Showing posts with label Place a lesson. Show all posts
Showing posts with label Place a lesson. Show all posts

Wednesday, October 17, 2012

Habeel aur Qabeel : Pehla Qatal

نبی کا بیٹا آگ کا پجاری بن گیا

گنہگاروں اور متکبروں کے لئے مقام عبرت ۔۔۔۔

ہابیل کو قتل کرنے کے بعد قابیل کے فرار کے بارے دو قول ملتے ہیں ۔پہلا قول یمن کا ہے تاریخ طبری میں ہے کہ ہابیل کو قتک کرنے کے بعد قابیل یمن بھاگ گیا تھا ۔ اس کی تف
صیل اس طرح ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے شدید غضب ناک ہو کر قابیل کو پھٹخار کر اپنے دربار سے نکال دیا اور وہ بد نصیب اقلیما کو ساتھ لے کر یمن کی سرزمین "عدن" چلا
 گیا ۔وہاں ابلیس اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لئے کھایا کہ وہ آگ کی پوجا کیا کرتا تھا لہٰذا تو بھی ایک آگ کا مندر بنا کر آگ کی پرستش کیا کر ۔ چناچہ قابیل وہ پہلا شخص ہے جس نے آگ کی عبادت کی ۔اور یہ روۓ زمین پر پہلا شخص ہے جس نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی اور سب سے پہلے زمین پر خون ناحق کیا اور ہی وہ پہلا مجرم ہے جو جہنم میں ڈالا جاۓ گا اور حدیث شریف میں ہت کہ روۓ زمین پر قیامت تک جو بھی خون ناحق ہو گا قابیل اس میں حصہ دار ہوگا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے قتل کا دستور نکالا ۔اور قابیل کا انجام ہی ہوا کہ اس کے ایک لڑکے نے جو کہ اندھا تھا اس کو ایک پتھر مار کر قتل کر دیا ۔ اور یہ بد بخت بنی زادہ ہونے کے باوجود آگ کی پرستش کرتے ہوۓ کفر و شرک کی حالت میں اپنے لڑکے کے ہاتھ سے مارا گیا..

Ilm ka faida..

ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید گھوڑے پر سوار کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک گوشہ نشین عالم مکرم ابوالحسن علی بن حمزہ سےملاقات ہوگئی۔ ہارون الرشید احترامآ گھوڑے سے نیچے اتر آئے اور مصافحہ کرنے کے بعد ان سے دربار میں نہ آنے کی شکایت کی۔
انھوں نے جواب دیا
"امیر المومنین میں مطالعہ میں اتنا مصروف رہتا ہوں، سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی"
خلیفہ ہارون الرشید نے کہا
" پھر اتنے علم کا کیا فائدہ؟؟؟"
ابو الحسن نے جواب دیا
"ایک دو فائدے ہوں تو گنواؤں۔ لیکن اس کا یہی فائدہ کیا کم ہے کہ اس کی بدولت امیر المومنین گھوڑے سے اتر کر باادب مصافحہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

A story about mother..

