Showing posts with label Tawakal. Show all posts
Showing posts with label Tawakal. Show all posts

Wednesday, October 17, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Do Bol Muhabbat Kay

یہ جو مرید ہوتے ہیں ان میں جو اچھے باصفا اور نوجوان مرید ہوتے ہیں، وہ بڑے طاقتور ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مرشد گرو یا پیر سے بڑے سخت سوال پوچھتے ہیں۔
ایک روز ہم ڈیرے پر بیٹھے تھے کہ ایک اچھی پگڑی باندھنے والے شائستہ قسم کے مرید نے پوچھا کہ، " بابا جی، بات یہ ہے کہ انسان اپنی کوشش اور محنت سے کہیں نہیں پہنچتا، اس کے اوپر ایک خاص قسم کا کرم ہوتا ہے، اسے کوئی خاص چیز عطا کر دی جاتی ہے، پھر وہ اس اعلیٰ مقام پر فائز ہو جاتا ہے"۔
اس پر بابا جی نے کہا شاباش تم ٹھیک کہہ رہے، وہ شخص بات سن کر بہت ہی خوش ہوا۔ ایک دوسرا مرید یہ سب باتیں سن رہا تھا وہ زرا تگڑا آدمی تھا، اس نے کہا کہ یہ بات غلط ہے۔
"انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے، اپنی جدوجہد سے ملتا ہے، اسے کچھ پانے کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے، اسے حکم  کو ماننا پڑتا ہے،  تعمیل کرنی پڑتی ہے"۔ اس نے کہا، "پیغمبروں کو بھی ایک مخصوص طریقہ پر چلنا پڑا، اور کوشش کرنی پڑی پھر جا کر ایک مقام ملا، ایسے ہی مقام نہیں ملا کرتے"۔ بابا جی نے، اسے بھی کہا کہ شاباش، تم بھی درست کہتے ہو۔
وہاں پر، ایک تیسرا مرید جو کہ لنگر کے برتن صاف کر رہا تھا، اسے یہ سن کر بہت عجیب لگا اور کہنے لگا، "بابا جی، آپ نے تو حد ہی کر دی۔ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ دونوں کی بات ٹھیک ہو، کسی ایک کی بات تو غلط ہونی چاہیے"۔
یہ سن کر بابا جی نے کہا، "شاباش، تم بھی ٹھیک کہتے ہو، یہ زندگی کی بات ہے، جو بندے کی پکڑ میں نہیں آتی اور یہ جس کی پکڑ میں آتی ہے، وہ اس کی سوچ، کوشش اور دانش کے رویے کے مطابق اس کے ہاتھوں میں بنتی رہتی ہے"۔
زاویہ سوئم کے باب "دو بول محبت کے"، صفحہ ۵۰ سے اقتباس




Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Mout Ki Haqeeqat

میرے چچا کے دوست کا ایک جوان سال بیٹا کسی وجہ سے فوت ہوگیا اکیلا ہی اس کا بیٹا تھا اور وہ بڑا صوفی آدمی تھا - میرے چچا نے نمائندے کی طور پر مجھے بھیجا کہ جا کے تم افسوس کر کے آؤ اور کہنا کہ جوں ہی میں ٹھیک ہوا، میری صحت بحال ہوئی، میں خود حاضری دونگا - جب میں وہاں گیا تو بہت سے لوگ جمع تھے اور وہ چارپائی پی بیٹھے تھے میں جب ان کے قریب گیا تو انھوں نے پہچانا - اور مجھے کہنے لگے، اشفاق میاں دیکھو ہم جیت گئے اور سب دنیا ہار گئی، ہم کامیاب ہوگئے اور باقی کے سب لوگ، بڑے بڑے ڈاکٹر، بڑے حکیم، اور بڑے بڑے نامی گرامی طبیب ہار گئے - میں پریشان کھڑا تھا، ان کے سامنے کہ یہ کیا بات کہ رہے ہیں - کہنے لگے، دیکھئے ہمارا یار جیت گیا اور سارے ڈاکٹر فیل ہوگئے - ہم ایک طرف تھے اور یہ لوگ سارے ایک طرف تھے - وہی ہوا جو ہمارے یار نے چاہا اور جو اس نے چاہا تھا ، وہی ہم نے چاہا -
 میرے رونگھٹے کھڑے ہو گئے ۔ میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، ایک اکلوتا اس کا بیٹا، جواں سال، اور بار بار یہی بات کہ رہا ہے - کچھ وقت، ایسی کیفیت درد کی اور کرب اور الم کی بھی بن سکتی ہے لیکن یہ انداز بتا رہا تھا کہ وہ یہ بات اندر سے کہ رہے ہیں اور اس کے اوپر ان کا پورا ایمان ہے اور وہ ہل نہیں رہیں ہیں اس مقام سے - اور کہتے تھے جو الله نے کیا وہی درست اور وہی ٹھیک ہوگا جو الله کریگا - اور چونکہ ہم الله کی سائیڈ کے ہیں اس لئے جب الله کامیاب ہوتا ہے اور وہ ہر بار کامیاب ہوتا ہے ، تو ہم کامیاب ہو گئے ہیں - یہ میرے لئے ایک عجیب بات تھی - میں اس وقت ایف - اے کر چکا تھا، لیکن نہ میرے پاس الفاظ تھے ، نے میں بڑے سلیقے سے ان کے ساتھ افسوس کر سکتا تھا جس کے لئے مجھے بھیجا گیا تھا - افسوس کے لئے میں چپ چاپ کھڑا رہا - انھوں نے چائے پلائی ، کھانا وہاں کھلانے کا رواج تھا - اگلے دن واپس آئے - میں نے آ کر ساری بات چچا سے کہی - انھوں نے کہا کہ وہ بہت مضبوط ، اور الله کو ماننے والے شخص ہیں۔

