Monday, September 17, 2012

انٹر نیٹ پر توہین رسالت روکنے والا نظام بنانے میں این جی اوز رکاوٹ بنی ہوئی ہیں

 پاکستان میں اب انکشاف ہوا ہے کہ انٹر نیٹ پر توہین رسالت یا دیگر مواد روکنے  کا کوئی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے  حالانکہ انٹر نیٹ پر اسلام اور پیغمبر اسلام اور قرآن پاک کی توہین جیسے معاملات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت پاکستان نے چند ماہ قبل ایسا نظام بنانے کی کوشش کی تھی مگر پاکستان کی این جی اوز نے اس کےخلاف ایک  بہت بڑی مہم چلائی اور عالمی اداروں اور بڑی  آئی ٹی کمپنیز کو باقاعدہ خطوط لکھے کہ اس سلسلے میں پاکستان کی کوئی مدد نہ کی جائے اور اسے انسانی  بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تصور کیا جائے۔ اس مہم کے بعد حکومت پاکستان بھی ٹھنڈی ہو کر بیٹھ گئی اور اب یہ نیا حادثہ پیش آیا ہے جسے روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ یو ٹیوبلاک کرنے کے بعد بھی انٹر نیٹ پر ایسی ویڈیوز کئی جگہوںپر موجود ہیں۔گو کہحکام کی جانب سے یہ احساس ہونے پر کہ گوگل کے ساتھ حکومت پاکستان کا معاہدہ نہیں ہے لہٰذا ایسی صورت میں یوٹیوب کی ویب سائٹ کو مکمل طور پر بلاک کردیا گیا۔ پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی اور دیگر اداروں کی جانب سے وزیراعظم اور سپریم کورٹ کو بھیجی جانے والی تجویز کے بعد وزیراعظم پاکستان نے ملک میں یوٹیوب کو چند روز کیلئے بلاک کرنے کا حکم دیا تاکہ حالیہ اسلام مخالف فلم کے پاکستان میں پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ بھارت اور انڈونیشیا جیسے ممالک نے گوگل اور یوٹیوب انتظامیہ کے ساتھ مل کر پہلے ہی اس طرح کا توہین آمیز مواد پھیلانے والی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا معاہدہ  کردیا ہے لیکن اس معاملے میں پاکستان اپنے آئی ٹی حکام کی نااہلی کی وجہ سے بے بس نظر آ رہا ہے کیونکہ گوگل کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا گیا ہے اور نہ ہی توہین آمیز اور فحش مواد روکنے کیلئے فلٹریشن سسٹم نصب ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کےتقریبا تمام مما لک نے ایسے انٹر نیٹ فلٹریشن نظام اپنا رکھے ہیں جو متنازعہ یا غیر متعلقہ مواد پر اس ملک میں انٹر نیٹ پر نہیں آنے دیتے۔ اس سلسلے میں پاکستان نے رواں برس مارچ میں کوششیں شروع کی تھیں تاکہ ایسا مستحکم انٹر نیٹ فلٹریشن نظام اپنایا جا سکے اور اس سلسلے میں عالمی اور قومی  اخبارات میں ٹینڈر بھی طلب کئے گئے تھے۔ اس کےبعد کئی این جی اوز نے بڑی  مہم شروع کردی۔ اس سلسلے میں  منسٹری آف انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اشتہار دیا تھا اور ٹینڈر کی مالیت 10 میلین ڈالر رکھی تھی۔ اس نظام کے تحت خود کار طور پر ایسی تمام ویب سائٹس بلاک ہوجاتیں جہاں توہین آمیز مواد موجود ہوتا۔ موجودہ طریقہ کار کے مطابق ایک ایک ویب سائٹ کو خود ہی ڈھونڈ کر بلاک کرنا پڑتا ہےاور یہ ناممکن ہے کہ اس طرح ایسی تمام ویب سائٹس کو بلاک کردیا جائے کیونکہ ہر  وقت ایسا مواد نئی  ویب سائٹس پر آتا رہتا ہے ۔ درجنوں اسلامی ممالک اور امریکہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک ایسے نظام استعمال کررہے ہیں۔ تاہم   پاکستان میں این جی اوز کی جانب سے شدید مخالفت اور عالمی مہم چلائے جانے کے بعد یہ پروجیکٹ وہیں پر رک گیا۔

