Showing posts with label Entertaintment. Show all posts
Showing posts with label Entertaintment. Show all posts

Saturday, October 6, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program

ایک روز ہم ڈیرے پر بیٹھے ہوئے تھے  - میں نے اپنے بابا جی سے پوچھا کہ  "جناب دنیا  اتنی خراب کیوں ہو گئی ہے - اس  قدر مادہ پرست کیوں کر ہو گئی ہے " ؟
بابا جی نے جواب دیا   " دنیا بہت اچھی ہے  - جب ہم اس پر تنگ نظری سے نظر ڈالتے ہیں تو یہ ہمیں تنگ نطر دکھائی دیتی ہے  - جب ہم اس پر کمینگی سے نظر دوڑاتے ہیں  تو یہ ہمیں کمینی نظر آتی ہے - جب اسے خود غرضی سے دیکھتے ہیں تو خود غرض ہو جاتی ہے -  لیکن جب اس پر کھلے دل روشن آنکھ اور محبت بھری نگاہ  سے نظر دوڑاتے ہیں تو پھر اسی دنیا میں کیسے پیارے پیارے لوگ نظر آنے لگتے ہیں  "۔

اشفاق احمد  زاویہ 3 خدا سے زیادہ جراثیموں کا خوف صفحہ 227

Thursday, October 4, 2012

Ashfaq Ahmad Baba Sahba : Gulami

مائیکل اینجلو ویٹی کن گرجے کی چھت پینٹ کر رہا تھا - تو ایک سایہ بار بار اس کو تنگ کرتا تھا اور اس کے نقوش کی راہ میں حائل ہوتا تھا - مائیکل اینجلو جھلا اٹھا اور بڑ بڑانے لگا  - لیکن جب اس نے غور کیا تو وہ سایہ اسی کے وجود کا سایہ تھا  جو اس کے اورتصویر  کے درمیان حائل تھا - اس نے بتی کو ایک کٹورے میں اس انداز سے رکھا کہ اس کی روشنی سیدھی تصویر پر پڑے -  پھر اس نے تصویر کشی کا عمل سکون سے شروع کر دیا - کیونکہ اس کا اپنا سایہ راہ میں حائل نہیں ہو رہا تھا
ایک بات ہمیشہ یاد رکھو اور اس کو سونے کے حروف میں لکھ کر اپنے سامنے لٹکا لو کہ تم ان لوگوں کے غلام ہو جن کی تم تصدیق کے اور موافقت کے تعریف کے خواہاں ہو -  تم جلد ہی محسوس کر لو گے کہ تمہاری جنگ لوگوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ اپنے ذہن کی کج روی کی مابین ہے -  ذہن کو درست کر لو ، پھر سب ٹھیک ہے 

اشفاق احمد  بابا صاحبا صفحہ 550

Aaisay Log Dobara Nahi Mil Saktay...


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : M.A Pass Bili

ایک روز میں جمعہ پڑہنے جا رہا تھا - راستے میں ایک چھوٹا سا کتا ریہڑے کی زد میں آگیا - اور اسے بہت زیادہ چوٹ آگئی وہ جب گھبرا کر گھوما تو تو دوسری طرف سے آنے والی جیپ اس کو لگی ، وہ بالکل مرنے کے قریب پہنچ گیا اسکول کے دو بچے یونیفارم میں آرہے تھے - وہ اس کے پاس بیٹھ گئے - میں بھی ان کے قریب کھڑا ہو گیا - حالانکہ جمعے کا وقت ہو گیا تھا  ان بچوں نے اس زخمی پلے کو اٹھا کر گھاس پر رکھا - اور اس کی طرف دیکھنے لگے - ایک بچے نے جب اس کو تھپتپایا تو اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں وہاں ایک فقیر تھا - اس نے کہا  واہ ، واہ ، واہ ! سارے منظر کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا  ، جب کہ ہم کچھ آبدیدہ اور نم دیدہ تھے اس فقیر نے کہا ، اب یہ اس سرحد کو چھوڑ کر دوسری سرحد کی طرف چلا گیا - وہ کہنے لگا کہ موت یہ نہیں تھی کہ  اس کتے نے آنکھیں  بند کر لیں ، اور یہ مر گیا اس کی موت اس وقت واقع ہوئی تھی جب یہ زخمی ہوا تھا ، اور لوگ اس کے قریب سڑک کراس کر رہے تھے اور کوئی رکا نہیں تھا  - پھر اس نے سندھی کا ایک دوہڑا پڑہا - اس کا مجھے بھی نہیں پتہ  کہ کیا مطلب تھا - اور وہ آگے چلا گیا - وہ کوئی پیسے مانگنے والا  نہیں تھا - پتہ نہیں کون تھا اور وہاں کیوں آیا تھا ؟
وہ سپردگی جو اس اسکول کے بچے نے بڑی دل کی گہرائی سے اس پلے کو عطا کی ، ویسے ہی سپردگی ہم جیسے پلوں 
 -کو خدا کی طرف سے بڑی محبت اور بڑی شفقت سے اور بڑے رحم اور بڑے کرم کے ساتھ عطا ہوتی ہے 
 لیکن یہ ہے کہ اسے  موصول کیسے کیا جائے  ؟

