Showing posts with label Urdu Story. Show all posts
Showing posts with label Urdu Story. Show all posts

Wednesday, October 17, 2012

Aik kafar kay 3 sawal aur un kay jawab..

ايک کافر نے ايک بزرگ سے کہا اگر تم ميرے تين سوالوں کا جواب دے دوں تو ميں مسلمان ہوجاؤنگا۔
جب ہر کام اللہ کي مرضي سے ہوتا ہے تو تم لوگ انسان کو ذمہ دار کيوں ٹہراتے ہوں۔
جب شيطان آگ کا بنا ہوا ہو تو اس پر آگ کيسے اثر کرے گي؟
جب تمہيں اللہ تعالي نظر نہيں آتا تو اسے کيوں مانتےہو؟
بزرگ نے اس کے جواب ميں پاس پڑا ہو مٹی کا ڈھيلا اٹھا کر اس کو مارا، اس کو بہت غصہ آيا اور اس نے قاضي کي عدالت ميں بزرگ کے خلاف مقدمہ دائر کرديا۔
قاضي نے بزرگ کو بلايا اور ان سے پوچھا کہ تم نے کافر کے سوالوں کے جواب ميں اسے مٹي کا ڈھيلا کيوں مارا؟
بزرگ نے کہا يہ اس کے تينوں سوالوں کا جواب ہے۔
قاضي نے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کيسے ۔۔۔۔۔۔؟
بزرگ نے کہا اسکے پہلے سوال کا جواب يہ ہے کہ ميں نے يہ ڈھيلا اللہ کي مرضي سے اسے مارا ہے تو پھر يہ اس کا ذمہ دار کيوں ٹہراتا ہے؟
اس کے دوسرے سوال کا جواب يہ کہ انسان تو مٹی کا بنا ہے پھر اس پر مٹي کے ڈھيلے نے کس طرح اثر کيا۔۔۔۔۔؟
اس کے تيسرے سوال کا جواب يہ ہےکہ اسے درد نظر نہیں آتا تو اسے محسوس کيوں ہوتا ہے۔
اپنے سوالوں کے جواب سن کر کافر فورا مسلمان ہوگيا۔
دوستو۔۔۔۔۔ جو لوگ اللہ تعالي کيلے اپني زندگي وقف کرديتے ہيں اللہ رب العزت انکي تربيت کرتے ہيں اور کس موقع پر کيا بات کرني ہے اللہ تعالي انہیں سمجھا ديتا ہے۔

Habeel aur Qabeel : Pehla Qatal

نبی کا بیٹا آگ کا پجاری بن گیا

گنہگاروں اور متکبروں کے لئے مقام عبرت ۔۔۔۔

ہابیل کو قتل کرنے کے بعد قابیل کے فرار کے بارے دو قول ملتے ہیں ۔پہلا قول یمن کا ہے تاریخ طبری میں ہے کہ ہابیل کو قتک کرنے کے بعد قابیل یمن بھاگ گیا تھا ۔ اس کی تف
صیل اس طرح ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے شدید غضب ناک ہو کر قابیل کو پھٹخار کر اپنے دربار سے نکال دیا اور وہ بد نصیب اقلیما کو ساتھ لے کر یمن کی سرزمین "عدن" چلا
 گیا ۔وہاں ابلیس اس کے پاس آکر کہنے لگا کہ ہابیل کی قربانی کو آگ نے اس لئے کھایا کہ وہ آگ کی پوجا کیا کرتا تھا لہٰذا تو بھی ایک آگ کا مندر بنا کر آگ کی پرستش کیا کر ۔ چناچہ قابیل وہ پہلا شخص ہے جس نے آگ کی عبادت کی ۔اور یہ روۓ زمین پر پہلا شخص ہے جس نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی اور سب سے پہلے زمین پر خون ناحق کیا اور ہی وہ پہلا مجرم ہے جو جہنم میں ڈالا جاۓ گا اور حدیث شریف میں ہت کہ روۓ زمین پر قیامت تک جو بھی خون ناحق ہو گا قابیل اس میں حصہ دار ہوگا کیونکہ اسی نے سب سے پہلے قتل کا دستور نکالا ۔اور قابیل کا انجام ہی ہوا کہ اس کے ایک لڑکے نے جو کہ اندھا تھا اس کو ایک پتھر مار کر قتل کر دیا ۔ اور یہ بد بخت بنی زادہ ہونے کے باوجود آگ کی پرستش کرتے ہوۓ کفر و شرک کی حالت میں اپنے لڑکے کے ہاتھ سے مارا گیا..

Ilm ka faida..

ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید گھوڑے پر سوار کہیں جا رہے تھے۔ راستے میں ایک گوشہ نشین عالم مکرم ابوالحسن علی بن حمزہ سےملاقات ہوگئی۔ ہارون الرشید احترامآ گھوڑے سے نیچے اتر آئے اور مصافحہ کرنے کے بعد ان سے دربار میں نہ آنے کی شکایت کی۔
انھوں نے جواب دیا
"امیر المومنین میں مطالعہ میں اتنا مصروف رہتا ہوں، سر اٹھانے کی فرصت نہیں ملتی"
خلیفہ ہارون الرشید نے کہا
" پھر اتنے علم کا کیا فائدہ؟؟؟"
ابو الحسن نے جواب دیا
"ایک دو فائدے ہوں تو گنواؤں۔ لیکن اس کا یہی فائدہ کیا کم ہے کہ اس کی بدولت امیر المومنین گھوڑے سے اتر کر باادب مصافحہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

A story about mother..

اعلٰی تعلیم میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے ایک نوجوان نے ملک کی ایک بڑی نامور کمپنی میں ادارتی منصب کیلئے درخواست جمع کرائی اور اُسے ابتدائی طور پر اِس منصب کیلئے موزوں اُمیدوار قرار دیکر فائنل انٹرویو کیلیئے تاریخ دیدی گئی۔
انٹرویو والے دن کمپنی کے مُدیر (کمپنی کا سربراہ) نے نوجوان کی پروفائل کو غور سے دیکھا اور پڑھا، نوجوان اپنی ابتدائی تعلیم سے لے کر آخری مرحلے تک نا صرف کامیاب ہوتا رہا تھا ب
لکہ اپنے تعلیمی اداروں میں ہمیشہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتا رہا تھا۔ اُسکی تعلیم کا یہ معیار آخر تک برقرار رہا تھا۔ مُدیر نے جوان سے پوچھا: تعلیم کے معاملے میں تمہیں کبھی کوئی مشکل یا کوئی ناکامی بھی پیش آئی، جسکا جواب نوجوان نے کبھی نہیں کہہ کر دیا۔
مُدیر نے پوچھا: یقینا یہ تمہارے والد ہونگے جنہوں نے تمہاری اِس مہنگی تعلیم کے اخراجات برداشت کیئے ہونگے؟
نوجوان نے کہا نہیں، میرے والد کا تو اُس وقت ہی انتقال ہو گیا تھا جب میں ابھی اپنی پہلی جماعت میں تھا۔ میرے تعلیم کے سارے اخراجات میری امی نے اُٹھائے ہیں۔
مُدیر نے پھر کہا؛ اچھا، تو پھر تمہاری امی کیا جاب کرتی ہیں ؟
نوجوان نے بتایا کہ میری امی لوگوں کے کپڑے دھوتی ہیں۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ تو دِکھاؤ۔ نوجوان نے ہاتھ اُسے تھمائے جو کہ اِنتہائی نرم و نازک اور نفیس تھے، ہاتھوں کی نزاکت سے تو شائبہ تک نہیں ہوتا تھا کہ نوجوان نے تعلیم کے علاوہ کبھی کوئی اور کام بھی کیا ہوگا۔
مُدیر نے نوجوان سے پوچھا: کیا تم نے کپڑے دھونے میں کبھی اپنی امی کے ہاتھ بٹائے ہیں؟
نوجوان نے انکار میں جواب دیتے ہوئے کہا: نہیں، کبھی نہیں، میری امی ہمیشہ مجھے اپنا سبق یاد کرنے کو کہا کرتی تھیں، اُنکا کہنا تھا کہ کپڑے وہ خود دھو لیں گی۔ میں زیادہ سے زیادہ کُتب کا مطالعہ کرتا تھا، اور پھر میری امی جتنی تیزی اور پُھرتی سے کپڑے دھوتی تھیں میں تو اُتنی تیزی سے دھو بھی نہیں سکتا تھا۔
مُدیر نے نوجوان سے کہا؛ برخوردار، میری ایک شرط ہے کہ تم آج گھر جا کر اپنی امی کے ہاتھ دھوؤ اور کل دوبارہ میرے پاس واپس آؤ تو میں طے کرونگا کہ تمہیں کام پر رکھا جائے کہ نہیں۔
نوجوان کو یہ شرط کُچھ عجیب تو ضرور لگی مگر کام ملنے کے اطمئنان اور خوشی نے اُسے جلد سے جلد گھر جانے پر مجبور کردیا۔
گھر جا کر نوجوان نے اپنی ماں کو سارا قصہ کہہ سُنایا اور ساتھ ہی اُسے جلدی سے ہاتھ دھلوانے کو کہا۔ آخر نوکری کا ملنا اس شرط سے جُڑا ہوا تھا۔
نوجوان کی ماں نے خوشی تو محسوس کی، مگر ساتھ ہی اُسے یہ شرط عجیب بھی لگ رہی تھی۔ ذہن میں طرح طرح کے وسوسے اور خیالات آ رہے تھے کہ آخر نوکری کیلئے یہ کِس قسم کی شرط تھی؟ مگر اِس سب کے باوجود اُس نے اپنے ہاتھ بیٹے کی طرف بڑھا دیئے۔
نوجوان نے آہستگی سے ماں کے ہاتھ دھونا شروع کیئے، کرخت ہاتھ صاف بتا رہے تھے کہ اِنہوں نے بہت مشقت کی تھی۔ نوجوان کی آنکھو سے آنسو رواں ہو گئے۔ آج پہلی بار اُسے اپنی ماں کے ہاتھوں سے اُس طویل محنت کا ندازہ ہو رہا تھا جو اُس نے اپنےاِس بیٹے کی تعلیم اور بہتر مُستقبل کیلئے کی تھی۔
ہاتھ انتہائی کُھردے تو تھے ہی اور ساتھ ہی بہت سی گانٹھیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ آج نوجوان کو پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کھردرا پن اگر اُسکی تعلیم کی قیمت چُکاتے چُکاتے ہوا تھا تو گانٹھیں اُسکی ڈگریوں کی قیمت کے طور پر پڑی تھیں۔ نوجوان ہاتھ دھونے سے فراغت پا کر خاموش سے اُٹھا اور نم آنکھوں سے ماں کے رکھے ہوئے باقی کپڑے دھونے لگ گیا۔ 

