ہم سب کی طرف سے اہلِ زاویہ کو سلام پہنچے۔ اس میز پر ہم گزشتہ کئی ماہ اور ہفتوں سے پروگرام کر رہے ہیں۔ اس میز پر کچھ کھانے پینے کی اشیاء ہوتی ہیں۔ ابھی ایک لمحہ قبل میں حاضرین سے درخواست کر رہا تھا کہ یہ آپ کے لیے ہیں اور آپ انہیں بڑے شوق سے استعمال کر سکتے ہیں لیکن ہم زندگی میں اتنے سیانے محتاط، عقل مند اور اتنے "ڈراکل" ہو گۓ ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید اس میں کوئی کوتاہی یا غلطی ہو جاۓ گی اور جب میں اس بات کو ذرا وسیع کر کے دیکھتا ہوں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم صرف احتیاط کرنے کے لیے پیدا ہوۓ ہیں اور جب اس کو ذرا اور وسیع تر دائرے میں میں پھیلاتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اور میرے معاشرے کے لوگ سارے کے سارے ضرورت سے زیادہ خوفزدہ ہو گۓ ہیں اور انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہو جاۓ۔ ہم آج کل نقصان کی طرف مائل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے اسی لیے اگر ہم کو کوہ پیمائی کرنا پڑے۔ ہمالیہ کی چوٹی سر کرنی پڑے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا "رسکی" کام ہے۔ رسک کاہے کو لینا، بہتر یہی ہے کہ آرام سے رہیں اور چار پیسے بنانے کے لیے کوئی پروگرام بنائیں۔ چار پیسے بنانا اور اپنی مالی زندگی کو مزید مستحکم کرنا کچھ ضرورت سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ہم تعلیم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ یہ ہم کو فائدہ دے گی یا ہم اس سے پیسے حاصل کریں گے اور تعلیم کا تعلق ہم نوکری کے ساتھ جوڑتے ہیں حالانکہ علم اور نوکری کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایمانداری کے ساتھ دیکھا جاۓ تو پتہ یہ چلتا ہے کہ علم حاصل کرنا تو ایک اندر کی خوب صورتی ہے۔ جیسے آپ باہر کی خوب صورتی کے لیے پاؤڈر لگاتے ہیں اور میک اپ کرتے ہیں۔ لڑکیاں لپ اسٹک اور کاجل لگاتی ہیں اسی طرح انسان اپنی روح کو بالیدگی عطا کرنے کے لیے علم حاصل کرتا ہے۔ لیکن ہم نے علم کو نوکری سے وابستہ کر دیا ہے۔ آۓ روز اخباروں میں چھپتا ہے کہ جی تین ہزار نوجوان ایم۔بی۔اے ہو گۓ ہیں انہیں نوکری نہیں ملتی۔ ایک زمانے میں میں یہ بات سمجھنے میں پھنس گیا کہ صاحبِ علم کون لوگ ہوتے ہیں اور یہ بات میری سمجھ اور گرفت میں نہیں آتی تھی۔ میں نے یونیورسٹی میں دوستوں اور پروفیسروں سے اس بابت پوچھا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ پھر میں نے ولایت والوں سے خط و کتابت میں پوچھنا شروع کیا اور ان سے پوچھا کہ
Who is Educated Person in the Real Sense of its Term
ان کی طرف سے موصول ہونے والے جواب بھی ایسے نہیں تھے جن سے میں مطمئن ہو جاتا۔ میرے پاس لوگوں کے اس بابت جوابات کی ایک موٹی فائل اکھٹی ہو گئی۔ ایک دن میں نے اپنے بابا جی کے پاس ڈیرے پر گیا۔ اس دن ڈیرے پر گاجر گوشت پکا ہوا تھا۔ مجھے کہنے لگے کہ کھاؤ۔ میں نے کھانا کھایا اور وہ فائل ایک طرف رکھ دی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اشفاق میاں یہ کیا ہے۔ میں نے بتایا یہ فائل ہے۔