اشفاق احمد زاویہ 2  ایم - اے  پاس بلی صفحہ 61 

Thursday, September 27, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Eeman

میرے ایک استاد اونگارتی تھے - مین نے ان سے پوچھا کہ سر  " ایمان کیا ہوتا ہے " ؟
انہوں نے جواب دیا کہ  ایمان خدا کے کہے پر عمل کرتے جانے اور کوئی سوال نہ کرنے کا نام ہے - یہ ایمان کی ایک ایسی تعریف تھی جو دل کو لگتی تھی
-اٹلی میں ایک بار ہمارے ہوٹل میں آگ لگ گئی اور ایک بچہ تیسری منزل پر رہ گیا 
شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے - اس بچے کا باپ  نیچے زمین پر کھڑا بڑا بیقرار اور پریشان تھا - اس لڑکے کو کھڑکی    میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا  چھلانگ مار بیٹا
-"اس لڑکے نے کہا کہ  " بابا کیسے چھلانگ ماروں مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے 
(اب وہاں روشنی اس کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی )
اس کے باپ نے کہا  کہ تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار ، تیرا باپ تیرے نیچے ہے ، تو مجھے نہیں دیکھ رہا میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں ناں
-"اسی طرح اللہ تعالیٰ  فرماتے ہیں کہ " تم مجھے نہیں دیکھ رہے - میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں نا
اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کی ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں - اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے 
اللہ آپ کو خوش رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے  آمین 

اشفاق احمد زاویہ 3 شہ رگ کا ڈرائنگ روم  صفحہ 198 

Wednesday, September 26, 2012

Peer-e-Kamil : Ahsaan

شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہوتی ہے ایسی بیماری جو ہمارے دلوں کو روز بروز کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہے ۔ جو ہماری زبان پر شکوہ کے علاوہ اور کچھ آنے ہی نہیں دیتی ۔اگر ہمیں الله کا شکر ادا کرنے کی عادت نہ ہو تو ہمیں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی بھی عادت نہیں پڑتی
اگر ہمیں خالق کے احسانوں کو یاد رکھنے کی عادت نہ ہو تو ہم کسی مخلوق کا احسان بھی یاد رکھنے کی عادت نہیں سیکھ سکتے

"پیر کامل" : عمیرہ احمد
 

Tuesday, September 25, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program, Bandagi..

بندگی کی شرط یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کا ہو جائے - پھر اللہ تعالیٰ بندے کا ہو جاتا ہے  - جس کی بندگی کرنا چاہتا ہے اس کا  بندہ ہو جائے تو بندگی ہے ورنہ نیک عادت ہے  - نیک عادت کو خطرہ ہر مقام پر موجود رہتا ہے - جس طرح بکرہ حلال ہے-  تکبیر ہو جائے تو طیب ہوجاتا ہے - جھٹکا ہو جائے تو ناپاک ہو جاتا ہے -  ۔

Thursday, September 20, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Muhabat Ki Haqeeqat

محبت آزادی ہے۔ مکمل آزادی۔ حتٰی کہ محبت کے پھندے بھی آزادی ہیں جو شخص بھی اپنے آپ کو محبت کی ڈوری سے باندھ کر محبت کا اسیر ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں کہا کرتا ہوں آزادی کی تلاش میں مارے مارے نہ پھرو۔ محبت تلاش نہ کرو۔۔۔۔ آزادی کی تلاش بیسیوں مرتبہ انسان کو انا کے ساتھ باندھ کر اسے نفس کے بندی خانے میں ڈال دیتی ہے۔ محبت کا پہلا قدم اٹھتا ہی اس وقت ہے جب وجود کے اندر سے انا کا بوریا بستر گول ہو جاتا ہے۔ محبت کی تلاش انا کی موت ہے۔ انا کی موت مکمل آزادی ہے۔

