میں نے اس سے پوچھا کہ بنارس خان تم شکوہ نہوں کرتے ؟
کہنے لگا صاحب ، ہم بہت شکوہ کرتا تھا ، یہ تو ہماری زندگی کا ایک حصہ تھا -
اپنا گھر چھوڑ کے ہم ادھر آیا تو شکوہ کرتا کہ ادھر تو کوارٹر میں کچھ نہیں ہے -
ہم ادھر آیا تھا سکون کی تلاش میں بڑا پر باش رہنا چاہتا تھا -
بڑی کوششیں کیں ، بڑے لوگوں سے ملا -
بڑے پیروں فقیروں کے پاس گیا کہ جناب ہم سکون کی تلاش میں ہے ، تو نہیں ملا -
ایک دن شام کو کھانا کھاتے کھاتے میں نے فیصلہ کیا - میرے ہاتھ میں لقمہ تھا ، رکھ دیا -
میں نے کہا ، یار دفع کرو سکون کو -
ہم نے اس کو لے کر کیا کرنا ہے
ہم سکون کے بغیر ہی زندگی بسر کریگا -
اس دن سے مجھے سکون ملنا شروع ہو گیا -
تو میں نے کہا تم نے یہ کمال کی بات کی ہے ، تم نے یہ کیسے سوچا ؟
کہنے لگا ، بس یہ الله کی طرف سے میرے ذہن میں آیا -
میں نے کہا وہ ٹھیک ہے آپ نے سکون کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیا اور اپنے آپ کے ساتھ ایک مصالحت کر لی لیکن یہ خوشدلی آپ میں کیسے آئی ہے میں یہ جاننا چاہتا ہوں -
کہنے لگا ، جی یہ بھی بڑا مشکل کام تھا
ہر شخص جو دنیا کا سوتا ہے ، اور صبح اٹھتا ہے - تو اپنا پیر چارپائی سے نیچے اتارنے سے پہلے ، میں نے کہا کہ یارا بنارس خان !
قدم تو نیچے اتارنا ہی ہے تو کلفت میں کیوں اتاریں ، خوشی میں کیوں نہ دن گزاریں ، تو سارے دن میں جب کبھی جس مقام پر بھی میں جاتا ، تنور پر روٹی کھانے ، دوستوں سے ملنے ، یا کسی مصیبت میں گزرنے تو مجھ کو یہ بات یاد آجاتی کہ آج میں نے فیصلہ کیا ہے کہ " کلفت " میں یہ دن نہیں گزارنا -
آرام کرنا ہے ، خوشی سے ہر چیز قبول کرنی ہے -
اس کے بعد صاحب عادت پڑ گئی -
اگر انسان یہ فیصلہ کر لے ، اور اس کا تہیہ کر لے ، اور اس پر قائم ہو جائے تو یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں -
میں نے کہا، یار ہم سے تو اس پر قائم نہیں رہا گیا تھا -
کہنے لگا ، آپ نے یہ فیصلہ کیا ہی نہیں - وہ تہیہ کرنے کی بات کر رہا تھا -
از اشفاق احمد زاویہ ١ الله کا نظام صفحہ ٩٧
No comments:
Post a Comment