کہنے لگے یہ تو بڑی موٹی ہے اور اس میں کاغذات کیا ہیں۔ میں نے کہا کہ جی یہ آپ کے کام کے نہیں ہیں۔ یہ انگریزی میں ہیں۔
وہ دیکھ کر کہنے لگے کہ اس میں تو چھٹیاں بھی ہیں۔ ان پر ٹکٹ بھی لگے ہوۓ ہیں اور ان پر تو بڑے پیسے لگے ہوۓ ہو گے۔
مجھ سے فرمانے لگے کہ تو باہر خط کیوں لکھتا ہے؟ میں نے کہا بابا جی ایک ایسا مسئلہ سامنے آ گیا تھا جو مجھے باہر کے لوگوں سے حل کروانا تھا کیونکہ ہمارے ہاں ساری دانش ختم ہو گئی ہے۔ وہ کہنے لگے ایسی کونسی بات ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک مسئلے میں الجھا ہوا ہوں۔ وہ یہ کہ آخر صاحبِ علم کون ہوتا ہے؟
وہ کہنے لگے۔ بھئی تم نے اتنا خرچا کیوں کیا۔ آپ میرے پاس ڈیرے پر آتے اور یہ سوال ہم سے پوچھ لیتے۔ ہمارے بابا جی باوصف اس کے کہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے انہیں ایک لفظ "Note" آتا تھا۔ جانے انہوں نے کہاں سے یہ لفظ سیکھا تھا۔
مجھے کہنے لگے۔ "Note" !" صاحبِ علم وہ ہوتا ہے جو خطرے کے مقام پر اپنی جماعت میں سب سے آگے ہو اور جب انعام تقسیم ہونے لگے تو جماعت میں سب سے پیچھے ہو۔"
یہ سننے کے بعد میں بڑا خوش ہوا کیونکہ جب انسان کو علم عطا ہو جاتا ہے تو اس کو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اور ممکن ہے میرا یہ خیال غلط ہو لیکن میرا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کسی نہ کسی طرح سے علم کی کمی ہو رہی ہے اور احتیاط کی زیادتی ہو رہی ہے۔ میں خود بڑا محتاط ہوں۔ میرے پوتے، نواسے نواسیوں کی تعداد بڑھی تو میں ایک خوفزدہ انسان میں تبدیل ہو گیا کہ ان کا کیا بنے گا۔ یہ کدھر جائیں گے؟ ایسے کیوں ہو گا؟ دھوبی کا خرچ کم کیسے ہو گا؟
میں ہر وقت یہی سوچنے میں لگا رہتا تھا۔ اس سے خرابی یہ پیدا ہوتی ہے جو میں اپنے میں، اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب میں دیکھتا ہوں کہ خدا کی ذات پر سے اعتماد کم ہونے لگا ہے۔ جب آدمی بہت محتاط ہو جاتا ہے تو پھر ذرا وہ گھبرانے لگتا ہے اور ہم سب اس قسم کی گھبراہٹ میں شریک ہو گۓ ہیں۔ اگر اس گھبراہٹ کو ذرا آگے بڑھایا جاۓ تو اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہم عموماً ایک جملہ بولتے ہیں کہ "جی بڑا دو نمبر کام ہو رہا ہے۔" اس کی وجہ گھبراہٹ ہی ہے۔ جب ہم خوف اور گھبراہٹ کے پیشِ نظر یہ یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہیں مجھ میں مالی کمزوری پیدا نہ ہو جاۓ دو نمبر کام کرتے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 1866ء میں ہندوستان کا ایک وائسراۓ تھا۔ (میرا خیال ہے کہ لارڈ کرزن ہی ہو گا) اس کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جا کر Cultural Pattern تلاش کرنے کا بڑا شوق تھا اور بھارت میں میوزیم وغیرہ اس نے Settle کیے تھے۔ وہ ایک دفعہ ایک گاؤں گیا۔ اس نے وہاں اپنا کیمپ لگایا۔ اس کے ساتھ دو اڑھائی آدمیوں کا اُس کا عملہ بھی تھا۔ اس وقت وائسراۓ بڑی زبردست اور Powerful چیز ہوا کرتی تھی۔ لارڈ کرزن لکھتا ہے کہ جب وہ اپنے کیمپ میں سویا ہوا تھا تو آدھی رات کے قریب مجھے اپنے سینے پر بہت بوجھ محسوس ہوا۔ وہ بوجھ اس قدر زیادہ تھا کہ مجھے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ جب میں نے لیٹے لیٹے آنکھ کھولی تو کوئی پچیس تیس سیر کا کوبرا میرے سینے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس نے پھن اٹھایا ہوا تھا اور اس کوبرے کا منہ میرے چہرے کی طرف تھا اور ہر لمحہ زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ کم ہوتا چلا جا رہا تھا لیکن میں ہلا نہیں بلکہ اسی طرح خاموش لیٹا رہا اور کوئی چیخ و پکار نہیں کی اور میں اس انتظار میں تھا کہ چونکہ خدا کی طرف سے بھی کبھی نہ کبھی تائیدِ غیبی انسان کو پہنچی ہے اور میں اس کا انتظار کرنے لگا۔
خواتین و حضرات اس طرح کے لمحات میں اس طرح کی سوچ ایک بڑے حوصلے اور اعتماد کی بات کی بات ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے دوسرے ہی لمحے میں نے دیکھا کہ میرے کیمپ کا پردہ اٹھا کر ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ اس آدمی نے جب صورتِ حال دیکھی تو وہ الٹے پاؤں واپس چلا گیا اور اس نے دودھ کا ایک بڑا سا مرتبان لیا اور اس میں گرم دودھ ڈالا اور اس آدمی نے وہ دودھ بڑی ہمت کے ساتھ سانپ کے آگے رکھ دیا۔ جب سانپ نے دودھ کا مرتبان یا جگ دیکھا اور اس نے دودھ کی خوشبو محسوس کی تو سانپ مرتبان کے اندر داخل ہونے لگا اور مزے سے دودھ پینے لگا۔ جب سانپ اس کے مکمل اندر جا چکا تو اس شخص نے مرتبان کو بند کر دیا۔ لوگوں کو جب واقعہ کا پتہ چلا تو ہر طرف حال دوہائی مچ گئی اور سارا عملہ کیمپوں سے باہر آگیا۔ وائسراۓ صاحب اس شخص سے بڑے خوش ہوۓ اور کہا کہ اس شخص کو انعام ملنا چاہیے۔ اس شخص نے کہا جی میں نے آپ کی جان بچائی ہے۔ میرے لیے یہ بھی ایک بہت بڑا انعام ہے۔ میں اور کچھ لے کر بھی کیا کروں گا۔ لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو ہمارے عملے کا آدمی ہے ہی نہیں۔ یہ تو کوئی باہر کا آدمی ہے۔ پھر اس سے استفسار کیا کہ تم کون ہو؟ وہ کہنے لگا کہ جی میں بندھیڑ کھنڈ کا نامی گرامی چور ہوں۔ میں یہاں چوری کی نیت سے آیا تھا اور میں نے سوچا کہ وائسراۓ جو کہ بادشاہِ وقت کی طرح ہے اس کے کیمپ سے قیمتی چیزیں ملیں گی اور جب میں کیمپ کے اندر داخل ہوا تو میں نے یہ سین دیکھا اور یہ اب آدمیت کا تقاضا تھا کہ میں اپنا پیشہ ایک طرف رکھوں اور جان بچانے کا کام پہلے کروں۔