زاویہ سوئم سے اقتباس

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Khushi Ka Raaz

ماں خدا کی نعمت ہے اور اس کے پیار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتا ہے۔ بچپن میں‌ایک بار بادو باراں کا سخت طوفان تھا اور جب اس میں بجلی شدت کے ساتھ کڑکی تو میں خوفزدہ ہو گیا۔ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہا تھا۔ میری ماں‌نے میرے اوپر کمبل ڈالا اور مجھے گود میں بٹھا لیا، تو محسوس ہوا گویا میں امان میں ‌آگیا ہوں۔
میں‌ نے کہا، اماں! اتنی بارش کیوں‌ہو رہی ہے؟‌ اس نے کہا، بیٹا! پودے پیاسے ہیں۔ اللہ نے انہیں پانی پلانا ہے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ہو رہی ہے۔ میں‌ نے کہا، ٹھیک ہے! پانی تو پلانا ہے، لیکن یہ بجلی کیوں بار بار چمکتی ہے؟ یہ اتنا کیوں‌کڑکتی ہے؟ وہ کہنے لگیں، روشنی کر کے پودوں کو پانی پلایا جائے گا۔ اندھیرے میں تو کسی کے منہ میں، تو کسی کے ناک میں‌ پانی چلا جائے گا۔ اس لئے بجلی کی کڑک چمک ضروری ہے۔
میں ماں کے سینے کے ساتھ لگ کر سو گیا۔ پھر مجھے پتا نہیں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی، یا نہیں۔ یہ ایک بالکل چھوٹا سا واقعہ ہے اور اس کے اندر پوری دنیا پوشیدہ ہے۔ یہ ماں‌کا فعل تھا جو ایک چھوٹے سے بچے کے لئے، جو خوفزدہ ہو گیا تھا۔ اسے خوف سے بچانے کے لئے، پودوں کو پانی پلانے کے مثال دیتی ہے۔ یہ اس کی ایک اپروچ تھی۔ گو وہ کوئی پڑھی لکھی عورت نہیں تھیں۔ دولت مند، بہت عالم فاضل کچھ بھی ایسا نہیں تھا، لیکن وہ ایک ماں تھی۔ میں جب نو سال کا ہوا تو میرے دل میں ایک عجیب خیال پیدا ہوا کہ سرکس میں بھرتی ہو جاؤں اور کھیل پیش کروں، کیونکہ ہمارے قصبے میں ایک بہت بڑا میلہ لگتا تھا۔ تیرہ، چودہ، پندرہ جنوری کو اور اس میں بڑے بڑے سرکس والے آتے تھے۔ مجھے وہ سرکس دیکھنے کا موقع ملا، جس سے میں بہت متأثر ہوا۔ جب میں نے اپنے گھر میں اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ میں سرکس میں‌اپنے کمالات دکھاؤں گا، تو میری نانی "پھا" کر کے ہنسی اور کہنے لگیں، ذرا شکل تو دیکھو! یہ سرکس میں‌ کام کرے گا۔ میری ماں‌ نے بھی کہا، دفع کر تو بڑا ہو کر ڈپٹی کمشنر بنے گا۔ تو نے سرکس میں‌بھرتی ہو کر کیا کرنا ہے۔ اس پر میرا دل بڑا بجھ سا گیا۔ وہی ماں‌جس نے مجھے اتنی محبت سے اس بادوباراں کے طوفان میں امان اور آسائش عطا کی تھی۔ وہ میری خواہش کی مخالفت کر رہی تھی۔
میرے والد سن رہے تھے۔ انہوں‌نے کہا کہ نہیں، کیوں نہیں؟ اگر اس کی صلاحیت ہے تو اسے بالکل سرکس میں ہونا چاہئے۔ تب میں بہت خوش ہوا۔ اب ایک میری ماں‌کی مہربانی تھی۔ ایک والد کی اپنی طرف کی مہربانی۔ انہوں‌نے صرف مجھے اجازت ہی نہیں دی، بلکہ ایک ڈرم جو ہوتا ہے تارکول والا، اس کو لال، نیلا اور پیلا پینٹ کر کے بھی لے آئے اور کہنے لگے، اس پر چڑھ کر آپ ڈرم کو آگے پیچھے رول کیا کریں۔ اس پر آپ کھیل کریں گے تو سرکس کے جانباز کھلاڑی بن سکیں گے۔ میں نے کہا منظور ہے۔