Today's Joke : Dal hi gir gai..

گھر میں کھانے کے لئے صرف دال موجود تھی اور مہینے کے آخری دن چل رہے تھے
سرکاری ملازم کوئی اچھا کھانا ان تاریخوں میں پکانا افورڈنہیں کر سکتا تھا۔
کہ اچانک گھر میں ایک مہمان آن ٹپکا،


میاں بیوی بہت پریشان ہوئے کہ اب کیا کیا جائے۔

پھر انہوں نے منصوبہ بنایا

بیوی نے کہا کہ میں مہمان کے پاس بیٹھتی ہوں۔

تم کچن میں‌جا کر کوئی چیز گرا دینا

میں‌پوچھوں گی کہ کیا ہوا تم کہنا بیگم قورمہ گرگیا ہے۔

میں کہوں گی کہ چلو کوئی بات نہیں تم بریانی لے آؤ۔

تھوڑی دیر بعد تم کوئی اور چیز گرا دینا۔

میں پوچھوں کی کہ کیا ہوا تم کہنا بیگم بریانی بھی گر گئی ہے۔

میں کہوں اچھا چلو دیکھو دال پڑی ہو گی وہی لے آؤ۔


بیگم مہمان کے پاس جا کر بیٹھ گئی،

تھوڑی دیر بعد کچن سے کچھ کرنے کی آواز آئی۔

بیگم نے پوچھا کیا ہوا۔

اندر سے میاں کی روہانسی آواز آئی۔

۔

۔

۔

۔

۔

۔

۔

۔

۔

بیگم دال والی دیگچی ہی گرگئی ہے۔ 

Maa

دسمبر کی ایک سہ پہر میں سکول سے نکلا تو آسمان پر کالے بادل چھا ئے ہوئے تھے ۔میں نے سوچا بارش آنے سے پہلے گھر پہنچ جاؤں گا ۔ابھی آدھا بھی فاصلہ طے نہیں ہوا تھا کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ سارے کپڑے بھیگ گئے کانپتا ہوا گھر پہنچا گیٹ پر ہی
 بھائی مل گیا بھائی نے کہا۔موصوف نظر نہیں آرہا تھا کہ بارش ہو رہی ہے بھیگ بھاگ کر آ گئے ہو ،
میں سر جھکائے اندر چلا گیا چھوٹی بہن کی مجھ پر نظر پڑی تو کہنے لگی
تھوڑی دیر رک جا تے ۔ بارش تھم جا تی ۔ تب نکل آتے۔
ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہی ابا جی سے سامنا ہو گیا ،میں نے سلام کیا تو ابا جی نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولے بیٹا بہت شوق ہے بارش میں بھیگنے کا۔ ٹھنڈ لگے گی تو لگ پتہ جائے گا۔
میری آوازسن کر ماں جی آ گئی ۔ میرے سر پر تولیہ رکھ کر بولی
کم بخت بارش تھوڑی دیر رک نہیں سکتی تھی کہ میرا لال گھر پہنچ جاتا تو پھر آجا تی ۔
اور
اور پانی میرے گالوں پر سے ہوتا ہوا نیچے گرنے لگا
مگر وہ بارش کا پانی نہیں تھا۔"