از اشفاق احمد زاویہ موت کی حقیقت صفحہ 137



Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Baba Ratan Hindi

ہمارے یہاں قریب ہی بھارت میں ایک جگہ ہے جسے بٹھندہ کہتے ہیں - صدیوں پہلے اس شہر میں ریت کے میداں میں شام کو نوجوان اکٹھے ہوتے تھے ، اور اپنے اس زمانے کی ( بہت عرصہ بہت صدیاں پہلے کی بات کر رہا ہوں ) کھیلیں کھیلتے تھے - ایک دفعہ کہانیاں کہتے کہتے کسی ایک نوجوان لڑکے نے اپنے ساتھیوں سے یہ ذکر کیا کہ اس دھرتی پر ایک "اوتار" آیا ہے - لیکن ہمیں پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے - اس کے ایک ساتھی " رتن ناتھ " نے کہا : " تجھے جگہ کا پتا نہیں ہے " اس نے کہا مجھے معلوم نہیں لیکن یہ بات دنیا والے جان گئے ہیں کہ ایک " اوتار " اس دھرتے پے تشریف لایا ہے ۔
اب رتن ناتھ کے دل میں " کھد بد " شروع ہو گئی کہ وہ کونسا علاقہ ہے اور کدھر یہ "اوتار " آیا ہے اور میری زندگی میں یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہوگی اور میں کتنا خوش قسمت ہونگا اگر " اوتار " دنیا میں موجود ہے اور میں اس سے ملوں اور اگر ملا نہ جائے تو یہ بہت کمزوری اور نا مرادی کی بات ہوگی - چنانچہ اس نے ارد گرد سے پتا کیا ، کچھ بڑے بزرگوں نے بتایا کہ وہ عرب میں آیا ہے اور عرب یہاں سے بہت دور ہے وہ رات کو لیٹ کر سوچنے لگا بندہ کیا عرب نہیں جاسکتا - اب وہاں جانے کےذرائع تواس کے پاس تھے نہیں لیکن اس کا تہیہ پکا اور پختہ ہو گیا - اس نے بات نہ کی اور نہ کوئی اعلان ہی کیا - کوئی کتاب رسالہ نہیں پڑھا بلکہ اپنے دل کے اندر اس دیوتا کا روپ اتار لیا کہ میں نے اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا ہے اور میں نے یہ خوش قسمت آدمی بننا ہے۔
وہ چلتا گیا چلتا گیا ، راستہ پوچھتا گیا اور لوگ اسے بتاتے گئے - کچھ لوگوں نے اسے مہمان بھی رکھا ہوگا لیکن ہمارے پاس اس کی ہسٹری موجود نہیں ہے - وہ چلتا چلتا مہینوں کی منزلیں ہفتوں میں طے کرتا مکہ شریف پہنچ گیا -غالباً ایران کے راستے سے اور اب وہ وہاں تڑپتا پھرتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ ایک " اوتار " آیا ہے - اب کچھ لوگ اس کی بات کو لفظی طور پر تو نہیں سمجھتے ہونگے لیکن اس کی تڑپ سے اندازہ ضرور لگایا ہوگا کسی نے اسے بتایا ہوگا کہ وہ اب یہاں نہیں ہے بلکہ یہاں سے آگے تشریف لے جا چکے ہیں اور اس شہر کا نام مدینہ ہے - اس نے کہا میں نے اتنے ہزاروں میل کا سفر کیا ہے یہ مدینہ کونسا دور ہے ، میں یہ ٦٠٠ سو کلو میٹر بھی کر لونگا - ووہ پھر چل پڑا اور آخر کار "مدینہ منورہ " پہنچ گیا -
بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں ، اور کہیں بھی اس کا ذکر اس تفصیل کیساتھ نہیں آتا جس طرح میں عرض کر رہا ہوں - شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رح نے اپنی کتاب میں ایک جملہ لکھا ہے کہ " بابا رتن ہندی " حضور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا ، پھر معلوم نہیں کہ اس کا کیا ہوا " لیکن غالب گمان ہے اور عقل کہتی ہے اور ہم اندازے سے یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں کہ وہ مدینہ شریف میں حضور نبی کریم کی خدمت میں رہا اور حضور کے پسندیدہ لوگوں میں سے تھا - اب وہ کس زبان میں ان سے بات کرتے ہونگے کیسے رابطے کرتے ہونگے اور رتن کس طرح سے مدینہ شریف میں زندگی بسر کرتا ہوگا ؟ کہاں رہتا ہوگا اس کا ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن وہ رہتا وہیں تھا اور وہ کب تک وہاں رہا اس کے بارے میں بھی لوگ نہیں جانتے - اس کی طلب تھی اور اس کی خوش قسمتی تھی اور خوش قسمتی ہمیشہ طلب کے واسطے سے پیدا ہوتی ہے - اگر آپ کی طلب نہ ہو تو خوش قسمتی خود گھر نہیں آتی -
وہ اتنے معزز میزبان کا مہمان ٹھہرا اور وہاں رہا - آپ کو یاد ہوگا جب رسول پاک نبی اکرم مدینہ شریف تشریف لے گئے تو وہاں کی لڑکیوں نے اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر دف پر گانا شروع کر دیا کہ " چاند کدھر سے چڑھا " وہ خوش قسمت لوگ تھے - ایک فکشن رائٹر کے حوالے سے میں یہ سوچتا ہوں کہ اس وقت کوئی ایسا محکمہ پبلک سروس کمیشن کا تو نہیں ہوگا ، اس وقت کوئی پبلک ریلیشن یا فوک لور کا ادارہ بھی نہیں ہوگا کہ لڑکیوں سے کہا جائے کہ تم ٹیلے پر چڑھ کے گانا گاؤ - وہ کونسی خوش نصیب لڑکی ہوگی جس نے اپنے گھر والوں سے یہ ذکر سنا ہوگا ، رات کو برتن مانجھتے یا لکڑیاں بجھاتے ہوئے کہ رسول الله تشریف لا رہے ہیں اور اندازہ ہے کہ عنقریب پہنچ جائیں گے اور پھر اس نے اپنی سہیلیوں سے بات کی ہوگی اور انھوں نے فیصلہ کیا ہوگا کہ جب وہ آئیں گے تو ہم ساری کھڑی ہو کر دف بجائیں گی اور گیت گائیں گی - اب جب حضور کے آنے کا وقت قریب آیا ہوگا تو کسی نے ایک دوسری کو بتایا ہوگا کہ بھاگو ، چلو ، محکمہ تو ہے کوئی نہیں کہ اطلاع مل گئے ہوگی ، یہ طلب کونسی ہوتی ہے ، وہ خوش نصیب لڑکیاں جہاں بھی ہونگی ، وہ کیسے کیسے درجات لے کر بیٹھی ہونگی - انھوں نے خوشی سے دف بجا کر جو گیت گایا اس کے الفاظ ایسے ہیں کہ دل میں اترتے جاتے ہیں - انھیں آنحضور کو دیکھ کر روشنی محسوس ہو رہی ہے ،پھر وہ کونسی جگہ تھی جسے بابا رتن ہندی نے قبول کیا اور سارے دوستوں کو چھوڑ کر اس عرب کے ریتیلے میدان میں وہ اپنی لاٹھی لے کر چل پڑا کہ میں تو " اوتار" سے ملونگا -
بہت سے اور لوگوں نے بھی رتن ہندی پر ریسرچ کی ہے - ایک جرمن اسکالر بھی ان میں شامل ہیں -
جب یہ سب کچھ میں دیکھ چکا اور پڑھ چکا تو پھر میرے دل میں خیال آیا بعض اوقات ایسی حکایتیں بھی بن جاتی ہیں لیکن دل نہیں مانتا تھا - یہ پتا چلتا تھا جرمن ریسرچ سے کہ وہ حضور کے ارشاد پر اور ان کی اجازت لے کر واپس ہندوستان آ گئے-
ہندوستان آئے تو ظاہر ہے وہ اپنے گاؤں ہی گئے ہونگے اور بٹھندا میں ہی انھوں نے قیام کیا ہوگا ،میری سوچ بھی چھوٹی ہے ،درجہ بھی چھوٹا ہے، لیول بھی چھوٹا ہے پھر بھی میں نے کہا الله تو میری مدد کر کہ مجھے اس بارے میں کچھ پتا چل جائے اب تو پاکستان بن چکا ہے میں بٹھندا جا بھی نہیں سکتا اور پوچھوں بھی کس سے ١٤٠٠ برس پہلے کا واقعہ ہے -
کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر مسعود سے میری دوستی ھوگئی - ان سے ملنا ملانا ہوگیا ، وہ گھر آتے رہے ، ملتے رہے ، ان کے والد سے بھی ملاقات ہوئی وہ کسی زمانے میں اسکول ٹیچر رہے تھے - ایک دن باتوں باتوں میں ڈاکٹر مسعود کے والد صاحب نے بتایا کہ میں کافی سال بٹھندا کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہا ہوں - میں نے کہا یا الله یہ کیسا بندہ آپ نے ملوا دیا ، میں نے کہا آپ یہ فرمائیں ماسٹر صاحب کہ وہاں کوئی ایسے آثار تھے کہ جن کا تعلق بابا رتن ہندی کے ساتھ ہو - کہنے لگے ان کا بہت بڑا مزار ہے وہاں پر اور وہاں بڑے چڑھاوے چڑھتے ہیں - ہندو ، مسلمان عورتیں ، مرد آتے ہیں اور تمہارا یہ دوست جو ہے ڈاکٹر مسعود ، میرے گھر ١٣ برس تک اولاد نہیں ہوئی ، میں پڑھا لکھا شخص تھا ، ایسی باتوں پر اعتبار نہیں کرتا تھا جو ان پڑھ کرتے ہیں - لیکن ایک دن جا کر میں بابا رتن ہندی کے مزار پر بڑا رویا - کچھ میں نے کہا نہیں ، نا کچھ بولا - پڑھے لکھ سیانے بندوں کو شرک کا بھی ڈر رہتا ہے ، اس لئے کچھ نہ بولا ، اور مجھے ایسے ہی وہاں جا کر بڑا رونا آگیا - بابا رتن ہندی کی کہانی کا مجھے پتا تھا کہ یہ مدینہ تشریف لے گئے تھے - مزار پر جانے کے بعد میں گھر آ گیا - رات کو مجھے خواب آیا کہ جس میں ہندوستانی انداز کے سفید داڑھی والے بابا جی آئے اور کہنے لگے " لے اپنا کاکا پھڑ لے " ( لو ، اپنا بچہ لو ) یہ الله تعالیٰ نے تمہارے لئے بھیجا ہے - میں نے کہا جی یہ کہاں سے آگیا ، ماسٹر صاحب نے بتایا کہ جب میں نے خواب میں وہ بچہ اٹھایا تو وہ وزنی تھا - میں نے پوچھا " بابا جی آپ کون ہیں " تو وہ کہنے لگے " میں رتن ہندی ہوں " کیا ایسے بے وقوفوں کی طرح رویا کرتے ہیں ، صبر سے چلتے ہیں ، لمبا سفر کرتے ہیں ، ہاتھ میں لاٹھی رکھتے ہیں اور ادب سے جاتے ہیں " 
 ماسٹر صاحب کہنے لگے مجھے سفر اور لاٹھی کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا باتیں ہیں ، میں نے ان سے کہا جی اس کا مصالحہ میرے پاس ہے اور مجھے یقین ہوگیا کہ وہ لڑکیاں جو حضور کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھیں وہ خوش قسمت تھیں - ہم کچھ مصروف ہیں - کچھ ہمارے دل اور طرف مصروف ہیں - ہم اس سفر کو اختیار نہیں کر سکتے لیکن سفر کو اختیار کرنے کی " تانگ " ( آرزو ) ضرور دل میں رہنی چاہیے اور جب دل میں یہ ہو جائے پکا ارادہ اور تہیہ تو پھر راستہ ضرور مل جاتا ہے۔