چنانچہ میں اس ڈرم پر پریکٹس کرتا رہا۔ میں نے اس پر اس قدر اور اچھی پریکٹس کی کہ میں اس ڈرم کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق کہیں بھی لے جا سکتا تھا۔ گول چکر کاٹ سکتا تھا۔ بغیر پیچھے دیکھے ہوئے، آگے پیچھے آجا سکتا تھا۔ پھر میں نے اس ڈرم پر چڑھ کر ہاتھ میں تین گیندیں اچھالنے کی پریکٹس کی۔ وہاں میرا ایک دوست تھا۔ ترکھانوں کا لڑکا محمد رمضان۔ اس کو بھی میں نے پریکٹس میں شامل کر لیا۔ وہ اچھے چھریرے بدن کا تھا۔ وہ مجھے سے بھی بہتر کام کرنے لگا۔ بجائے گیندوں کے وہ تین چھریاں لے کر ہوا میں اچھال سکتا تھا۔ ہم دونوں‌ڈرم پر چڑھ کر اپنا یہ سرکس لگاتے۔ ایک ہماری بکری تھی، اس کو بھی میں‌نے ٹرینڈ کیا۔ وہ بکری بھی ڈرم پر آسانی سے چڑھ جاتی۔
ہماری ایک "بُشی" نامی کتا تھا، وہ لمبے بالوں والا روسی نسل کا تھا۔ اس کو ہم نے کافی سکھایا، لیکن وہ نہ سیکھ سکا۔ وہ یہ کام ٹھیک سے نہیں کر سکتا تھا۔ حالانکہ کتا کافی ذہین ہوتا ہے۔ وہ بھونکتا ہوا ہمارے ڈرم کے ساتھ ساتھ بھاگتا تھا، مگر اوپر چڑھنے سے ڈرتا تھا۔ ہم نے اعلان کر دیا کہ یہ کتا ہماری سرکس ہی کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ جوکر کتا ہے اور یہ کوئی کھیل نہیں کرسکتا، صرف جوکر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔
خیر! ہم یہ کھیل دکھاتے رہے۔ ہم اپنا شو کرتے تومیرے ابا جی ہمیشہ ایک روپیہ والا ٹکٹ لے کر کرسی ڈال کر ہماری سرکس دیکھنے بیٹھ جاتے تھے۔ ہمارا ایک ہی تماشائی ہوتا تھا اُور کوئی بھی دیکھنے نہیں آتا تھا۔ صرف ابا جی ہی آتے تھے۔ ہم انہیں کہتے کہ آج جمعرات ہے۔ آپ سرکس دیکھنے آئیے گا۔ وہ کہتے، میں‌ آؤں گا۔ وہ ہم سے ایک روپے کا ٹکٹ بھی لیتے تھے، جو ان کی شفقت کا ایک انداز تھا۔
زندگی میں کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے اور آپ اس بات کو مائنڈ نہ کیجئے گا۔ اگر آپ کو روحانیت کی طرف جانے کا بہت شوق ہے تو اس بات کو برا نہ سمجھئے گا کہ بعض اوقات ماں‌باپ کے اثرات اس طرح سے اولاد میں منتقل نہیں ہوتے، جس طرح سے انسان آرزو کرتا ہے۔اس پر کسی کا زور بھی نہیں ہوتا۔ ٹھیک چوالیس برس بعد جب میرا پوتا جو بڑا اچھا، بڑا ذہین لڑکا اور خیر و شر کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے، وہ جاگنگ کر کے گھر میں واپس آتا ہے، تو اس کے جوگر، جو کیچڑ میں‌ لتھڑے ہوئے ہوتے ہیں، وہ ان کے ساتھ اندر گھس آتا ہے اور وہ ویسے ہی خراب جوگروں کے ساتھ چائے بھی پیتا ہے اور سارا قالین کیچڑ سے بھر دیتا ہے۔ میں اب آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے لگا ہوں کہ میں اسے برداشت نہیں کرتا کہ وہ خراب، کیچڑ سے بھرے جوگرز کے ساتھ قالین پر چڑھے۔ میرا باپ جس نے مجھے ڈرم لا کر دیا تھا، میں اسی کا بیٹا ہوں اور اب میں پوتے کی اس حرکت کو برداشت نہیں کرتا۔ دیکھئے یہاں‌کیا تضاد پیدا ہوا ہے۔ میں نے اپنے پوتے کو شدت کے ساتھ ڈانٹا اور جھڑکا کہ تم پڑھے لکھے لڑکے ہو، تمھیں شرم آنی چاہئے کہ یہ قالین ہے، برآمدہ ہے اور تم اسے کیچڑ سے بھر دیتے ہوں۔