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Do Bol Muhabbat Kay

یہ جو مرید ہوتے ہیں ان میں جو اچھے باصفا اور نوجوان مرید ہوتے ہیں، وہ بڑے طاقتور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مرشد گرو یا پیر سے بڑے سخت سوال پوچھتے ہیں۔
ایک روز ہم ڈیرے پر بیٹھے تھے کہ ایک اچھی پگڑی باندھنے والے شائستہ قسم کے مرید نے پوچھا کہ، " بابا جی، بات یہ ہے کہ انسان اپنی کوشش اور محنت سے کہیں نہیں پہنچتا، اس کے اوپر ایک خاص قسم کا کرم ہوتا ہے، اسے کوئی خاص چیز عطا کر دی جاتی ہے، پھر وہ اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو جاتا ہے"۔
اس پر بابا جی نے کہا شاباش تم ٹھیک کہہ رہے، وہ شخص بات سن کر بہت ہی خوش ہوا۔ ایک دوسرا مرید یہ سب باتیں سن رہا تھا وہ زرا تگڑا آدمی تھا، اس نے کہا کہ یہ بات غلط ہے۔
"انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے، اپنی جدوجہد سے ملتا ہے، اسے کچھ پانے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے، اسے حکم  کو ماننا پڑتا ہے،  تعمیل کرنی پڑتی ہے"۔ اس نے کہا، "پیغمبروں کو بھی ایک مخصوص طریقہ پر چلنا پڑا، اور کوشش کرنی پڑی پھر جا کر ایک مقام ملا، ایسے ہی مقام نہیں ملا کرتے"۔ بابا جی نے، اسے بھی کہا کہ شاباش، تم بھی درست کہتے ہو۔
وہاں پر، ایک تیسرا مرید جو کہ لنگر کے برتن صاف کر رہا تھا، اسے یہ سن کر بہت عجیب لگا اور کہنے لگا، "بابا جی، آپ نے تو حد ہی کر دی۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دونوں کی بات ٹھیک ہو، کسی ایک کی بات تو غلط ہونی چاہیے"۔
یہ سن کر بابا جی نے کہا، "شاباش، تم بھی ٹھیک کہتے ہو، یہ زندگی کی بات ہے، جو بندے کی پکڑ میں نہیں آتی اور یہ جس کی پکڑ میں آتی ہے، وہ اس کی سوچ، کوشش اور دانش کے رویے کے مطابق اس کے ہاتھوں میں بنتی رہتی ہے"۔
زاویہ سوئم کے باب "دو بول محبت کے"، صفحہ ۵۰ سے اقتباس




Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Mout Ki Haqeeqat

میرے چچا کے دوست کا ایک جوان سال بیٹا کسی وجہ سے فوت ہوگیا اکیلا ہی اس کا بیٹا تھا اور وہ بڑا صوفی آدمی تھا - میرے چچا نے نمائندے کی طور پر مجھے بھیجا کہ جا کے تم افسوس کر کے آؤ اور کہنا کہ جوں ہی میں ٹھیک ہوا، میری صحت بحال ہوئی، میں خود حاضری دونگا - جب میں وہاں گیا تو بہت سے لوگ جمع تھے اور وہ چارپائی پی بیٹھے تھے میں جب ان کے قریب گیا تو انھوں نے پہچانا - اور مجھے کہنے لگے، اشفاق میاں دیکھو ہم جیت گئے اور سب دنیا ہار گئی، ہم کامیاب ہوگئے اور باقی کے سب لوگ، بڑے بڑے ڈاکٹر، بڑے حکیم، اور بڑے بڑے نامی گرامی طبیب ہار گئے - میں پریشان کھڑا تھا، ان کے سامنے کہ یہ کیا بات کہ رہے ہیں - کہنے لگے، دیکھئے ہمارا یار جیت گیا اور سارے ڈاکٹر فیل ہوگئے - ہم ایک طرف تھے اور یہ لوگ سارے ایک طرف تھے - وہی ہوا جو ہمارے یار نے چاہا اور جو اس نے چاہا تھا ، وہی ہم نے چاہا -
 میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے ۔ میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، ایک اکلوتا اس کا بیٹا، جواں سال، اور بار بار یہی بات کہ رہا ہے - کچھ وقت، ایسی کیفیت درد کی اور کرب اور الم کی بھی بن سکتی ہے لیکن یہ انداز بتا رہا تھا کہ وہ یہ بات اندر سے کہ رہے ہیں اور اس کے اوپر ان کا پورا ایمان ہے اور وہ ہل نہیں رہیں ہیں اس مقام سے - اور کہتے تھے جو الله نے کیا وہی درست اور وہی ٹھیک ہوگا جو الله کریگا - اور چونکہ ہم الله کی سائیڈ کے ہیں اس لئے جب الله کامیاب ہوتا ہے اور وہ ہر بار کامیاب ہوتا ہے ، تو ہم کامیاب ہو گئے ہیں - یہ میرے لئے ایک عجیب بات تھی - میں اس وقت ایف - اے کر چکا تھا، لیکن نہ میرے پاس الفاظ تھے ، نے میں بڑے سلیقے سے ان کے ساتھ افسوس کر سکتا تھا جس کے لئے مجھے بھیجا گیا تھا - افسوس کے لئے میں چپ چاپ کھڑا رہا - انھوں نے چائے پلائی ، کھانا وہاں کھلانے کا رواج تھا - اگلے دن واپس آئے - میں نے آ کر ساری بات چچا سے کہی - انھوں نے کہا کہ وہ بہت مضبوط ، اور الله کو ماننے والے شخص ہیں۔

