Showing posts with label Mother. Show all posts
Showing posts with label Mother. Show all posts

Sunday, August 16, 2015

Place Teacher recognized ..

گزشتہ دنوں میٹرک کے نتائج کا اعلان ہوتے ہی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ویسے تو ہمارا تعلیم سے دور کا بھی واسطہ نہیں مطلب کہ جرائم کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ کی ہی تلاش تھی۔ نارتھ ناظم آباد کی طرف سے آرہے تھے کہ آفس سے کال آئی کہ بورڈ آفس نکل جائیں کوئی احتجاج ہورہا ہے۔
بس ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کچھ ہی لمحوں میں ٹیم کے ساتھ بورڈ آفس پہنچ گئے۔ لیکن وہاں جاکر کرنا کیا ہے کچھ علم نا تھا بس یہ معلوم تھا کہ طلبہ کی بڑی تعداد کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ ظلم ہوا اور فیل کردیا گیا۔ کچھ تعلیمی رپورٹر ساتھی موجود تھے۔ ان سے جانا تو بتایا گیا کہ بورڈ نے طلبہ کے اعتراض پر اسکروٹنی فارم جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ یہ بھی بورڈ کی روایت کے برعکس تھا کیونکہ اسکروٹنی کا عمل مارک شیٹ ملنے کے بعد ہوتا تھا، لیکن بورڈ میں کرپشن کا گرم بازار کہیں یا اپنوں پر کی گی مہربانیوں کا ڈر، روایت ٹوٹ گئی۔ احتجاج تو نہ تھا لیکن بورڈ کی بلڈنگ میں موجود طلبہ نے کیمرہ دیکھا تو شور شرابہ کیا کہ بہت زیادتی کی گئی ہے کہ نویں جماعت میں گریڈ اے ون اور اے بن رہا تھا اس بار فیل کردیا گیا اور اسکروٹنی کا عمل بھی پیسے بنانے کا طریقہ ہے۔

Wednesday, October 17, 2012

A story about mother..

اعلٰی تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے ملک کی ایک بڑی نامور کمپنی میں ادارتی منصب کیلئے درخواست جمع کرائی اور اُسے ابتدائی طور پر اِس منصب کیلئے موزوں اُمیدوار قرار دیکر فائنل انٹرویو کیلیئے تاریخ دیدی گئی۔
انٹرویو والے دن کمپنی کے مُدیر (کمپنی کا سربراہ) نے نوجوان کی پروفائل کو غور سے دیکھا اور پڑھا، نوجوان اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر آخری مرحلے تک نا صرف کامیاب ہوتا رہا تھا ب
لکہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ اُسکی تعلیم کا یہ معیار آخر تک برقرار رہا تھا۔ مُدیر نے جوان سے پوچھا: تعلیم کے معاملے میں تمہیں کبھی کوئی مشکل یا کوئی ناکامی بھی پیش آئی، جسکا جواب نوجوان نے کبھی نہیں کہہ کر دیا۔
مُدیر نے پوچھا: یقینا یہ تمہارے والد ہونگے جنہوں نے تمہاری اِس مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت کیئے ہونگے؟
نوجوان نے کہا نہیں، میرے والد کا تو اُس وقت ہی انتقال ہو گیا تھا جب میں ابھی اپنی پہلی جماعت میں تھا۔ میرے تعلیم کے سارے اخراجات میری امی نے اُٹھائے ہیں۔
مُدیر نے پھر کہا؛ اچھا، تو پھر تمہاری امی کیا جاب کرتی ہیں ؟
نوجوان نے بتایا کہ میری امی لوگوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ تو دِکھاؤ۔ نوجوان نے ہاتھ اُسے تھمائے جو کہ اِنتہائی نرم و نازک اور نفیس تھے، ہاتھوں کی نزاکت سے تو شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ نوجوان نے تعلیم کے علاوہ کبھی کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔
مُدیر نے نوجوان سے پوچھا: کیا تم نے کپڑے دھونے میں کبھی اپنی امی کے ہاتھ بٹائے ہیں؟
نوجوان نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں، کبھی نہیں، میری امی ہمیشہ مجھے اپنا سبق یاد کرنے کو کہا کرتی تھیں، اُنکا کہنا تھا کہ کپڑے وہ خود دھو لیں گی۔ میں زیادہ سے زیادہ کُتب کا مطالعہ کرتا تھا، اور پھر میری امی جتنی تیزی اور پُھرتی سے کپڑے دھوتی تھیں میں تو اُتنی تیزی سے دھو بھی نہیں سکتا تھا۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا؛ برخوردار، میری ایک شرط ہے کہ تم آج گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوؤ اور کل دوبارہ میرے پاس واپس آؤ تو میں طے کرونگا کہ تمہیں کام پر رکھا جائے کہ نہیں۔
نوجوان کو یہ شرط کُچھ عجیب تو ضرور لگی مگر کام ملنے کے اطمئنان اور خوشی نے اُسے جلد سے جلد گھر جانے پر مجبور کردیا۔
گھر جا کر نوجوان نے اپنی ماں کو سارا قصہ کہہ سُنایا اور ساتھ ہی اُسے جلدی سے ہاتھ دھلوانے کو کہا۔ آخر نوکری کا ملنا اس شرط سے جُڑا ہوا تھا۔
نوجوان کی ماں نے خوشی تو محسوس کی، مگر ساتھ ہی اُسے یہ شرط عجیب بھی لگ رہی تھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات آ رہے تھے کہ آخر نوکری کیلئے یہ کِس قسم کی شرط تھی؟ مگر اِس سب کے باوجود اُس نے اپنے ہاتھ بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔
نوجوان نے آہستگی سے ماں کے ہاتھ دھونا شروع کیئے، کرخت ہاتھ صاف بتا رہے تھے کہ اِنہوں نے بہت مشقت کی تھی۔ نوجوان کی آنکھو سے آنسو رواں ہو گئے۔ آج پہلی بار اُسے اپنی ماں کے ہاتھوں سے اُس طویل محنت کا ندازہ ہو رہا تھا جو اُس نے اپنےاِس بیٹے کی تعلیم اور بہتر مُستقبل کیلئے کی تھی۔
ہاتھ انتہائی کُھردے تو تھے ہی اور ساتھ ہی بہت سی گانٹھیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ آج نوجوان کو پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کھردرا پن اگر اُسکی تعلیم کی قیمت چُکاتے چُکاتے ہوا تھا تو گانٹھیں اُسکی ڈگریوں کی قیمت کے طور پر پڑی تھیں۔ نوجوان ہاتھ دھونے سے فراغت پا کر خاموش سے اُٹھا اور نم آنکھوں سے ماں کے رکھے ہوئے باقی کپڑے دھونے لگ گیا۔