اس نے کہا، دادا آئی ایم ویری سوری!! میں جلدی میں ہوتا ہوں، جوگر اتارنے مشکل ہوتے ہیں۔ امی مجھے بلا رہی ہوتی ہیں کہ have a cup of tea، تو میں جلدی میں‌ایسے ہی اندر آجاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو، چنانچہ میں‌اس پر کمنٹس کرتا رہا۔ ٹھیک ہے مجھے ایک لحاظ سے حق تو تھا، لیکن جب یہ واقعہ گزر گیا تو میں‌نے ایک چھوٹے سے عام سے رسالے میں‌اقوالٍ زریں وغیرہ میں ایک قول پڑھا کہ" جو شخص ہمیشہ نکتہ چینی کے موڈ میں‌رہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا رہتا ہے، وہ اپنے آپ میں تبدیلی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔" انسان کو خود یہ سوچنا چاہئے کہ جی مجھ میں‌فلاں تبدیلی آنی چاہئے۔ جی میں‌سیگرٹ پیتا ہوں، اسے چھوڑنا چاہتا ہوں، یا میں صبح نہیں اٹھ سکتا۔ میں‌اپنے آپ کو اس حوالے سے تبدیل کر لوں۔ ایک نکتہ چیں میں‌کبھی تبدیلی پیدا نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس کی ذات کی جو بیٹری ہے، وہ کمزور ہونے لگتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بیڑی کے سیل کمزور ہو جائیں، تو ایک بیٹری کا بلب ذرا سا جلتا ہے، پھر بجھ جاتا ہے۔ اسی طرح کی کیفیت ایک نکتہ چیں‌کی ہوتی ہے۔
میں‌نے وہ قول پڑھنے کے بعد محسوس کیا کہ میری نکتہ چینی اس لڑکے پر ویسی نہیں‌ہے، جیسا کہ میرے باپ کی ہو سکتی تھی۔ میرے باپ نے سرکس سیکھنے کی بات پر مجھے نہیں‌کہا کہ عقل کی بات کر، تو کیا کہ رہا ہے؟‌اس نے مجھے یہ کہنے کی بجائے ڈرم لا کر دیا اور میری ماں‌نے مجھے بادوباراں‌کے طوفان میں‌یہ نہیں‌کہا کہ چپ کر، ڈرنے کی کیا بات ہے؟ اور میں اس میں‌کمنٹری کر کے نقص نکال رہا ہوں۔ ابھی میں اس کا کوئی ازالہ نہیں‌کر سکا تھا کہ اگلے دن میں‌نے دیکھا میرے پوتےکی ماں (میری بہو) بازار سے تار سے بنا ہوا میٹ لے آئی اور اس کے ساتھ ناریل کے بالوں والا ڈور میٹ بھی لائی، تاکہ اس کے ساتھ پیر گٍھس کے جائے اور اندر کیچڑ نہ جانے پائے۔ سو، یہ فرق تھا مجھ میں اور اس ماں‌میں۔ میں‌نکتہ چینی کرتا رہا اور اس نے حل تلاش کر لیا۔
جب آپ زندگی میں داخل ہوتے ہیں اور باطن کے سفر کی آرزو کرتے ہیں، تو جب تک آپ چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال نہ کریں گے اور بڑے میدان تک پہنچنے کے لئے پگڈنڈی نہ تیار کریں گے، وہاں‌نہیں جا سکیں‌گے۔ آپ ہمیشہ کسی "بابے" کی بابت پوچھتے رہتے ہیں۔ ہمارے باباجی سے فیصل آباد سے آنے والے صاحب نے بھی یہی پوچھا اور کہنے لگے کہ سائیں صاحب! آپ کو تو ماشاء اللہ خداوند تعالٰی نے بڑا درجہ دیا ہے۔ آپ ہم کو کسی "قطب" کے بارے میں‌بتلا دیں۔ باباجی نے ان کی یہ بات نظر انداز کر دی۔ وہ صاحب پھر کسی قطب وقت کے بارے دریافت کرنے لگے۔ جب انہوں نے تیسری بار یہی پوچھا تو بابا جی نے اس سے کہا کہ کیا تم نے اسے قتل کرنا ہے؟
آدمی کا شاید اس سے یہی مطلب یا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی بابا ملے اور میں اس کی غلطیاں‌ نکالوں۔اگر روح‌کی دنیا کو ٹٹولنے کا کوئی ایسا ارادہ ہو یا اس دنیا میں‌کوئی اونچی پکار کرنے کی خواہش ہو کہ "میں ‌آگیا" تو اس کے لئے ایک راستہ متعین ہونا چاہئے، تیاری ہونی چاہئے۔ تبھی انسان وہاں تک جا سکتا ہے۔ ہم ڈائریکٹ کبھی وہاں‌نہیں جا سکتے۔آپ کو اس دنیا کے اندر کوئی پیرا شوٹ لے کر نہیں جائے گا۔ جب یہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں‌ رونما ہونگی، تو جا کر کہیں بات بنے گی۔