از اشفاق احمد زاویہ موت کی حقیقت صفحہ 137



Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Baba Ratan Hindi

ہمارے یہاں قریب ہی بھارت میں ایک جگہ ہے جسے بٹھندہ کہتے ہیں - صدیوں پہلے اس شہر میں ریت کے میداں میں شام کو نوجوان اکٹھے ہوتے تھے ، اور اپنے اس زمانے کی ( بہت عرصہ بہت صدیاں پہلے کی بات کر رہا ہوں ) کھیلیں کھیلتے تھے - ایک دفعہ کہانیاں کہتے کہتے کسی ایک نوجوان لڑکے نے اپنے ساتھیوں سے یہ ذکر کیا کہ اس دھرتی پر ایک "اوتار" آیا ہے - لیکن ہمیں پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے - اس کے ایک ساتھی " رتن ناتھ " نے کہا : " تجھے جگہ کا پتا نہیں ہے " اس نے کہا مجھے معلوم نہیں لیکن یہ بات دنیا والے جان گئے ہیں کہ ایک " اوتار " اس دھرتے پے تشریف لایا ہے ۔
اب رتن ناتھ کے دل میں " کھد بد " شروع ہو گئی کہ وہ کونسا علاقہ ہے اور کدھر یہ "اوتار " آیا ہے اور میری زندگی میں یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہوگی اور میں کتنا خوش قسمت ہونگا اگر " اوتار " دنیا میں موجود ہے اور میں اس سے ملوں اور اگر ملا نہ جائے تو یہ بہت کمزوری اور نا مرادی کی بات ہوگی - چنانچہ اس نے ارد گرد سے پتا کیا ، کچھ بڑے بزرگوں نے بتایا کہ وہ عرب میں آیا ہے اور عرب یہاں سے بہت دور ہے وہ رات کو لیٹ کر سوچنے لگا بندہ کیا عرب نہیں جاسکتا - اب وہاں جانے کےذرائع تواس کے پاس تھے نہیں لیکن اس کا تہیہ پکا اور پختہ ہو گیا - اس نے بات نہ کی اور نہ کوئی اعلان ہی کیا - کوئی کتاب رسالہ نہیں پڑھا بلکہ اپنے دل کے اندر اس دیوتا کا روپ اتار لیا کہ میں نے اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا ہے اور میں نے یہ خوش قسمت آدمی بننا ہے۔
وہ چلتا گیا چلتا گیا ، راستہ پوچھتا گیا اور لوگ اسے بتاتے گئے - کچھ لوگوں نے اسے مہمان بھی رکھا ہوگا لیکن ہمارے پاس اس کی ہسٹری موجود نہیں ہے - وہ چلتا چلتا مہینوں کی منزلیں ہفتوں میں طے کرتا مکہ شریف پہنچ گیا -غالباً ایران کے راستے سے اور اب وہ وہاں تڑپتا پھرتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ ایک " اوتار " آیا ہے - اب کچھ لوگ اس کی بات کو لفظی طور پر تو نہیں سمجھتے ہونگے لیکن اس کی تڑپ سے اندازہ ضرور لگایا ہوگا کسی نے اسے بتایا ہوگا کہ وہ اب یہاں نہیں ہے بلکہ یہاں سے آگے تشریف لے جا چکے ہیں اور اس شہر کا نام مدینہ ہے - اس نے کہا میں نے اتنے ہزاروں میل کا سفر کیا ہے یہ مدینہ کونسا دور ہے ، میں یہ ٦٠٠ سو کلو میٹر بھی کر لونگا - ووہ پھر چل پڑا اور آخر کار "مدینہ منورہ " پہنچ گیا -
بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں ، اور کہیں بھی اس کا ذکر اس تفصیل کیساتھ نہیں آتا جس طرح میں عرض کر رہا ہوں - شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رح نے اپنی کتاب میں ایک جملہ لکھا ہے کہ " بابا رتن ہندی " حضور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا ، پھر معلوم نہیں کہ اس کا کیا ہوا " لیکن غالب گمان ہے اور عقل کہتی ہے اور ہم اندازے سے یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں کہ وہ مدینہ شریف میں حضور نبی کریم کی خدمت میں رہا اور حضور کے پسندیدہ لوگوں میں سے تھا - اب وہ کس زبان میں ان سے بات کرتے ہونگے کیسے رابطے کرتے ہونگے اور رتن کس طرح سے مدینہ شریف میں زندگی بسر کرتا ہوگا ؟ کہاں رہتا ہوگا اس کا ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن وہ رہتا وہیں تھا اور وہ کب تک وہاں رہا اس کے بارے میں بھی لوگ نہیں جانتے - اس کی طلب تھی اور اس کی خوش قسمتی تھی اور خوش قسمتی ہمیشہ طلب کے واسطے سے پیدا ہوتی ہے - اگر آپ کی طلب نہ ہو تو خوش قسمتی خود گھر نہیں آتی -
وہ اتنے معزز میزبان کا مہمان ٹھہرا اور وہاں رہا - آپ کو یاد ہوگا جب رسول پاک نبی اکرم مدینہ شریف تشریف لے گئے تو وہاں کی لڑکیوں نے اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر دف پر گانا شروع کر دیا کہ " چاند کدھر سے چڑھا " وہ خوش قسمت لوگ تھے - ایک فکشن رائٹر کے حوالے سے میں یہ سوچتا ہوں کہ اس وقت کوئی ایسا محکمہ پبلک سروس کمیشن کا تو نہیں ہوگا ، اس وقت کوئی پبلک ریلیشن یا فوک لور کا ادارہ بھی نہیں ہوگا کہ لڑکیوں سے کہا جائے کہ تم ٹیلے پر چڑھ کے گانا گاؤ - وہ کونسی خوش نصیب لڑکی ہوگی جس نے اپنے گھر والوں سے یہ ذکر سنا ہوگا ، رات کو برتن مانجھتے یا لکڑیاں بجھاتے ہوئے کہ رسول الله تشریف لا رہے ہیں اور اندازہ ہے کہ عنقریب پہنچ جائیں گے اور پھر اس نے اپنی سہیلیوں سے بات کی ہوگی اور انھوں نے فیصلہ کیا ہوگا کہ جب وہ آئیں گے تو ہم ساری کھڑی ہو کر دف بجائیں گی اور گیت گائیں گی - اب جب حضور کے آنے کا وقت قریب آیا ہوگا تو کسی نے ایک دوسری کو بتایا ہوگا کہ بھاگو ، چلو ، محکمہ تو ہے کوئی نہیں کہ اطلاع مل گئے ہوگی ، یہ طلب کونسی ہوتی ہے ، وہ خوش نصیب لڑکیاں جہاں بھی ہونگی ، وہ کیسے کیسے درجات لے کر بیٹھی ہونگی - انھوں نے خوشی سے دف بجا کر جو گیت گایا اس کے الفاظ ایسے ہیں کہ دل میں اترتے جاتے ہیں - انھیں آنحضور کو دیکھ کر روشنی محسوس ہو رہی ہے ،پھر وہ کونسی جگہ تھی جسے بابا رتن ہندی نے قبول کیا اور سارے دوستوں کو چھوڑ کر اس عرب کے ریتیلے میدان میں وہ اپنی لاٹھی لے کر چل پڑا کہ میں تو " اوتار" سے ملونگا -
بہت سے اور لوگوں نے بھی رتن ہندی پر ریسرچ کی ہے - ایک جرمن اسکالر بھی ان میں شامل ہیں -
جب یہ سب کچھ میں دیکھ چکا اور پڑھ چکا تو پھر میرے دل میں خیال آیا بعض اوقات ایسی حکایتیں بھی بن جاتی ہیں لیکن دل نہیں مانتا تھا - یہ پتا چلتا تھا جرمن ریسرچ سے کہ وہ حضور کے ارشاد پر اور ان کی اجازت لے کر واپس ہندوستان آ گئے-
