259 )
No comments:
Post a Comment