Showing posts with label Deen o Danish. Show all posts
Showing posts with label Deen o Danish. Show all posts

Sunday, June 23, 2013

Ashfaq Ahmed In Baba Sahba : Thotha Pan


میں نے اکثر محسوس کیا ہے کہ کسی کی تھوڑی سی نکتہ چینی بھی آپ کو اپنی بے عزتی محسوس ہوتی ہے ۔ آپ جل بھن جاتے ہیں اور بس کھولنے لگتے ہیں کہ میرے نام اور میرے کام پر ایسی نکتی چینی ! اگر آپ ایک غبارے پر پاؤں رکھ دیں تو کیا ہوتا ہے ایک زوردار دھماکا ہوتا ہے اور غبارا پھٹ جاتا ہے ۔ یہی حال خالی خالی اور تھوتھے انسانوں کے ساتھ ہوتا ہے ۔

Ashfaq Ahmed Safar-dar-Safar : Saaman


مرد کو اپنے ذاتی استعمال کے سامان میں بڑی دلچسپی ہوتی ہے ۔ عورتوں کو دوسروں کو دکھانے کے سامان میں آنند آتا ہے ۔ جب تک عورت مرد کا سامان رہتی ہے وہ اس پر جان چھڑکے جاتا ہے اس کے لئے حلال ہوتا رہتا ہے۔ جب وہ آزاد اور خودمختار ہو جاتی ہے تو مرد اس کی ایک آزاد اور خود مختار فرد کی حیثیت سے عزت کرنے لگتا ہے ۔ اور دونوں کے درمیان اُلفت کے بجائے باہمی تعظیم کا جذبہ کار فرما ہو جاتا ہے ۔

Ashfaq Ahmad In Zavia 3 : Hushkismat


میں نے کہا کہ " تمہاری عمر کافی ہے اور بال بھی سفید ہو چکے ہیں ، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم باقی لوگوں کی نسبت خوش خوش ہو تمہارے چہرے سے نہیں لگتا کہ تم زندگی سے مایوس ہو ۔ کیا یہ مصنوعی ہے " ۔ وہ بولا " صاحب جی ! ہنس کر یا رو کر زندگی تو گذارنی ہے اگر روئیں گے تب بھی گذرے گی اور ہنسیں گے تب بھی اگر اس نے اپنی مرضی سے ہی گذرنا ہے تو رونا کس بات کا " ۔ خواتین و حضرات ! اس کی بات سن کر مجھے لگا کہ یہ میرے سمیت ان لاکھوں لوگوں سے زیادہ خوش قسمت ہے جو سب کچھ ملتے ہوئے بھی کچھ نہ ملنے کا روگ لیے بیٹھے ہوتے ہیں ۔

Thursday, June 20, 2013

Ashfaq Ahmad In Manchalay Ka Soda


محبت وہ شخص کر سکتا ہے جو اندر سے خوش ہو ۔ مطمئن ہو اور پر باش ہو ۔ محبت کوئی سہ رنگا پوسٹر نہیں کہ کمرے میں لگا لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سونے کا تمغہ نہیں کہ سینے پر سجا لیا ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔پگڑی نہیں کہ خوب کلف لگا کر باندھ لی اور بازار میں آگئے طرہ چھورڑ کر ۔ محبت تو روح ہے ۔ ۔ ۔ آپ کے اندر کا اندر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کی جان کی جان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محبت کا دروازہ صرف ان لوگوں پر کھلتا ہے جو اپنی انا اپنی ایگو اور اپنے نفس سے جان چھڑا لیتے ہیں ۔