خواتین و حضرات! اللہ کی مدد ایسے بھی آ جاتی ہے اور اتنے محتاط ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کبھی تھوڑا آرام بھی کر لینا چاہیے۔ کبھی کبھار سیٹی بھی بجا لینی چاہیے۔ میں جب اپنے سٹوڈنٹ بچے بچیوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا سیٹی بجانی آتی ہے تو وہ نفی میں جواب دیتے ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ان کے پاس سیٹی بجانے کا وقت ہی نہیں ہے۔ مجھے اپنے ساتھیوں اور ہم وطنوں کو تنی ہوئی زندگی گزارتے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو رسیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ کوئی دن یا کوئی تہوار بھی انجواۓ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ وہ ایک عذاب میں پڑے ہوۓ ہیں۔
ایک مراکو کا بادشاہ تھا۔ اس کی عمر کوئی اسّی، سو برس کے قریب تھی۔ وہ ایک شخص سے ناراض ہو گیا اور اس بارے حکم دیا کہ اس کو زندان میں ڈال دیا جاۓ اور کل صبح چھ بجے جلاد بلاکر اس کا سر قلم کر دیا جاۓ۔ اب وہ شخص صبح چھ بجے کا انتظار کرنے لگا اور وہ خوفزدہ نہیں تھا۔ اس نےجیل کے داروغہ کو دیکھا جسے شطرنج کھیلنے کا بڑا چسکا تھا اور اس سے کہا کہ سر آجائیں بیٹھیں ایک بازی تو لگ جاۓ۔ اس نے بھی کہا کہ آ جاؤ۔ وہ شطرنج کھیلنے لگے اور اس بندے نے جس نے حکمِ شاہی کے مطابق قتل ہونا چاہیے تھا، نے داروغہ کو شکست دے دی اور داروغہ سے کہا کہ اب آپ آرام کریں صبح ملیں گے۔ جب اس کے قتل کیے جانے کا وقت ہوا تو داروغہ پھر آ گیا اور کہنے لگا کہ آؤ جناب ایک بازی ہو جاۓ۔ یہ قتل وتل تو روز کا کام ہے ہوتا ہی رہے گا۔ وہ قیدی اس سے کہنے لگا کہ تیرا ستیاناس! بادشاہ نے نہ صرف تیری نوکری ختم کردینی ہے۔ بلکہ میرے ساتھ تجھے بھی قتل کروا دینا ہے۔ لیکن وہ پھر بھی کھیلنے لگا۔ وہ صبح سے شام تک کھیلتے رہے۔ بازی پھنس جاتی تو اگلے دن پھر چلتی۔ اسی طرح چار راتیں ہو گئیں۔ (یہ میں آپ سے ایک "Historical Fact" بیان کر رہا ہوں۔) اور اس کے قتل کیے جانے کا وقت بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ ایک شام کو بیٹھا شطرنج کھیل رہے تھے کہ ایک شخص دھول سے اٹا ہوا اور سر پٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا ان کی طرف آیا۔ وہاں پہنچ کر وہ اس قیدی کے قدموں میں گر گیا اور پکار پکار کر کہنے لگا " باادب با ملاحظہ ہوشیار' شہنشاہِ جہاں فلاں فلاں' شہنشاہِ مراکو۔"
اب جیل کا دراوغہ اور وہ قیدی حیران و پریشان کھڑے دیکھ رہے ہیں اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ اس نے بتایا کہ بلوائیوں نے مراکو کے بادشاہ کو قتل کر دیا ہے اور آپ چونکہ اس کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اب آپ ہی تخت و تاج کے وارث ہیں لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک اکیلے مجھے علم تھا کہ آپ زندہ و سلامت ہیں۔ چنانچہ اس کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ گھوڑے پر بٹھا کر لایا گیا اور جس بادشاہ نے اس کے قتل کا حکم نامہ جاری کیا تھا اسی کے تخت پر بٹھا دیا گیا اور وہ بادشاہ بن گیا۔ یہ ٹینشن اور ڈپریشن کا مرض اس قدر ظالم، مہلک اور خطرناک ہے کہ کوئی منتر، کوئی گولی اور کوئی جادو ٹونا آپ کی مدد نہیں کر سکتا اور جوں جوں خدا کی ذات پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے یہ مرض بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اس کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ چلۓ اپنی زندگی کے 365 دنوں میں چار دن تو ایسے نکال لیں کہ واقعی ان دنوں میں اللہ پر اعتماد کر کے بیٹھ جائیں۔ میری پیارے ملک کے پیارے لوگ اس قدر کچھاؤ میں ہیں کہ ہر وقت خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے غالباً یہ واں رادھا رام یا راجہ جنگ کی بات ہے کہ وہاں ایک بینک کھلا۔ وہ چلتا رہا۔ ان علاقوں میں بینکوں کی ڈکیتیاں عام ہیں۔ اب کسی ڈکیت نے سوچا کہ یہ قصبے کا بینک ہے اس میں آسانی سے واردات ہو سکتی ہے لہٰذا اس نے اپنی کلاشنکوف لی۔ جیپ باہر کھڑی کی اور اس نے اس بینک میں ایک گولی فائر کی اور سب کو ڈرا کر ہینڈز اپ کرا دئے اور کیشیئر کے آگے جتنی رقم تھی وہ اس نے اپنے تھیلے میں ڈال لی۔ اس رقم میں سارے ملے جلے نوٹ تھے۔ جب وہ بینک سے باہر نکلا تو عجیب سماں تھا۔ اس کے فائر کرنے کی وجہ سے باہر لوگوں کو صورتِ حال کا اندازہ ہو چکا تھا۔ اور ان گاؤں والوں نے اس بینک ڈکیتی کو اپنی عزت بے عزتی کا معاملہ بنا لیا تھا اور وہ اپنے گھروں سے اپنی پرانی بندوقیں نکال کر باہر لے آۓ۔ کسی کے پاس رائفل بھی تھی اور وہ سارے اکھٹے ہو کر آۓ اور آتے ہی اس ڈاکو کی جیب کے ٹائر پنکچر کر دیۓ۔ پھر شور مچانا شروع کر دیا۔ اس ڈکیت نے بھاگنے کی کوشش کی اور فائرنگ کرتا رہا لیکن وہ لوگ بھی ارادے کے پکے تھے اور انہوں نے گھیراؤ کر لیا۔ جب ڈاکو کے ہاتھ سے روپوں والا تھیلا چھوٹا تو نوٹ بکھر گۓ۔ اب لوگوں نے ڈاکو کو تو جانے دیا لیکن روپوں کو اکھٹا کرنا شروع کر دیا اور سارے نوٹ سنبھال کر بینک منیجر کو دے آۓ۔
خواتین و حضرات یہ دنیا کی واحد بینک ڈکیتی ہے جس میں بینک کو 32 روپے کا فائدہ ہوا کیونکہ کئی لوگوں کی جیبوں سے گر کر پیسے اس رقم میں شامل ہو گۓ تھے اور اس طرح بینک نے لوٹے ہوۓ 28 ہزار کی جگہ 28 ہزار 32 روپے حاصل کیے۔
برداشت کرنے اور حوصلہ کرنے سے کچھ ایسے فائدے کی راہیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ پریشان ہونے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ تو ہو کر رہے گا جو ہو کر رہنے والا ہے۔
بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اب میں آپ لوگوں کو پھنسے ہوۓ نہیں دیکھ سکتا اور میری آرزو اور بڑی تمنا ہے کہ آپ ایک سہل زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں تاکہ بہت سے بڑے بڑے کام جو انتظار کر رہے ہیں اور بہت سی فتوحات جو آپ نے کرنی ہیں وہ آپ کر سکیں اور یہ اسی صورت ممکن ہو گا کہ آپ خداوند تعالٰی پر مکمل یقین رکھیں اور قلب کو بھی مانیں۔ آپ 99 فیصد مادہ پرستی کو تھامے رکھیں اور صرف ایک فیصد تو اپنی ذات کو آزادی کی اجازت دے دیں اور کہہ دیں کہ اگر آج سو روپے کا نقصان ہونا ہے تو ہولے کوئی بات نہیں۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرماۓ اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرماۓ۔ آمین۔اللہ حافظ۔
No comments:
Post a Comment