میرے بھائی نے ایک بار مجھ سے کہا کہ اگر آپ نے کچھ لکھنے لکھانے کا کام کرنا ہے تو میرے پاس آکر مہینے دو گزار لیں (ان کا رینالہ خورد میں ایک مرغی خانہ ہے)۔ میں‌وہاں‌گیا، بچے بھی ساتھ تھے۔ وہاں جا کر تو میری جان بڑی اذیت میں پھنس گئی۔ وہ اچھی سر سبز جگہ تھی۔ نہر کا کنارہ تھا، لیکن وہ جگہ میرے لئے زیادہ Comfortable ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ آسائشیں‌میسر نہیں تھیں۔ ایک تو وہاں‌مکھیاں‌بہت تھیں، دوسرے مرغی خانے کے قریب ہی ایک اصطبل تھا، وہاں‌سے گھوڑوں‌کی بو آتی تھی۔ تیسرا وہاں‌ پر مشکل یہ تھی کہ وہاں ایک چھوٹا فریج تھا، اس میں ضرورت کی تمام چیزیں نہیں رکھی جا سکتی تھیں اور بار بار بازار جانا پڑتا تھا۔یہ مجھے سخت ناگوار گزرتا تھا۔
اب دیکھئے خدا کی کیسے مہربانی ہوتی ہے۔ وہی مہربانی جس کا میں آپ سے اکثر ذکر کرتا ہوں۔ میں اصطبل میں‌یہ دیکھنے کے لئے گیا کہ اس کی بو کو روکنے کے لئے کسی دروازے کا بندوبست کیا جا سکے۔ وہاں‌جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ میرے تینوں بچے گھوڑوں‌کو دیکھنے کے لئے اصطبل کے دروازوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ وہ صبح‌جاگتے تھے تو سب سے پہلے آکر گھوڑوں کو دیکھتے۔ انہیں گھوڑوں کے ساتھ اتنا عشق ہو گیا تھا۔ ان میں ایک گھوڑا ایسا تھا جو بڑا اچھا تھا۔ وہ انہیں ہمیشہ ہنہنا کر ہنساتا تھا اور اگر وہ "ٹینے مینے" بچے وقت پر نہیں پہنچتے تھے، تو شاید انہیں بلاتا تھا، اس گھوڑے کی ہنہناہٹ سے یہ اندازہ ہوتا تھا۔ اب میں نے کہا کہ نہیں، یہ خوشبو یا بدبو، یہ اصطبل اور گھوڑے اور ان بچوں کی دوستی مجھے وارے میں ہے اور اب مجھے یہ گھوڑے پیارے ہیں۔ بس ایسے ٹھیک ہے۔
ہم شہر کے صفائی پسند لوگ جو مکھی کو گوارا نہیں کرتے۔ ایک بار میرے دفتر میں میرے بابا جی(سائیں جی) تشریف لائے، تو اس وقت میرے ہاتھ میں‌مکھیاں مارنے والا فلیپ تھا۔ مجھے اس وقت مکھی بہت تنگ کر رہی تھی۔ میں‌مکھی مارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس لئے مجھے بابا جی کے آنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ اچانک ان کی آواز سنائی دی۔ وہ کہنے لگے، یہ اللہ نے آپ کے ذوقٍ کشتن کے لئے پیدا کی ہے۔ میں‌نے کہا، جی یہ مکھی گند پھیلاتی ہے، اس لئے مار رہا تھا۔ کہنے لگے، یہ انسان کی سب سے بڑی محسن ہے اور تم اسے مار رہے ہو۔ میں نے کہا، جی یہ مکھی کیسے محسن ہے؟ کہنے لگے، یہ بغیر کوئی کرایہ لئے، بغیر کوئی ٹیکس لئے انسان کو یہ بتانے آتی ہے کہ یہاں‌گند ہے۔ اس کو صاف کر لو تو میں چلی جاؤں گی اور آپ اسے مار رہے ہیں۔ آپ پہلے جگہ کی صفائی کر کے دیکھیں، یہ خود بخود چلی جائے گی۔ سو، وہاں باباجی کی کہی ہوئی وہ بات میرے ذہن میں‌لوٹ کر آئی اور میں‌نے سوچا کہ مجھے اس کمرے میں‌کوئی فریش چیزیں پھول یا سپرے وغیرہ رکھنی چاہیں اور یہاں‌کی صفائی پر دھیان دینا چاہئے۔ وہ فرش جیسا بھی تھا، اس کو گیلا کر کے میں نے جھاڑو لے کر خود خوب اچھی طرح سے صاف کیا۔ آپ یقین کریں پھر مجھے مکھیوں نے تنگ نہیں کیا۔
