Showing posts with label Mother Love. Show all posts
Showing posts with label Mother Love. Show all posts

Saturday, August 15, 2015

Hadees : Be kind to mother ..


حضرت حکیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں کس سے نیکی کروں؟ فرمایا اپنی ماں سے۔میں نے عرض کی پھر کس سے؟ فرمایا اپنی ماں سے میں نے عرض کی پھر کس سے؟ فرمایا اپنی ماں سے۔ میں نے عرض کی پھر کس سے؟ فرمایا اپنے باپ سے، پھر قریبیوں سے اور پھر قریبیوں سے درجہ بدرجہ۔
(جامع ترمذی ،جلد اول باب البر والصلۃ 1897)
-------
حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول ﷺ میں کس کے ساتھ احسان کروں ؟ 
آپ ﷺ نے فر مایا :۔’’اپنی والدہ کے ساتھ ‘‘۔ 
میں نے عرض کیا ’’پھر کس سے ؟ 
آپ ﷺ نے فر مایا :۔ ’’اپنی والدہ سے ‘‘۔ 
میں نے عرض کیا ’’پھر کس سے ؟‘‘آپ ﷺ نے فر مایا :۔اپنے والد سے پھر مرتبہ کی تر تیب سے اپنے قر یبی رشتہ داروں سے ‘‘۔
( تر مذی ، ابو داوُد)
------ 
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میری ماں (مکہ سے) آئی ہے اور وہ مشرکہ ہے اور وہ دین اسلام سے بھی بیزار ہے کیا میں اُس سے حسن سلوک کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اپنی ماں سے حسن سلوک کرو۔
(مسلم ، کتاب زکوٰۃ
---------
ابو السید مالک بن ربیعہ ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنو سلمہ کا ایک شخص آپ ﷺ کے پاس آیا اس نے کہا: اے اللہ کے رسول کیا میرے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی ایسی صورت باقی ہے کہ میں ان کی وفات کے بعد بھی ان سے حسن سلوک کرسکوں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ان کے لئے دعا ئے رحمت کرنا، استغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت پر عمل کرنا ۔جن سے وہ صلہ رحمی کرتے تھے تم بھی صلہ رحمی کرنا اور ان کے دوستوں کا احترام کرنا۔
(سنن ابی داوُد ،جلد سوئم کتاب الادب 5142)
---------
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے کہا: میں والدین کو روتے ہوئے چھوڑ کر ہجرت کے لئے آپ ﷺ کی بیعت کرنے حاضر ہوا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جاؤ جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اب ویسے ہی انہیں ہنساؤ۔
(سنن ابی داوُد ،جلد دوم کتاب الجہاد 2528)
----------
حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص یمن سے ہجرت کرکے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کیا یمن میں تمہارا کوئی رشتہ دار ہے؟ تو اس شخص نے کہا میرے والدین ہیں آپ نے فرمایا کیا انہوں نے تمہیں (ہجرت کرنے کی) اجازت دی اس نے کہا نہیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا انہی کے پاس لوٹ جاؤ ان سے اجازت طلب کرو۔ پس اگر وہ اجازت دے دیں توجہاد کر ورنہ ان کے ساتھ نیکی کر (حسن سلوک سے پیش آ) 
(سنن ابی داوُد ،جلد دوم کتاب الجہاد2530)
-----------
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ﷺ میری ماں مرگئی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا اس کو فائدہ دے گا تو آپ ﷺ نے فرمایا ہاں ۔تو اس نے عرض کیا میرا ایک باغ ہے تو میں آپ ﷺکو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اس کی طرف سے صدقہ کردیا۔
(جامع ترمذی ،جلد اول باب الزکوۃ 669)
----------
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: میں سویا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت میں ہوں۔ میں نے وہاں کسی قرآن پڑھنے والے کی آواز سنی تو میں نے کہا: یہ کون ہے (جو یہاں جنت میں قرآن پڑھ رہا ہے)؟ فرشتوں نے بتایا کہ یہ حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا نیکی ایسی ہی ہوتی ہے نیکی ایسی ہی ہوتی ہے یعنی نیکی کا پھل ایسا ہی ہوتا ہے۔ حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ اپنی والدہ کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کرنے والے تھے۔
(مسند احمد)
------
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس کے شوہر کا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس کی ماں کا ہے۔
(مستدرک حاکم)
--------------
لائک کرکے
حدیث شئیر کرکے صدقہ جاریہ حاصل کریں
جزاک اللہ خیر

Wednesday, October 17, 2012

A story about mother..