اعلٰی تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے ملک کی ایک بڑی نامور کمپنی میں ادارتی منصب کیلئے درخواست جمع کرائی اور اُسے ابتدائی طور پر اِس منصب کیلئے موزوں اُمیدوار قرار دیکر فائنل انٹرویو کیلیئے تاریخ دیدی گئی۔
انٹرویو والے دن کمپنی کے مُدیر (کمپنی کا سربراہ) نے نوجوان کی پروفائل کو غور سے دیکھا اور پڑھا، نوجوان اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر آخری مرحلے تک نا صرف کامیاب ہوتا رہا تھا ب
لکہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ اُسکی تعلیم کا یہ معیار آخر تک برقرار رہا تھا۔ مُدیر نے جوان سے پوچھا: تعلیم کے معاملے میں تمہیں کبھی کوئی مشکل یا کوئی ناکامی بھی پیش آئی، جسکا جواب نوجوان نے کبھی نہیں کہہ کر دیا۔
مُدیر نے پوچھا: یقینا یہ تمہارے والد ہونگے جنہوں نے تمہاری اِس مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت کیئے ہونگے؟
نوجوان نے کہا نہیں، میرے والد کا تو اُس وقت ہی انتقال ہو گیا تھا جب میں ابھی اپنی پہلی جماعت میں تھا۔ میرے تعلیم کے سارے اخراجات میری امی نے اُٹھائے ہیں۔
مُدیر نے پھر کہا؛ اچھا، تو پھر تمہاری امی کیا جاب کرتی ہیں ؟
نوجوان نے بتایا کہ میری امی لوگوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ تو دِکھاؤ۔ نوجوان نے ہاتھ اُسے تھمائے جو کہ اِنتہائی نرم و نازک اور نفیس تھے، ہاتھوں کی نزاکت سے تو شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ نوجوان نے تعلیم کے علاوہ کبھی کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔
مُدیر نے نوجوان سے پوچھا: کیا تم نے کپڑے دھونے میں کبھی اپنی امی کے ہاتھ بٹائے ہیں؟
نوجوان نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں، کبھی نہیں، میری امی ہمیشہ مجھے اپنا سبق یاد کرنے کو کہا کرتی تھیں، اُنکا کہنا تھا کہ کپڑے وہ خود دھو لیں گی۔ میں زیادہ سے زیادہ کُتب کا مطالعہ کرتا تھا، اور پھر میری امی جتنی تیزی اور پُھرتی سے کپڑے دھوتی تھیں میں تو اُتنی تیزی سے دھو بھی نہیں سکتا تھا۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا؛ برخوردار، میری ایک شرط ہے کہ تم آج گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوؤ اور کل دوبارہ میرے پاس واپس آؤ تو میں طے کرونگا کہ تمہیں کام پر رکھا جائے کہ نہیں۔
نوجوان کو یہ شرط کُچھ عجیب تو ضرور لگی مگر کام ملنے کے اطمئنان اور خوشی نے اُسے جلد سے جلد گھر جانے پر مجبور کردیا۔
گھر جا کر نوجوان نے اپنی ماں کو سارا قصہ کہہ سُنایا اور ساتھ ہی اُسے جلدی سے ہاتھ دھلوانے کو کہا۔ آخر نوکری کا ملنا اس شرط سے جُڑا ہوا تھا۔
نوجوان کی ماں نے خوشی تو محسوس کی، مگر ساتھ ہی اُسے یہ شرط عجیب بھی لگ رہی تھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات آ رہے تھے کہ آخر نوکری کیلئے یہ کِس قسم کی شرط تھی؟ مگر اِس سب کے باوجود اُس نے اپنے ہاتھ بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔
نوجوان نے آہستگی سے ماں کے ہاتھ دھونا شروع کیئے، کرخت ہاتھ صاف بتا رہے تھے کہ اِنہوں نے بہت مشقت کی تھی۔ نوجوان کی آنکھو سے آنسو رواں ہو گئے۔ آج پہلی بار اُسے اپنی ماں کے ہاتھوں سے اُس طویل محنت کا ندازہ ہو رہا تھا جو اُس نے اپنےاِس بیٹے کی تعلیم اور بہتر مُستقبل کیلئے کی تھی۔
ہاتھ انتہائی کُھردے تو تھے ہی اور ساتھ ہی بہت سی گانٹھیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ آج نوجوان کو پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کھردرا پن اگر اُسکی تعلیم کی قیمت چُکاتے چُکاتے ہوا تھا تو گانٹھیں اُسکی ڈگریوں کی قیمت کے طور پر پڑی تھیں۔ نوجوان ہاتھ دھونے سے فراغت پا کر خاموش سے اُٹھا اور نم آنکھوں سے ماں کے رکھے ہوئے باقی کپڑے دھونے لگ گیا۔ 

Maa

دسمبر کی ایک سہ پہر میں سکول سے نکلا تو آسمان پر کالے بادل چھا ئے ہوئے تھے ۔میں نے سوچا بارش آنے سے پہلے گھر پہنچ جاؤں گا ۔ابھی آدھا بھی فاصلہ طے نہیں ہوا تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ سارے کپڑے بھیگ گئے کانپتا ہوا گھر پہنچا گیٹ پر ہی
 بھائی مل گیا بھائی نے کہا۔موصوف نظر نہیں آرہا تھا کہ بارش ہو رہی ہے بھیگ بھاگ کر آ گئے ہو ،
میں سر جھکائے اندر چلا گیا چھوٹی بہن کی مجھ پر نظر پڑی تو کہنے لگی
تھوڑی دیر رک جا تے ۔ بارش تھم جا تی ۔ تب نکل آتے۔
ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی ابا جی سے سامنا ہو گیا ،میں نے سلام کیا تو ابا جی نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولے بیٹا بہت شوق ہے بارش میں بھیگنے کا۔ ٹھنڈ لگے گی تو لگ پتہ جائے گا۔
میری آوازسن کر ماں جی آ گئی ۔ میرے سر پر تولیہ رکھ کر بولی
کم بخت بارش تھوڑی دیر رک نہیں سکتی تھی کہ میرا لال گھر پہنچ جاتا تو پھر آجا تی ۔
اور
اور پانی میرے گالوں پر سے ہوتا ہوا نیچے گرنے لگا
مگر وہ بارش کا پانی نہیں تھا۔"