جب میں سودا لینے کے لئے(جس سے میں بہت گھبراتا ہوں‌) ایک میل کے فاصلے پر گیا، تو میں نے وہاں اپنے بچپن کے کئی سال گزارنے کے بعد لبساطیوں کی دکانیں‌دیکھیں، جو ہمارے بڑے شہروں‌ میں ‌نہیں ہوتیں۔ وہاں‌ پر میں‌نے بڑی دیر بعد دھونکنی کے ساتھ برتن قلعی کرنے والا بندہ دیکھا، پھر عجیب بات، جس سے آپ سارے لوگ محروم ہیں اور آپ نہیں جانتے کہ وہاں ایک کسان کا لڑکا دیکھا، جو گندم کے باریک "ناڑ" جو تقریباً چھ انچ لمبا تھا، اسے کاٹ کر اس کے ساتھ "الغوزہ" بجاتا تھا۔ وہ اتنا خوبصورت الغوزہ بجاتا تھا کہ اگر آپ اسے سننے لگیں، تو آپ بڑے بڑے استادوں کو بھول جائیں۔ پھر میں‌آرزو کرنے لگا کہ مجھے ہر شام بازار جانے کا موقع ملے۔ یہ چیزیں‌چھوٹی چھوٹی ہیں اور یہ بظاہر معمولی لگتی ہیں، لیکن ان کی اہمیت اپنی جگہ بہت زیادہ ہے۔
اگر آپ معمولی باتوں کی طرف دھیان دیں گے، اگر آپ اپنی "کنکری" کو بہت دور تک جھیل میں پھینکیں گے تو بہت بڑا دائرہ پیدا ہوگا، لیکن آپ کی یہ آرزو ہے کہ آپ کو بنا بنایا دائرہ کہیں‌سے مل جائے اور وہ آپ کی زندگی میں داخل ہو جائے، ایسا ہوتا نہیں ہے۔ قدرت کا ایک قانون ہے کہ جب تک آپ چھوٹی چیزوں ‌پر، معمولی سی باتوں ‌پر، جو آپ کی توجہ میں کبھی نہیں آئیں، اپنے بچے پر اور اپنی بھتیجی پر، آپ جب تک اس کی چھوٹی سی بات کو دیکھ کر خوش نہیں‌ہوں‌گے، تو آپ کو دنیا کی کوئی چیز یا دولت خوشی عطا نہیں‌کر سکے گی، کیونکہ روپیہ آپ کو‌خوشی عطا نہیں کر سکتا۔ روپے پیسے سے آپ کوئی کیمرہ خرید لیں، خواتین کپڑے خرید لیں اور وہ یہ چیزیں خریدتی چلی جاتی ہیں کہ یہ ہمیں خوشی عطا کریں گی۔ لیکن جب وہ چیز گھر میں آجاتی ہے تو اس کی قدر و قیمت گھٹنا شروع ہو جاتی ہے۔
خوشی تو ایسی چڑیا ہے جو آپ کی کوشش کے بغیر آپ کے دامن پر اتر آتی ہے۔ اس کے لئے آپ نے کوشش بھی نہیں‌کی ہوتی، تیار بھی نہیں‌ہوئے ہوتے، لیکن وہ آجاتی ہے۔ گویا اس رُخ ‌پر جانے کے لئے جس کی آپ آرزو رکھتے ہیں، جو کہ بہت اچھی آرزو ہے، کیونکہ روحانیت کے بغیر انسان مکمل نہیں ہوتا، مگر جب تک اسے تلاش نہیں کرے گا، جب تک وہ راستہ یا پگڈنڈی اختیار نہیں‌کرے گا، اس وقت تک اسے اپنے مکمل ہونے کا حق نہیں ‌پہنچتا۔ انسان یہ کوشش کرتا ضرور ہے، لیکن اس کی Methodology مختلف ہوتی ہے۔ وہ چھوٹی چیزوں سے بڑی کی طرف نہیں جاتا۔ آپ جب ایک بار یہ فن سیکھ جائیں گے، پھر آپ کو کسی بابے کا ایڈریس لینے کی ضرورت نہیں‌ پڑے گی۔ پھر وہ چھوٹی چیز آپ کے اندر بڑا بابا بن کر سامنے آجائے گی اور آپ سے ہاتھ ملا کر آپ کی گائیڈ بن جائے گی اور آپ کو اس منزل پر یقیناً لے جائے گی، جہاں‌جانے کے آپ آرزومند ہیں۔
سو، ایک بار کبھی چھوٹی چیز سے آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ کبھی کسی نالائق پڑوسی سے خوش ہونے کی کوشش کر کے ہی یا کسی بے وقوف آدمی سے خوش ہو کر یا کبھی اخبار میں‌خوفناک خبر پڑھ کر دعا مانگیں کہ یا اللہ! تو ایسی خبریں کم کر دے، تو آپ کا راستہ، آپ کا پھاٹک کھلنا شروع ہوگا اور مجھے آپ کے چہروں سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ یہ کوشش ضرور کریں گے۔
اللہ آپ کو بہت خوش رکھے۔ بہت آسانیاں ‌عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین!!