ہندوستان آئے تو ظاہر ہے وہ اپنے گاؤں ہی گئے ہونگے اور بٹھندا میں ہی انھوں نے قیام کیا ہوگا ،میری سوچ بھی چھوٹی ہے ،درجہ بھی چھوٹا ہے، لیول بھی چھوٹا ہے پھر بھی میں نے کہا الله تو میری مدد کر کہ مجھے اس بارے میں کچھ پتا چل جائے اب تو پاکستان بن چکا ہے میں بٹھندا جا بھی نہیں سکتا اور پوچھوں بھی کس سے ١٤٠٠ برس پہلے کا واقعہ ہے -
کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر مسعود سے میری دوستی ھوگئی - ان سے ملنا ملانا ہوگیا ، وہ گھر آتے رہے ، ملتے رہے ، ان کے والد سے بھی ملاقات ہوئی وہ کسی زمانے میں اسکول ٹیچر رہے تھے - ایک دن باتوں باتوں میں ڈاکٹر مسعود کے والد صاحب نے بتایا کہ میں کافی سال بٹھندا کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہا ہوں - میں نے کہا یا الله یہ کیسا بندہ آپ نے ملوا دیا ، میں نے کہا آپ یہ فرمائیں ماسٹر صاحب کہ وہاں کوئی ایسے آثار تھے کہ جن کا تعلق بابا رتن ہندی کے ساتھ ہو - کہنے لگے ان کا بہت بڑا مزار ہے وہاں پر اور وہاں بڑے چڑھاوے چڑھتے ہیں - ہندو ، مسلمان عورتیں ، مرد آتے ہیں اور تمہارا یہ دوست جو ہے ڈاکٹر مسعود ، میرے گھر ١٣ برس تک اولاد نہیں ہوئی ، میں پڑھا لکھا شخص تھا ، ایسی باتوں پر اعتبار نہیں کرتا تھا جو ان پڑھ کرتے ہیں - لیکن ایک دن جا کر میں بابا رتن ہندی کے مزار پر بڑا رویا - کچھ میں نے کہا نہیں ، نا کچھ بولا - پڑھے لکھ سیانے بندوں کو شرک کا بھی ڈر رہتا ہے ، اس لئے کچھ نہ بولا ، اور مجھے ایسے ہی وہاں جا کر بڑا رونا آگیا - بابا رتن ہندی کی کہانی کا مجھے پتا تھا کہ یہ مدینہ تشریف لے گئے تھے - مزار پر جانے کے بعد میں گھر آ گیا - رات کو مجھے خواب آیا کہ جس میں ہندوستانی انداز کے سفید داڑھی والے بابا جی آئے اور کہنے لگے " لے اپنا کاکا پھڑ لے " ( لو ، اپنا بچہ لو ) یہ الله تعالیٰ نے تمہارے لئے بھیجا ہے - میں نے کہا جی یہ کہاں سے آگیا ، ماسٹر صاحب نے بتایا کہ جب میں نے خواب میں وہ بچہ اٹھایا تو وہ وزنی تھا - میں نے پوچھا " بابا جی آپ کون ہیں " تو وہ کہنے لگے " میں رتن ہندی ہوں " کیا ایسے بے وقوفوں کی طرح رویا کرتے ہیں ، صبر سے چلتے ہیں ، لمبا سفر کرتے ہیں ، ہاتھ میں لاٹھی رکھتے ہیں اور ادب سے جاتے ہیں " 
 ماسٹر صاحب کہنے لگے مجھے سفر اور لاٹھی کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا باتیں ہیں ، میں نے ان سے کہا جی اس کا مصالحہ میرے پاس ہے اور مجھے یقین ہوگیا کہ وہ لڑکیاں جو حضور کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھیں وہ خوش قسمت تھیں - ہم کچھ مصروف ہیں - کچھ ہمارے دل اور طرف مصروف ہیں - ہم اس سفر کو اختیار نہیں کر سکتے لیکن سفر کو اختیار کرنے کی " تانگ " ( آرزو ) ضرور دل میں رہنی چاہیے اور جب دل میں یہ ہو جائے پکا ارادہ اور تہیہ تو پھر راستہ ضرور مل جاتا ہے۔