Ashfaq Ahmad In Zavia 3, Rooh ki sargoshi

خواتین و حضرات ! دعا انسان اور اس کے پروردگار میں ایک خوبصورت رشتہ ہے ، جو ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا ۔ دعا انرجی کی ایک بہت ہی طاقتور قسم ہے جو ایک عام شخص آسانی سے خود میں پیدا کر سکتا ہے ۔ دعا کا انسانی ذہن اور انسانی جسم پر ایسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے غدودوں کے عمل کا ہوتا ہے ۔ 
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ  مسلسل دعا کے بعد بدن میں ایک طرح کی لہر پیدا ہو جاتی ہے ۔
 ذہنی قوت عود  کر آتی ہے ۔  سکون پیدا ہو جاتا ہے ۔ اور انسانی رشتوں کے گہرے اور دور رس عوامل سمجھ میں آنے لگتے ہیں ۔
سچی عبادت ، دلی دعا ،  اصل مین زندگی کا چلنا ہے ۔ 
سچی اور صراط مستقیم والی زندگی دعا سے معرض وجود میں آتی ہے ۔

اشفاق احمد زاویہ 3  روح کی سرگوشی صفحہ 309 

Ashfaq Ahmad In Baba Sahba

بابا جی کی آواز آئی  تو سیکرٹری صاحب جوتی پہنے بغیر ، ننگے پاؤں ان کی طرف بھاگے ۔ 
میاں مثنوی نے کہا ! " اس طرح سے بھاگنے والے لوگ انعام یافتہ ہوتے ہیں ۔ صاحب اثمار ۔ پھلوں سے لدے ہوئے اور یہ سب معیت کا اثر ہوتا ہے ۔ گھلے ملے ہونے کا ۔ ایک ساتھ ہونے کا " ۔
میں نے  کہا " میاں مجھے تیری بات سمجھ نہیں آئی ،  تو جب بھی بات کرتا ہے پہیلیوں میں کرتا ہے اور تیری پہیلیاں اصل کی نشاندہی  کرنے سےقاصر ہوتی ہیں  " ۔
میاں ہنس پڑا اور تالی بجا کر بولا  " رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع میں داخل ہونا ، مسکینوں اور لرزنے والوں کے ساتھ ہو کر رہنا ہے  "۔
 کیا تو نے دیکھا نہیں !  " پھل نہ درخت کے ڈالے کو لگتا ہے نہ اس کے مضبوط تنے کو  ۔ پھل جب بھی لگتا ہے لرزنے والی شاخ کو لگتا ہے  ، اور جہاں بھی لگتا ہے کانپتی ہوئی ڈالی کو لگتا ہے ۔
جس قدر شاخ رکوع میں جانے والی ہوگی اسی قدر پھل کی زیادہ حامل ہوگی ۔ 
اور فائدہ درخت کو اس کا یہ کہ ، پھل کی وجہ سے ڈالا بھی کلہاڑے سے محفوظ رہتا ہے اور تنا بھی ۔  درخت کی بھی عزت ہوتی ہے  اور درخت کی وجہ سے سارا باغ بھی عزت دار بن جاتا ہے "۔ 