Wednesday, June 19, 2013

Ashfaq Ahmed In baba Sahiba : Saans


اللہ کے فضل کی صورت بھی عجیب ہے ۔ وہ مجھے سخت گرمی میں بھگا کر ، ہنکا کر اور پسینہ پسینہ کر کے اپنا کرم کرتا ہے ۔ سخت سردی میں منجمد کر کے مجھ پر اپنا فضل کرتا ہے ۔ مجھے کھانے کو دے کر بھی مہربانی کرتا ہے اور بھوکا رکھ کر بھی عنایات کرتا ہے ۔ بیماری میں مجھے نحیف و نزار بھی کرتا ہے اور بے زری میں مجھے پریشان بھی رکھتا ہے لیکن ان ساری چیزوں کو اپنا کر میں مسکرا کر اپنا چہرہ اوپر اٹھاتا ہوں تو وہ میری شہہ رگ کے پاس اسی سانس کا حصہ ہوتا ہے جو میں روشنی حاصل کرنے کے لیے اندر کھینچتا ہوں اور اور جو میں زندگی حاصل کرنے کے لیے باہر نکالتا ہوں ۔

Tuesday, June 18, 2013

Ashfaq Ahmad In Baba Sahbia


خدا کی عبادت ، خدا کے بارے میں سوچ اور خدا کے بارے میں مجلس آرائی ہم کو خدا تک نہیں پہنچاتی ۔ خدا تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے خاموشی ۔ جب ہم خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں اور ہمارا دل ترشنا سے بھر جاتا ہے پھر اس کے فضل برسنے کا موقعہ ہوتا ہے پھر وجود کے آسمان پر اس کے بادل آتے ہیں اور عطا کی بارش ہوتی ہے ۔ پھر پتہ چلتا ہے کہ اصول اور ضابطے سے بڑھ کر اس کے فضل کا کمال ہے ۔

Monday, June 17, 2013

Ashfaq Ahmad In Baba Sahba : Ahtajaj


اللہ کی عطا ہر حال میں اور ہر صورت میں علم اور حکمت سے ہوتی ہے ۔ تنگ وہ کرتا ہے جو خود تنگ ہو ۔ جس کی ذات میں یہ حقیقت رچ بس جائے کہ اللہ تعالیٰ احتیاج سے پاک ہے اور اس کی ہر بات میں علم و حکمت ہے اس کا مخلوق سے جھگڑا ختم ہو جاتا ہے ۔

Sunday, December 30, 2012

(حیاتہ الصحابہ)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت مردوں سے بے حیائی کی باتیں کیا کرتی تھی اور بہت بے باک اور بد کلام تھی
ایک مرتبہ وہ حضور صل اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزری حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونچی جگہ پر بیٹھے ہوئے ثرید کھا رہے تھے اس پر اس عورت نے کہا انہیں دیکھو ایسے بیٹھے ہوئے ہیں جیسے غلام بیٹھتا ہے ایسے کھارہے ہیں جیسے غلام کھاتا ہے
یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون سا بندہ مجھ سے زیادہ بندگی اختیار کرنے والا ہوگا
پھر اس عورت نے کہا یہ خود کھا رہے ہیں اور مجھے نہیں کھلارہے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو بھی کھالے اس نے کہا مجھے اپنے ہاتھ سے عطا فرمائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیا تو اس نے کہا جو آپ کے منہ میں ہے اس میں سے دیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے دیا جسے اس نے کھا لیا اس کھانے کی برکت سے اس پر شرم وحیا غالب آگئی اور اس کے بعد اپنے انتقال تک کسی سے بے حیائی کی بات نہ کی

(حیاتہ الصحابہ)(ص704ج2)

Thursday, October 25, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia 2 : Sabar