Ashfaq Ahmad In Zavia 3, Rooh ki sargoshi

خواتین و حضرات ! دعا انسان اور اس کے پروردگار میں ایک خوبصورت رشتہ ہے ، جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ۔ دعا انرجی کی ایک بہت ہی طاقتور قسم ہے جو ایک عام شخص آسانی سے خود میں پیدا کر سکتا ہے ۔ دعا کا انسانی ذہن اور انسانی جسم پر ایسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے غدودوں کے عمل کا ہوتا ہے ۔ 
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ  مسلسل دعا کے بعد بدن میں ایک طرح کی لہر پیدا ہو جاتی ہے ۔
 ذہنی قوت عود  کر آتی ہے ۔  سکون پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور انسانی رشتوں کے گہرے اور دور رس عوامل سمجھ میں آنے لگتے ہیں ۔
سچی عبادت ، دلی دعا ،  اصل مین زندگی کا چلنا ہے ۔ 
سچی اور صراط مستقیم والی زندگی دعا سے معرض وجود میں آتی ہے ۔

اشفاق احمد زاویہ 3  روح کی سرگوشی صفحہ 309 

Ashfaq Ahmad In Baba Sahba

بابا جی کی آواز آئی  تو سیکرٹری صاحب جوتی پہنے بغیر ، ننگے پاؤں ان کی طرف بھاگے ۔ 
میاں مثنوی نے کہا ! " اس طرح سے بھاگنے والے لوگ انعام یافتہ ہوتے ہیں ۔ صاحب اثمار ۔ پھلوں سے لدے ہوئے اور یہ سب معیت کا اثر ہوتا ہے ۔ گھلے ملے ہونے کا ۔ ایک ساتھ ہونے کا " ۔
میں نے  کہا " میاں مجھے تیری بات سمجھ نہیں آئی ،  تو جب بھی بات کرتا ہے پہیلیوں میں کرتا ہے اور تیری پہیلیاں اصل کی نشاندہی  کرنے سےقاصر ہوتی ہیں  " ۔
میاں ہنس پڑا اور تالی بجا کر بولا  " رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع میں داخل ہونا ، مسکینوں اور لرزنے والوں کے ساتھ ہو کر رہنا ہے  "۔
 کیا تو نے دیکھا نہیں !  " پھل نہ درخت کے ڈالے کو لگتا ہے نہ اس کے مضبوط تنے کو  ۔ پھل جب بھی لگتا ہے لرزنے والی شاخ کو لگتا ہے  ، اور جہاں بھی لگتا ہے کانپتی ہوئی ڈالی کو لگتا ہے ۔
جس قدر شاخ رکوع میں جانے والی ہوگی اسی قدر پھل کی زیادہ حامل ہوگی ۔ 
اور فائدہ درخت کو اس کا یہ کہ ، پھل کی وجہ سے ڈالا بھی کلہاڑے سے محفوظ رہتا ہے اور تنا بھی ۔  درخت کی بھی عزت ہوتی ہے  اور درخت کی وجہ سے سارا باغ بھی عزت دار بن جاتا ہے "۔ 

اشفاق احمد  بابا صاحبا  صفحہ 376
 

Ashfaq Ahmad Baba Sahba : Taula Pan

اصل میں لوگ اپنے آپ کو جلد سے جلد بڑا ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔ وہ ایک ایسے محدب شیشے کی تلاش میں ہوتے ہین جو ان کی شخصیت پر رکھ کر انہیں بڑا ثابت کیا جا ئے ۔ 
یہ ضرورت ان کو اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ جلد سے جلد پاپولر ہونا چاہتے ہیں ۔ لیکن تیزی اور تاؤلی سے نہ بڑے آرٹسٹ پیدا ہوتے ہیں نہ بڑے بزرگ ۔ 

اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ 396

Ashfaq Ahmad Baba Sahba : Har waqt maujood, Har jaga maujood

ایک نرس نے مجھے بتایا کہ میری ساری زندگی میں  ایک ہی مریضہ ایسی آئی جو کہ موت سے بےحد خوفزدہ تھی ۔ 
اس نے اپنی بہن کے ساتھ کچھ ایسی زیادتی کی تھی کہ اب اس کا مداوا کچھ مشکل تھا ۔ 
جو لوگ عمرہ کے سفر پر جانے سے پہلے معافیاں مانگ لیتے ہیں ،  تو وہ خوش خوش روانہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح آخرت کے سفر پر جانے سے پہلے جنہوں نے  روانگی کے کاغذات پر معافی کا ویزا لگوا  لیا ہوتا ہے ان کی آنکھوں میں ایک عجب طرح کی لچک ہوتی ہے اور وہ عجیب خوشگوار اور خوبصورتی سے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔ 

ہمارے بابے کہتے ہیں کہ بندے کا گناہ اللہ کے گناہ کے مقابلے میں بہت بڑا اور بہت سخت ہوتا ہے  ۔ اگر آپ کسی انسان کو تکلیف پہنچاتے ہیں ،  اور اس کی نا خوشی کا موجب بنتے ہیں پھر جب کبھی آپ کو ہوش آتا ہے اور آپ معافی مانگنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو اس آدمی کا کوئی سراغ ہی نہیں ملتا کہ کدہر سے آیا تھا اور کدہر گیا ۔
لیکن اگر آپ خدا کا کوئی قصور کرتے ہیں ، کوئی اللہ کا گناہ آپ سے سرزد ہو تا ہے تو اللہ سے بڑی آسانی سے معافی مانگ لیتے ہیں کہ  وہ ہر وقت موجو د ہے اور ہر جگہ  موجود ہے  ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ 399 


Ashfaq Ahmad Baba Sahba : Hair

اصل خیر یہ نہیں بیٹا کہ کسی بھوکے کو دیکھ کر  ایک روپے سے اس کی مدد کر دی ،  بلکہ اصل خیر  بھوکے کو اس وقت روپیہ دینا ہے  جب تم کو بھی ویسی ہی بھوک لگی ہو  اور تم کو بھی اس روپے کی ویسی ہی ضرورت ہو جیسی اس کو ہے ۔
 اچھائی اور خیر ان اعمال کے تابع نہیں جو ہم کرتے ہیں  بلکہ اس کا تعلق اندر سے ہے کہ ہم ہیں کیسے ۔ ؟

اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ 516