اشفاق احمد  بابا صاحبا  صفحہ 376
 

Ashfaq Ahmad Baba Sahba : Taula Pan

اصل میں لوگ اپنے آپ کو جلد سے جلد بڑا ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں ۔ وہ ایک ایسے محدب شیشے کی تلاش میں ہوتے ہین جو ان کی شخصیت پر رکھ کر انہیں بڑا ثابت کیا جا ئے ۔ 
یہ ضرورت ان کو اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ جلد سے جلد پاپولر ہونا چاہتے ہیں ۔ لیکن تیزی اور تاؤلی سے نہ بڑے آرٹسٹ پیدا ہوتے ہیں نہ بڑے بزرگ ۔ 

اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ 396

Ashfaq Ahmad Baba Sahba : Har waqt maujood, Har jaga maujood

ایک نرس نے مجھے بتایا کہ میری ساری زندگی میں  ایک ہی مریضہ ایسی آئی جو کہ موت سے بےحد خوفزدہ تھی ۔ 
اس نے اپنی بہن کے ساتھ کچھ ایسی زیادتی کی تھی کہ اب اس کا مداوا کچھ مشکل تھا ۔ 
جو لوگ عمرہ کے سفر پر جانے سے پہلے معافیاں مانگ لیتے ہیں ،  تو وہ خوش خوش روانہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح آخرت کے سفر پر جانے سے پہلے جنہوں نے  روانگی کے کاغذات پر معافی کا ویزا لگوا  لیا ہوتا ہے ان کی آنکھوں میں ایک عجب طرح کی لچک ہوتی ہے اور وہ عجیب خوشگوار اور خوبصورتی سے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔ 

ہمارے بابے کہتے ہیں کہ بندے کا گناہ اللہ کے گناہ کے مقابلے میں بہت بڑا اور بہت سخت ہوتا ہے  ۔ اگر آپ کسی انسان کو تکلیف پہنچاتے ہیں ،  اور اس کی نا خوشی کا موجب بنتے ہیں پھر جب کبھی آپ کو ہوش آتا ہے اور آپ معافی مانگنے کے موڈ میں ہوتے ہیں تو اس آدمی کا کوئی سراغ ہی نہیں ملتا کہ کدہر سے آیا تھا اور کدہر گیا ۔
لیکن اگر آپ خدا کا کوئی قصور کرتے ہیں ، کوئی اللہ کا گناہ آپ سے سرزد ہو تا ہے تو اللہ سے بڑی آسانی سے معافی مانگ لیتے ہیں کہ  وہ ہر وقت موجو د ہے اور ہر جگہ  موجود ہے  ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ 399 


Ashfaq Ahmad Baba Sahba : Hair

اصل خیر یہ نہیں بیٹا کہ کسی بھوکے کو دیکھ کر  ایک روپے سے اس کی مدد کر دی ،  بلکہ اصل خیر  بھوکے کو اس وقت روپیہ دینا ہے  جب تم کو بھی ویسی ہی بھوک لگی ہو  اور تم کو بھی اس روپے کی ویسی ہی ضرورت ہو جیسی اس کو ہے ۔
 اچھائی اور خیر ان اعمال کے تابع نہیں جو ہم کرتے ہیں  بلکہ اس کا تعلق اندر سے ہے کہ ہم ہیں کیسے ۔ ؟

اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ 516

Ashfaq Ahmad In Baba Sahba : Eman

دیکھو مجھے نظر تو نہیں آتا مگر میرا ایمان ہے  کہ اس کمرے میں ریڈیو کی لہریں بھری پڑیں ہیں ۔ ٹی وی کی لہریں ناچ رہی ہیں اور میں ریڈیو پر یا ٹی وی پر اپنی پسند کا سگنل پکڑ سکتا ہوں  ۔ اسی طرح سے میرا ایمان ہے کہ یہاں خدا کی آواز اور خدا کے احکام  موجود ہیں  اور میں اپنی ذات کے ریڈیو پر ان سگنلوں کو پکڑ سکتا ہوں لیکن اس کے لیے مجھے اپنی ذات کو ٹیون کرنا پڑیگا ۔ 

اور ایمان کیا ہے ؟ خدا کی مرضی کو اپنی مرضی بنانا 
ایک اختیار  ہے  ، پسند ہے ۔ کوئی مباحثہ یا مکالمہ نہیں ۔ یہ ایک فیصلہ ہے مباحثہ نہیں ہے ۔  یہ ایک کمٹمنٹ  ہے کوئی زبردستی نہیں ہے ۔  یہ تمہارے دل کے خزانوں کو بھرتا ہے اور تمہیں مالا مال کرتا  رہتا ہے ۔ 

اشفاق احمد  بابا صاحبا  صفحہ 540 





Friday, October 12, 2012

Ashfaq Ahmad Baba Sahba : Bad Dua

فرض کیجیے  راشدہ کو روحی سے کوئی تکلیف پہنچی ہے اور اس کا دل دکھ سے بھر گیا تو اس نے روحی سے بدلہ لینے کے لیے اسے بددعائیں دیں  اور اس  کا برا چاہا تا کہ اس کے ذہن کو کچھ تو سکون پہنچے - اب جب راشدہ نے روحی کا برا چاہا اسے بد دعائیں دیں تو پتہ چلا کہ راشدہ بد دعا کے اور برائی کے اسٹور میں رہائش پذیر ہے  ، جہاں سے اس کو بد دعا کی کھلی سپلائی  مل رہی ہے اور مفت مل رہی ہے ۔
اب جب بھی راشدہ بددعا کے پیکٹ تیار کرتی ہے تو اس کے گھر میں بھی ایک فیکٹری کھل جاتی ہے  ، جہاں سپلائی کے لیے مال تیار ہو رہا ہے ۔
اب راشدہ اپنی ہی  خواہش سے اپنی ہی سزا ہے ۔