اِنَّااللہَ مَعَ الصَّابِرِینَ ۔ (بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔)
اگر کسی نے اللہ کو پانا ہو تو وہ صبر کرنے لگ جاۓ تو اس کا کام بن جاتا ہے جبکہ لوگ اس کے لۓ ورد، وظیفے کرتے ہیں۔ ناک رگڑتے ہیں لیکن اللہ کو صبر کرنے والے پا لیتے ہیں۔ میں نے شاید اسی محفل میں پہلے بھی یہ بات بتائی ہے کہ میر ایک تائی تھیں۔ وہ تیلن تھی۔ اس کا شوہر فوت ہو گیا۔ وہ تائی بے چاری کولہو پیلتی تھی۔ نہایت پاکیزہ عورت تھی۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوئی لیکن اس نے شادی نہیں کی۔ جب میں اس سے ملا تو تائی کی عمر کوئی ساٹھ برس کے قریب تھی۔ اس کے پاس ایک بڑی خوبصورت "رنگیل پیڑھی" تھی، وہ اسے ہر وقت اپنی بغل میں رکھتی تھی جب بیل کے پیچھے چل رہی ہوتی تو تب بھی وہ اس کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔ وہ ساگ بہت اچھا پکاتی تھی اور میں سرسوں کا ساگ بڑے شوق سے کھاتا تھا۔ وہ مجھے گھر سے بلا کے لاتی تھی کہ آ کے ساگ کھا لے میں نے تیرے لۓ پکایا ہے۔ ایک دن میں ساگ کھانے اس کے گھر گیا۔ جب بیٹھ کر کھانے لگا تو میرے پاس وہ "پیڑھی" پڑی تھی میں نے اس پر بیٹھنا چاہا تو وہ کہنے لگی " ناں ناں پُتر ایس تے نئیں بیٹھنا" (نہ نہ بیٹا، اس پر مت بیٹھنا)، میں نے کہا کیوں اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ زیادہ خوبصورت ہے۔ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ کیا میں تیرا پیارا بیٹا نہیں۔
کہنے لگی تو میرا بہت پیارا بیٹا ہے۔ تو مجھے سارے گاؤں سے پیارا ہے لیکن تو اس پر نہیں بیٹھ سکتا۔
کہنے لگی بیٹا جب تیرا تایا فوت ہوا تو مسجد کے مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ "بی بی تیرے اوپر بہت بڑا حادثہ گزرا ہے لیکن تو اپنی زندگی کو سونا بھی بنا سکتی ہے۔ یہ تجھے اللہ نے عجیب طرح کا چانس دیا ہے۔ تو اگر صبر اختیار کرے گی تو اللہ تیرے ہر وقت ساتھ ہو گا کیونکہ یہ قرآن میں ہے کہ " اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے " تائی کہنے لگی کہ میں نے پھر صبر کر لیا۔ جب کئی سال گزر گۓ تو ایک دن مجھے خیال آیا کہ اللہ تو ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے اور اس کے بیٹھنے کے لۓ ایک اچھی سی کرسی چاہیے کہ نہیں؟ تو میں نے "رنگیل پیڑھی" بنوائی اور اس کو قرینے اور خوبصورتی سے بنوایا۔ اب میں اس کو ہر وقت اپنے پاس رکھتی ہوں اور جب بھی اللہ کو بیٹھنا ہوتا ہے میں اسے اس پر بٹھا لیتی ہوں۔ میں کپڑے دھوتی ہوں، اپنا کام کرتی ہوں، روٹیاں ساگ پکاتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرا اور اللہ کا تعلق ہے اور وہ صبر کی وجہ سے میرے ساتھ ہے۔ خواتین و حضرات ایسے لوگوں کا تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے اس بات کو یہاں تک محسوس کیا۔ وہ قرآن میں کہی بات کو دل سے مان گۓ وہ خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں۔ ہم جیسے لوگ "ٹامک ٹوئیاں " مارتے ہیں اور ہمارا رخ اللہ کے فضل سے سیدھے راستے ہی کی طرف ہے۔ ہم سے کچھ کوتاہیاں ایسی ضرور ہو جاتی ہیں جو ہمارے کۓ کراۓ پر " کُوچی " پھیر دیتی ہیں۔ جس سے ہمارا بدن، روح، دل خراب ہو جاتا ہے۔ 

زاویہ دوم، باب پینتیس سے اقتباس

Sunday, September 23, 2012