   اب حالیہ واقعے میں بھی اسی لئے افرا تفری دیکھنے میں آرہی ہے کہ ایسی ویب سائٹس کو کیسے بند کیا جائے۔اس سلسلے میںپیر کو بین الوزارتی اجلاس کا انعقاد ہوا جس میں وزارت داخلہ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، پی ٹی اے، ایف آئی اے اور دیگر ایجنسیوں کے حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر یہ تجویز پیش کی گئی کہ قلیل مدتی اقدام کے طور پر یوٹیوب کو فوراً بلاک کردیا جائے۔ مسئلے کا طویل مدتی حل یہ ہے کہ گوگل (یوٹیوب کی مالک کمپنی) کیساتھ معاہدہ کیا جائے جس کے تحت معاہدہ کرنے والا ملک مخصوص مواد بلاک کروا سکتا ہے۔ اجلاس کے شرکاء کو پی ٹی اے کے ماہرین نے بتایا کہ معاہدے (جس کے متعلق ماضی میں پاکستان نے کبھی سوچا تک نہیں) کے بغیر اور اس حقیقت کے پیش نظر کہ پاکستان میں چین، ایران، سعودی عرب اور کئی دیگر ممالک کی طرح فلٹریشن سسٹم نصب نہیں ہے، یہ ممکن نہیں کہ یوٹیوب کی مکمل ویب سائٹ کو بلاک کیے بغیر اسلام مخالف فلم کو بلاک کیا جا سکے۔ رابطہ کرنے پر پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ مسئلے کا فوری حل یہ ہے کہ یوٹیوب کو مکمل طور پر بلاک کردیا جائے کیونکہ ایک یا دو کرکے توہین آمیز ویب سائٹس ڈھونڈ کر بلاک کرنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیکڑوں ویب سائٹس، جہاں یہ توہین آمیز فلم موجود تھی، کو بلاک کیا جا چکا ہے لیکن توہین آمیز مواد پھیلتا جا رہا ہے اور دیگر سائٹس پر بھی دستیابی ہوتی جا رہی ہے۔ چیئرمین نے  بتایا کہ وہ سپریم کورٹ کو خط لکھ کر بتائیں گے کہ اس چیلنج سے نمٹنے کا کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ یوٹیوب کو چند روز کیلئے مکمل طور پر بند کردیا جائے۔ چیرمین پی ٹی اے نے تصدیق کی کہ اس مسئلے کا طویل مدتی حل حکومت پاکستان اور گوگل کمپنی کے درمیان معاہدہ ہے لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔ ذرائع کے مطابق اس نئے مسئلے نے پاکستان کے آئی ٹی حکام کی نا اہلی کو بے نقاب کردیا ہے کہ بھارت نے گوگل انتظامیہ کیساتھ جو معاہدہ چار سال قبل کرلیا تھا وہ حکومت پاکستان اب تک نہیں کرپائی۔ پاکستان کے برعکس بھارت نے گوگل انتظامیہ کیساتھ اس معاملے پر بات چیت کرکے اس توہین آمیز فلم کو پہلے ہی بلاک کردیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ملائیشیا نے بھی گوگل کیساتھ ایسا ہی معاہدہ کر رکھا ہے لیکن پاکستان اس معاملے میں لاتعلق اور لاپروا نظر آتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ وزیراعظم پاکستان پرویز اشرف جب وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی تھے تو اس وقت انہوں نے فلٹریشن نظام نصب کرنے کے حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا تاکہ توہین آمیز اور فحش مواد کو روکا جا سکے لیکن اب تک کچھ نہیں ہوا۔ پیر کو سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ پی ٹی اے کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کو کنٹرول کرے لیکن یہ ادارہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہوچکا ہے۔     ادھر پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن (پی ٹی اے) نے سپریم کورٹ کے حکم پر گستاخانہ مواد رکھنے والی 934 ویب سائٹس بند کر دی ہیں۔قبل ازیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پیر کو ایک کیس کی سماعت کے دوران اسلام اور نبی پاکﷺ کی ذات اقدس پر بننے والی گستاخانہ امریکی فلم کو پاکستان میں یو ٹیوب سمیت تمام انٹرنیٹ کی دیگر متنازع ویب سائٹس پر بلاک کرنے کا حکم دیا۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ شان رسالتﷺ کا تحفظ بنیادی فریضہ ہے، پیمرا اور پی ٹی اے آنکھیں کھلی رکھیں، ملک میں معاملات کہیں اور چل پڑے ہیں۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے سے حکم پر فوری عملدرآمد کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ بھی ایسا کوئی مواد پاکستان کی انٹر نیٹ سائٹس پر دستیاب نہ ہو۔ پیر کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے قاضی حسین احمد، جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین اور دیگر کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔ ایک سینئر وکیل نے گستاخانہ فلم کا معاملہ اٹھایا۔ اس پر عدالت نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کے چیئرمین کو فوری طلب کرکے انہیں حکم دیا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ سے اس فلم کی رسائی روک دی جائے بعد میں عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے سے فوری عملدرآمد کی رپورٹ طلب کر لی اور کہا کہ وہ نہ صرف انٹرنیٹ پر متنازعہ فلم کے اجراء کو روکنے کیلئے ہر ممکن اقدام کریں بلکہ آئندہ بھی ایسا کوئی بھی مواد پاکستان کی انٹرنیٹ سائٹس پر دستیاب نہ ہو۔    

No comments:

Post a Comment