اشفاق احمد  بابا صاحبا  صفحہ 506

Wednesday, October 10, 2012

Ashfaq Ahmad Baba Sahba

جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے اس کو ایک کسوٹی پر گھس کر ضرور دیکھا کرو  - ایک پرکھ ضرور قائم رکھو کہ  یہ سب کچھ اور آئندہ کے حصول کا سب کچھ کیا موت آپ کو ان سے جدا نہیں کر دے گی - یہ دولت یہ جائیداد یہ بینک بیلنس جو اب آپ کی ملکیت میں ہیں ، کیا ذرا سی موت ان کے درمیان حائل ہونے سے یہ ساری چیزیں آپ سے جدا نہیں ہو جائیں گی - یہ عزت یہ شہرت ، یہ ناموری ، یہ سیاسی اقتدار  ، یہ طاقت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ساری چیزیں  ایک موت کی ہلکی سی آمد سے آپ سے الگ نہیں ہو جائیں گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی لیے صوفی کہا کرتے ہیں کہ ان سب چیزوں کے سامنے پہلے ہی مر جاؤ - خود موت کو اختیار کر لو - یہ سب چلی جانے والی چیزیں ہیں - اور پیشتر اس کے کہ یہ آپ سے بیوفائی کریں ، آپ خود ان سے منہ موڑ کر ان کو ٹھوٹھ دکھا دو ، اور اس چیز کو اختیار  کر لو جو لافانی ہے ، جو امر ہے ، جو سمادہی ہے ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 485

Ashfaq Ahmad Zavia 1 : Diay say Dia

مجھے یاد آگیا ، حضرت شیخ مجدد الف ثانی - وہ بہت سخت اصولی بزرگ تھے ، لیکن یہ بات میں ان کی کبھی نہین بھولتا - انہوں نے فرمایا ، جو شخص تجھ سے مانگتا ہے اس کو دے ، کیا یہ تیری انا کے لیے کم ہے کہ کسی نے اپنا دست سوال تیرے آگے دراز کیا - بڑے آدمی کی کیا بات ہے - اس سلسلے میں ایک حدیث بھی ہے ، اور وہی سرچشمہ ہے ، پھر فرماتے ہیں ، اور عجیب و غریب انہوں نے یہ بات کی ہے کہ جو حق دار ہے اس کو بھی دے اور جو نا حق کا مانگنے والا ہے اس کو بھی دے - تا کہ تجھے جو نا حق کا مل رہا ہے وہ ملنا بند نہ ہو جائے - دیکھیں ناں ، ہم کو کیا ناحق کا مل رہا ہے - اس کی ساری مہربانیاں ہیں کرم ہے ، اور ہمیں اس کا شعور نہیں ہے کہ ہمیں کہاں کہاں نا حق مل رہا ہے 

اشفاق احمد زاویہ 1  دیے سے دیا  صفحہ 51

Ashfaq Ahmad Baba Sahba

جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے اس کو ایک کسوٹی پر گھس کر ضرور دیکھا کرو  - ایک پرکھ ضرور قائم رکھو کہ  یہ سب کچھ اور آئندہ کے حصول کا سب کچھ کیا موت آپ کو ان سے جدا نہیں کر دے گی - یہ دولت یہ جائیداد یہ بینک بیلنس جو اب آپ کی ملکیت میں ہیں ، کیا ذرا سی موت ان کے درمیان حائل ہونے سے یہ ساری چیزیں آپ سے جدا نہیں ہو جائیں گی - یہ عزت یہ شہرت ، یہ ناموری ، یہ سیاسی اقتدار  ، یہ طاقت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ساری چیزیں  ایک موت کی ہلکی سی آمد سے آپ سے الگ نہیں ہو جائیں گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی لیے صوفی کہا کرتے ہیں کہ ان سب چیزوں کے سامنے پہلے ہی مر جاؤ - خود موت کو اختیار کر لو - یہ سب چلی جانے والی چیزیں ہیں - اور پیشتر اس کے کہ یہ آپ سے بیوفائی کریں ، آپ خود ان سے منہ موڑ کر ان کو ٹھوٹھ دکھا دو ، اور اس چیز کو اختیار  کر لو جو لافانی ہے ، جو امر ہے ، جو سمادہی ہے ۔

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 485

Ashfaq Ahmad Zavia 3 : Sahib-al-Saif

لذتیں وقتی اور ہنگامی ہوتی ہیں  لیکن مسرتیں ،  شادمانیاں مستقل ہوتی ہیں -  لذتوں کا جسم سے تعلق ہوتا ہے  اور خوشیوں کا روح سے ۔ شادمانی نفس اور وجود سے ہٹ کر ہوتی ہے - یہ نفس سے جنگ کا دوسرا نام  ہوتا ہے - نفس سے جنگ روح کو خوشی عطا کرتی ہے جبکہ خواہشات کے آگے سر تسلیم خم کرنے سے جسمانی لذتیں میسر آتی ہیں ، روح کو بالیدگی نہیں ملتی - ۔

اشفاق احمد زاویہ 3  صاحب السیف  صفحہ 272 

Ashfaq Ahmad Zavia 4 : Ilm, Fehm aur Hosh

دنیا میں اس سے بڑا اور کوئی عذاب نہیں   ، کہ انسان وہ بننے کی کوشش میں مبتلا رہے جو کہ وہ نہیں ہے  - گو اس خواہش اور اس آرزو کی کوئی حد نہیں ہے، ہم لوگ کوشش کر کے اور زور لگا کے اپنے مقصد کو پہنچ ہی جاتے ہیں اور بالآخر وہ نظر آنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جو کہ نہیں ہوتے -  اپنے آپ کو پہچانو اور خود کو جانو اور دیکھو کہ تم اصل میں کیا ہو - اپنی فطرت اور اپنی اصل کے مطابق رہنا ہی  اس دنیا میں جنت ہے ۔

اشفاق احمد زاویہ 3 علم فہم اور ہوش صفحہ 292

Ashfaq Ahmad Baba Sahba : Gunah

یہ سچ نہیں ہے کہ مولوی نے ڈرا ڈرا کر  لوگوں کو خوفزدہ کر کے  گناہ کی طرف دھکیل دیا -  اور ان کے اندر جرم کا اور قصور کا تصور پیدا کر دیا - اور اس تصور سے خود فائدہ اٹھا کر ان کا لیڈر بن کر بیٹھ گیا ۔
یہ بات نہیں گناہ کا تصور انساں کے اندر میں ہے - انسان کے اندرونی توازن میں جب بے وزنی پیدا ہو جاتی ہے - جب اس کے اندر عزت نفس کی کمی واقع ہو جاتی ہے - خدا سے بیگانگی پیدا ہوتی ہے ، علیحدگی پیدا ہوتی ہے تو وہ گناہ کا شکار ہو جاتا ہے ۔
مولوی کے خوف دلائے بغیر ، اس کے جھڑکے سہے بغیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 یہ ( گناہ ) انسانی ضمیر کے تانے بانے اور اسی کی تار و پود کا ایک حصہ ہے - گناہ مذہب  نے ایجاد نہیں کیا یہ اس نے دریافت کیا ہے - اور اس کے اثرات کا انسان کے وجود پر جس جس طرح کا بوجھ پڑتا ہے ، اس کا مطالعہ کیا ہے ، اور ساتھ ہی ساتھ جس کے خلاف گناہ کیا ہے اس کا مشاہدہ کیا ہے ۔ 

اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 501

Tuesday, October 9, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program

جو شے آپ کو خوفزدہ کر رہی ہے اگر آپ بہت دیر تک اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہو جائیں  تو تھوڑی دیر بعد وہ خوفزدہ ہو کر بھاگ جائیگی ۔
اشفاق احمد بابا صاحبا  صفحہ  503

Wednesday, September 19, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Tawakal

ہم سب کی طرف سے اہلِ زاویہ کو سلام پہنچے۔ اس میز پر ہم گزشتہ کئی ماہ اور ہفتوں سے پروگرام کر رہے ہیں۔ اس میز پر کچھ کھانے پینے کی اشیاء ہوتی ہیں۔ ابھی ایک لمحہ قبل میں حاضرین سے درخواست کر رہا تھا کہ یہ آپ کے لیے ہیں اور آپ انہیں بڑے شوق سے استعمال کر سکتے ہیں لیکن ہم زندگی میں اتنے سیانے محتاط، عقل مند اور اتنے "ڈراکل" ہو گۓ ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید اس میں کوئی کوتاہی یا غلطی ہو جاۓ گی اور جب میں اس بات کو ذرا وسیع کر کے دیکھتا ہوں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم صرف احتیاط کرنے کے لیے پیدا ہوۓ ہیں اور جب اس کو ذرا اور وسیع تر دائرے میں میں پھیلاتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اور میرے معاشرے کے لوگ سارے کے سارے ضرورت سے زیادہ خوفزدہ ہو گۓ ہیں اور انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہو جاۓ۔ ہم آج کل نقصان کی طرف مائل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے اسی لیے اگر ہم کو کوہ پیمائی کرنا پڑے۔ ہمالیہ کی چوٹی سر کرنی پڑے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا "رسکی" کام ہے۔ رسک کاہے کو لینا، بہتر یہی ہے کہ آرام سے رہیں اور چار پیسے بنانے کے لیے کوئی پروگرام بنائیں۔ چار پیسے بنانا اور اپنی مالی زندگی کو مزید مستحکم کرنا کچھ ضرورت سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ہم تعلیم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ یہ ہم کو فائدہ دے گی یا ہم اس سے پیسے حاصل کریں گے اور تعلیم کا تعلق ہم نوکری کے ساتھ جوڑتے ہیں حالانکہ علم اور نوکری کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایمانداری کے ساتھ دیکھا جاۓ تو پتہ یہ چلتا ہے کہ علم حاصل کرنا تو ایک اندر کی خوب صورتی ہے۔ جیسے آپ باہر کی خوب صورتی کے لیے پاؤڈر لگاتے ہیں اور میک اپ کرتے ہیں۔ لڑکیاں لپ اسٹک اور کاجل لگاتی ہیں اسی طرح انسان اپنی روح کو بالیدگی عطا کرنے کے لیے علم حاصل کرتا ہے۔ لیکن ہم نے علم کو نوکری سے وابستہ کر دیا ہے۔ آۓ روز اخباروں میں چھپتا ہے کہ جی تین ہزار نوجوان ایم۔بی۔اے ہو گۓ ہیں انہیں نوکری نہیں ملتی۔ ایک زمانے میں میں یہ بات سمجھنے میں پھنس گیا کہ صاحبِ علم کون لوگ ہوتے ہیں اور یہ بات میری سمجھ اور گرفت میں نہیں آتی تھی۔ میں نے یونیورسٹی میں دوستوں اور پروفیسروں سے اس بابت پوچھا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ پھر میں نے ولایت والوں سے خط و کتابت میں پوچھنا شروع کیا اور ان سے پوچھا کہ

Who is Educated Person in the Real Sense of its Term

ان کی طرف سے موصول ہونے والے جواب بھی ایسے نہیں تھے جن سے میں مطمئن ہو جاتا۔ میرے پاس لوگوں کے اس بابت جوابات کی ایک موٹی فائل اکھٹی ہو گئی۔ ایک دن میں نے اپنے بابا جی کے پاس ڈیرے پر گیا۔ اس دن ڈیرے پر گاجر گوشت پکا ہوا تھا۔ مجھے کہنے لگے کہ کھاؤ۔ میں نے کھانا کھایا اور وہ فائل ایک طرف رکھ دی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اشفاق میاں یہ کیا ہے۔ میں نے بتایا یہ فائل ہے۔

کہنے لگے یہ تو بڑی موٹی ہے اور اس میں کاغذات کیا ہیں۔ میں نے کہا کہ جی یہ آپ کے کام کے نہیں ہیں۔ یہ انگریزی میں ہیں۔

وہ دیکھ کر کہنے لگے کہ اس میں تو چھٹیاں بھی ہیں۔ ان پر ٹکٹ بھی لگے ہوۓ ہیں اور ان پر تو بڑے پیسے لگے ہوۓ ہو گے۔

مجھ سے فرمانے لگے کہ تو باہر خط کیوں لکھتا ہے؟ میں نے کہا بابا جی ایک ایسا مسئلہ سامنے آ گیا تھا جو مجھے باہر کے لوگوں سے حل کروانا تھا کیونکہ ہمارے ہاں ساری دانش ختم ہو گئی ہے۔ وہ کہنے لگے ایسی کونسی بات ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک مسئلے میں الجھا ہوا ہوں۔ وہ یہ کہ آخر صاحبِ علم کون ہوتا ہے؟

وہ کہنے لگے۔ بھئی تم نے اتنا خرچا کیوں کیا۔ آپ میرے پاس ڈیرے پر آتے اور یہ سوال ہم سے پوچھ لیتے۔ ہمارے بابا جی باوصف اس کے کہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے انہیں ایک لفظ "Note" آتا تھا۔ جانے انہوں نے کہاں سے یہ لفظ سیکھا تھا۔

مجھے کہنے لگے۔ "Note" !" صاحبِ علم وہ ہوتا ہے جو خطرے کے مقام پر اپنی جماعت میں سب سے آگے ہو اور جب انعام تقسیم ہونے لگے تو جماعت میں سب سے پیچھے ہو۔"

یہ سننے کے بعد میں بڑا خوش ہوا کیونکہ جب انسان کو علم عطا ہو جاتا ہے تو اس کو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اور ممکن ہے میرا یہ خیال غلط ہو لیکن میرا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کسی نہ کسی طرح سے علم کی کمی ہو رہی ہے اور احتیاط کی زیادتی ہو رہی ہے۔ میں خود بڑا محتاط ہوں۔ میرے پوتے، نواسے نواسیوں کی تعداد بڑھی تو میں ایک خوفزدہ انسان میں تبدیل ہو گیا کہ ان کا کیا بنے گا۔ یہ کدھر جائیں گے؟ ایسے کیوں ہو گا؟ دھوبی کا خرچ کم کیسے ہو گا؟