اعلٰی تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے ملک کی ایک بڑی نامور کمپنی میں ادارتی منصب کیلئے درخواست جمع کرائی اور اُسے ابتدائی طور پر اِس منصب کیلئے موزوں اُمیدوار قرار دیکر فائنل انٹرویو کیلیئے تاریخ دیدی گئی۔
انٹرویو والے دن کمپنی کے مُدیر (کمپنی کا سربراہ) نے نوجوان کی پروفائل کو غور سے دیکھا اور پڑھا، نوجوان اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر آخری مرحلے تک نا صرف کامیاب ہوتا رہا تھا ب
لکہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ اُسکی تعلیم کا یہ معیار آخر تک برقرار رہا تھا۔ مُدیر نے جوان سے پوچھا: تعلیم کے معاملے میں تمہیں کبھی کوئی مشکل یا کوئی ناکامی بھی پیش آئی، جسکا جواب نوجوان نے کبھی نہیں کہہ کر دیا۔
مُدیر نے پوچھا: یقینا یہ تمہارے والد ہونگے جنہوں نے تمہاری اِس مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت کیئے ہونگے؟
نوجوان نے کہا نہیں، میرے والد کا تو اُس وقت ہی انتقال ہو گیا تھا جب میں ابھی اپنی پہلی جماعت میں تھا۔ میرے تعلیم کے سارے اخراجات میری امی نے اُٹھائے ہیں۔
مُدیر نے پھر کہا؛ اچھا، تو پھر تمہاری امی کیا جاب کرتی ہیں ؟
نوجوان نے بتایا کہ میری امی لوگوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ تو دِکھاؤ۔ نوجوان نے ہاتھ اُسے تھمائے جو کہ اِنتہائی نرم و نازک اور نفیس تھے، ہاتھوں کی نزاکت سے تو شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ نوجوان نے تعلیم کے علاوہ کبھی کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔
مُدیر نے نوجوان سے پوچھا: کیا تم نے کپڑے دھونے میں کبھی اپنی امی کے ہاتھ بٹائے ہیں؟
نوجوان نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں، کبھی نہیں، میری امی ہمیشہ مجھے اپنا سبق یاد کرنے کو کہا کرتی تھیں، اُنکا کہنا تھا کہ کپڑے وہ خود دھو لیں گی۔ میں زیادہ سے زیادہ کُتب کا مطالعہ کرتا تھا، اور پھر میری امی جتنی تیزی اور پُھرتی سے کپڑے دھوتی تھیں میں تو اُتنی تیزی سے دھو بھی نہیں سکتا تھا۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا؛ برخوردار، میری ایک شرط ہے کہ تم آج گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوؤ اور کل دوبارہ میرے پاس واپس آؤ تو میں طے کرونگا کہ تمہیں کام پر رکھا جائے کہ نہیں۔
نوجوان کو یہ شرط کُچھ عجیب تو ضرور لگی مگر کام ملنے کے اطمئنان اور خوشی نے اُسے جلد سے جلد گھر جانے پر مجبور کردیا۔
گھر جا کر نوجوان نے اپنی ماں کو سارا قصہ کہہ سُنایا اور ساتھ ہی اُسے جلدی سے ہاتھ دھلوانے کو کہا۔ آخر نوکری کا ملنا اس شرط سے جُڑا ہوا تھا۔
نوجوان کی ماں نے خوشی تو محسوس کی، مگر ساتھ ہی اُسے یہ شرط عجیب بھی لگ رہی تھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات آ رہے تھے کہ آخر نوکری کیلئے یہ کِس قسم کی شرط تھی؟ مگر اِس سب کے باوجود اُس نے اپنے ہاتھ بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔
نوجوان نے آہستگی سے ماں کے ہاتھ دھونا شروع کیئے، کرخت ہاتھ صاف بتا رہے تھے کہ اِنہوں نے بہت مشقت کی تھی۔ نوجوان کی آنکھو سے آنسو رواں ہو گئے۔ آج پہلی بار اُسے اپنی ماں کے ہاتھوں سے اُس طویل محنت کا ندازہ ہو رہا تھا جو اُس نے اپنےاِس بیٹے کی تعلیم اور بہتر مُستقبل کیلئے کی تھی۔
ہاتھ انتہائی کُھردے تو تھے ہی اور ساتھ ہی بہت سی گانٹھیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ آج نوجوان کو پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کھردرا پن اگر اُسکی تعلیم کی قیمت چُکاتے چُکاتے ہوا تھا تو گانٹھیں اُسکی ڈگریوں کی قیمت کے طور پر پڑی تھیں۔ نوجوان ہاتھ دھونے سے فراغت پا کر خاموش سے اُٹھا اور نم آنکھوں سے ماں کے رکھے ہوئے باقی کپڑے دھونے لگ گیا۔