میں ہر وقت یہی سوچنے میں لگا رہتا تھا۔ اس سے خرابی یہ پیدا ہوتی ہے جو میں اپنے میں، اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب میں دیکھتا ہوں کہ خدا کی ذات پر سے اعتماد کم ہونے لگا ہے۔ جب آدمی بہت محتاط ہو جاتا ہے تو پھر ذرا وہ گھبرانے لگتا ہے اور ہم سب اس قسم کی گھبراہٹ میں شریک ہو گۓ ہیں۔ اگر اس گھبراہٹ کو ذرا آگے بڑھایا جاۓ تو اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہم عموماً ایک جملہ بولتے ہیں کہ "جی بڑا دو نمبر کام ہو رہا ہے۔" اس کی وجہ گھبراہٹ ہی ہے۔ جب ہم خوف اور گھبراہٹ کے پیشِ نظر یہ یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہیں مجھ میں مالی کمزوری پیدا نہ ہو جاۓ دو نمبر کام کرتے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 1866ء میں ہندوستان کا ایک وائسراۓ تھا۔ (میرا خیال ہے کہ لارڈ کرزن ہی ہو گا) اس کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جا کر Cultural Pattern تلاش کرنے کا بڑا شوق تھا اور بھارت میں میوزیم وغیرہ اس نے Settle کیے تھے۔ وہ ایک دفعہ ایک گاؤں گیا۔ اس نے وہاں اپنا کیمپ لگایا۔ اس کے ساتھ دو اڑھائی آدمیوں کا اُس کا عملہ بھی تھا۔ اس وقت وائسراۓ بڑی زبردست اور Powerful چیز ہوا کرتی تھی۔ لارڈ کرزن لکھتا ہے کہ جب وہ اپنے کیمپ میں سویا ہوا تھا تو آدھی رات کے قریب مجھے اپنے سینے پر بہت بوجھ محسوس ہوا۔ وہ بوجھ اس قدر زیادہ تھا کہ مجھے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ جب میں نے لیٹے لیٹے آنکھ کھولی تو کوئی پچیس تیس سیر کا کوبرا میرے سینے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس نے پھن اٹھایا ہوا تھا اور اس کوبرے کا منہ میرے چہرے کی طرف تھا اور ہر لمحہ زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ کم ہوتا چلا جا رہا تھا لیکن میں ہلا نہیں بلکہ اسی طرح خاموش لیٹا رہا اور کوئی چیخ و پکار نہیں کی اور میں اس انتظار میں تھا کہ چونکہ خدا کی طرف سے بھی کبھی نہ کبھی تائیدِ غیبی انسان کو پہنچی ہے اور میں اس کا انتظار کرنے لگا۔

خواتین و حضرات اس طرح کے لمحات میں اس طرح کی سوچ ایک بڑے حوصلے اور اعتماد کی بات کی بات ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے دوسرے ہی لمحے میں نے دیکھا کہ میرے کیمپ کا پردہ اٹھا کر ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ اس آدمی نے جب صورتِ حال دیکھی تو وہ الٹے پاؤں واپس چلا گیا اور اس نے دودھ کا ایک بڑا سا مرتبان لیا اور اس میں گرم دودھ ڈالا اور اس آدمی نے وہ دودھ بڑی ہمت کے ساتھ سانپ کے آگے رکھ دیا۔ جب سانپ نے دودھ کا مرتبان یا جگ دیکھا اور اس نے دودھ کی خوشبو محسوس کی تو سانپ مرتبان کے اندر داخل ہونے لگا اور مزے سے دودھ پینے لگا۔ جب سانپ اس کے مکمل اندر جا چکا تو اس شخص نے مرتبان کو بند کر دیا۔ لوگوں کو جب واقعہ کا پتہ چلا تو ہر طرف حال دوہائی مچ گئی اور سارا عملہ کیمپوں سے باہر آگیا۔ وائسراۓ صاحب اس شخص سے بڑے خوش ہوۓ اور کہا کہ اس شخص کو انعام ملنا چاہیے۔ اس شخص نے کہا جی میں نے آپ کی جان بچائی ہے۔ میرے لیے یہ بھی ایک بہت بڑا انعام ہے۔ میں اور کچھ لے کر بھی کیا کروں گا۔ لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو ہمارے عملے کا آدمی ہے ہی نہیں۔ یہ تو کوئی باہر کا آدمی ہے۔ پھر اس سے استفسار کیا کہ تم کون ہو؟ وہ کہنے لگا کہ جی میں بندھیڑ کھنڈ کا نامی گرامی چور ہوں۔ میں یہاں چوری کی نیت سے آیا تھا اور میں نے سوچا کہ وائسراۓ جو کہ بادشاہِ وقت کی طرح ہے اس کے کیمپ سے قیمتی چیزیں ملیں گی اور جب میں کیمپ کے اندر داخل ہوا تو میں نے یہ سین دیکھا اور یہ اب آدمیت کا تقاضا تھا کہ میں اپنا پیشہ ایک طرف رکھوں اور جان بچانے کا کام پہلے کروں۔

خواتین و حضرات! اللہ کی مدد ایسے بھی آ جاتی ہے اور اتنے محتاط ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کبھی تھوڑا آرام بھی کر لینا چاہیے۔ کبھی کبھار سیٹی بھی بجا لینی چاہیے۔ میں جب اپنے سٹوڈنٹ بچے بچیوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا سیٹی بجانی آتی ہے تو وہ نفی میں جواب دیتے ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ان کے پاس سیٹی بجانے کا وقت ہی نہیں ہے۔ مجھے اپنے ساتھیوں اور ہم وطنوں کو تنی ہوئی زندگی گزارتے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو رسیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ کوئی دن یا کوئی تہوار بھی انجواۓ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ وہ ایک عذاب میں پڑے ہوۓ ہیں۔

ایک مراکو کا بادشاہ تھا۔ اس کی عمر کوئی اسّی، سو برس کے قریب تھی۔ وہ ایک شخص سے ناراض ہو گیا اور اس بارے حکم دیا کہ اس کو زندان میں ڈال دیا جاۓ اور کل صبح چھ بجے جلاد بلاکر اس کا سر قلم کر دیا جاۓ۔ اب وہ شخص صبح چھ بجے کا انتظار کرنے لگا اور وہ خوفزدہ نہیں تھا۔ اس نےجیل کے داروغہ کو دیکھا جسے شطرنج کھیلنے کا بڑا چسکا تھا اور اس سے کہا کہ سر آجائیں بیٹھیں ایک بازی تو لگ جاۓ۔ اس نے بھی کہا کہ آ جاؤ۔ وہ شطرنج کھیلنے لگے اور اس بندے نے جس نے حکمِ شاہی کے مطابق قتل ہونا چاہیے تھا، نے داروغہ کو شکست دے دی اور داروغہ سے کہا کہ اب آپ آرام کریں صبح ملیں گے۔ جب اس کے قتل کیے جانے کا وقت ہوا تو داروغہ پھر آ گیا اور کہنے لگا کہ آؤ جناب ایک بازی ہو جاۓ۔ یہ قتل وتل تو روز کا کام ہے ہوتا ہی رہے گا۔ وہ قیدی اس سے کہنے لگا کہ تیرا ستیاناس! بادشاہ نے نہ صرف تیری نوکری ختم کردینی ہے۔ بلکہ میرے ساتھ تجھے بھی قتل کروا دینا ہے۔ لیکن وہ پھر بھی کھیلنے لگا۔ وہ صبح سے شام تک کھیلتے رہے۔ بازی پھنس جاتی تو اگلے دن پھر چلتی۔ اسی طرح چار راتیں ہو گئیں۔ (یہ میں آپ سے ایک "Historical Fact" بیان کر رہا ہوں۔) اور اس کے قتل کیے جانے کا وقت بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ ایک شام کو بیٹھا شطرنج کھیل رہے تھے کہ ایک شخص دھول سے اٹا ہوا اور سر پٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا ان کی طرف آیا۔ وہاں پہنچ کر وہ اس قیدی کے قدموں میں گر گیا اور پکار پکار کر کہنے لگا " باادب با ملاحظہ ہوشیار' شہنشاہِ جہاں فلاں فلاں' شہنشاہِ مراکو۔"

اب جیل کا دراوغہ اور وہ قیدی حیران و پریشان کھڑے دیکھ رہے ہیں اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ اس نے بتایا کہ بلوائیوں نے مراکو کے بادشاہ کو قتل کر دیا ہے اور آپ چونکہ اس کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اب آپ ہی تخت و تاج کے وارث ہیں لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک اکیلے مجھے علم تھا کہ آپ زندہ و سلامت ہیں۔ چنانچہ اس کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ گھوڑے پر بٹھا کر لایا گیا اور جس بادشاہ نے اس کے قتل کا حکم نامہ جاری کیا تھا اسی کے تخت پر بٹھا دیا گیا اور وہ بادشاہ بن گیا۔ یہ ٹینشن اور ڈپریشن کا مرض اس قدر ظالم، مہلک اور خطرناک ہے کہ کوئی منتر، کوئی گولی اور کوئی جادو ٹونا آپ کی مدد نہیں کر سکتا اور جوں جوں خدا کی ذات پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے یہ مرض بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اس کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ چلۓ اپنی زندگی کے 365 دنوں میں چار دن تو ایسے نکال لیں کہ واقعی ان دنوں میں اللہ پر اعتماد کر کے بیٹھ جائیں۔ میری پیارے ملک کے پیارے لوگ اس قدر کچھاؤ میں ہیں کہ ہر وقت خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے غالباً یہ واں رادھا رام یا راجہ جنگ کی بات ہے کہ وہاں ایک بینک کھلا۔ وہ چلتا رہا۔ ان علاقوں میں بینکوں کی ڈکیتیاں عام ہیں۔ اب کسی ڈکیت نے سوچا کہ یہ قصبے کا بینک ہے اس میں آسانی سے واردات ہو سکتی ہے لہٰذا اس نے اپنی کلاشنکوف لی۔ جیپ باہر کھڑی کی اور اس نے اس بینک میں ایک گولی فائر کی اور سب کو ڈرا کر ہینڈز اپ کرا دئے اور کیشیئر کے آگے جتنی رقم تھی وہ اس نے اپنے تھیلے میں ڈال لی۔ اس رقم میں سارے ملے جلے نوٹ تھے۔ جب وہ بینک سے باہر نکلا تو عجیب سماں تھا۔ اس کے فائر کرنے کی وجہ سے باہر لوگوں کو صورتِ حال کا اندازہ ہو چکا تھا۔ اور ان گاؤں والوں نے اس بینک ڈکیتی کو اپنی عزت بے عزتی کا معاملہ بنا لیا تھا اور وہ اپنے گھروں سے اپنی پرانی بندوقیں نکال کر باہر لے آۓ۔ کسی کے پاس رائفل بھی تھی اور وہ سارے اکھٹے ہو کر آۓ اور آتے ہی اس ڈاکو کی جیب کے ٹائر پنکچر کر دیۓ۔ پھر شور مچانا شروع کر دیا۔ اس ڈکیت نے بھاگنے کی کوشش کی اور فائرنگ کرتا رہا لیکن وہ لوگ بھی ارادے کے پکے تھے اور انہوں نے گھیراؤ کر لیا۔ جب ڈاکو کے ہاتھ سے روپوں والا تھیلا چھوٹا تو نوٹ بکھر گۓ۔ اب لوگوں نے ڈاکو کو تو جانے دیا لیکن روپوں کو اکھٹا کرنا شروع کر دیا اور سارے نوٹ سنبھال کر بینک منیجر کو دے آۓ۔

خواتین و حضرات یہ دنیا کی واحد بینک ڈکیتی ہے جس میں بینک کو 32 روپے کا فائدہ ہوا کیونکہ کئی لوگوں کی جیبوں سے گر کر پیسے اس رقم میں شامل ہو گۓ تھے اور اس طرح بینک نے لوٹے ہوۓ 28 ہزار کی جگہ 28 ہزار 32 روپے حاصل کیے۔

برداشت کرنے اور حوصلہ کرنے سے کچھ ایسے فائدے کی راہیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ پریشان ہونے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ تو ہو کر رہے گا جو ہو کر رہنے والا ہے۔

بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

اب میں آپ لوگوں کو پھنسے ہوۓ نہیں دیکھ سکتا اور میری آرزو اور بڑی تمنا ہے کہ آپ ایک سہل زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں تاکہ بہت سے بڑے بڑے کام جو انتظار کر رہے ہیں اور بہت سی فتوحات جو آپ نے کرنی ہیں وہ آپ کر سکیں اور یہ اسی صورت ممکن ہو گا کہ آپ خداوند تعالٰی پر مکمل یقین رکھیں اور قلب کو بھی مانیں۔ آپ 99 فیصد مادہ پرستی کو تھامے رکھیں اور صرف ایک فیصد تو اپنی ذات کو آزادی کی اجازت دے دیں اور کہہ دیں کہ اگر آج سو روپے کا نقصان ہونا ہے تو ہولے کوئی بات نہیں۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرماۓ اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرماۓ۔ آمین۔اللہ حافظ۔