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Zavia 2

ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔
زاویہ دوم، باب گیارہ سے اقتباس

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Hikmat Ki Batain

ہمارے بابا سائیں نور والے فرماتے ہیں کہ اللہ کی آواز سننے کی پریکٹس کرنی چاہئے، جو شخض اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملا لیتا ہے، اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی نے بابا جی سے پوچھا کہ "اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملانا بھلا کیسے ممکن ہے؟" تو جواب ملا کہ "انار کلی بازار جاؤ، جس وقت وہاں خوب رش ہو اس وقت جیب سے ایک روپے کا بڑا سکہ (جسے اس زمانے میں ٹھیپہ کہا جاتا تھا) نکالو اور اسے ہوا میں اچھال کر زمین پر گراؤ۔ جونہی سکہ زمین پر گرے گا، تم دیکھنا کہ اس کی چھن کی آواز سے پاس سے گزرنے والے تمام لوگ متوجہ ہوں گے اور پلٹ کر زمین کی طرف دیکھیں گے، کیوں؟ اس لئے کہ ان سب کے دل اس سکے کی چھن کی آواز کے ساتھ "ٹیون اپ" ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ یا تو تم بھی اپنا دل اس سکے کی آواز کے ساتھ "ٹیون اپ" کر لو یا پھر اپنے خدا کی آواز کے ساتھ ملا لو"

بابا جی کا بیان ختم ہوا تو نوجوانوں کے گروہ نے ان کو گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ کسی نے پوچھا " سر! ہمیں سمجھائیں کہ ہم کیسے اپنا دل خدا کے ساتھ "ٹیون اپ" کریں کیونکہ ہمیں یہ کام نہیں آتا؟" اشفاق صاحب نے اس بات کا بھی بے حد خوبصورت جواب دیا، فرمانے لگے"یار ایک بات تو بتاؤ، تم سب جوان لوگ ہو، جب تمہیں کوئی لڑکی پسند آ جائے تو تم کیا کرتے ہو؟ کیا اس وقت تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے؟ نہیں، اس وقت تمہیں سارے آئیڈیاز خود ہی سوجھتے ہیں، ان سب باتوں کے لئے تمہیں کسی گائڈینس کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس میں تمہاری اپنی مرضی شامل ہوتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب خدا کی بات آتی ہے تو تمہیں وہاں رہنمائی بھی چاہئے اور تمہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ خدا کے ساتھ اپنے آپ کو" ٹیون اپ "کیسے کرنا ہے؟

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Ilm aur Danish

میں نے تائے سے کہا تایا سن میں تمہیں ایک بڑے کام کی بات بتاتا ہوں - وہ بڑے تجسس سے میری طرف دیکھنے لگا - میں نے اسے بتایا کہ یہ جو مکھی ہوتی ہے اور جسے معمولی اور بہت حقیر خیال کیا جاتا ہے یہ دیکھنے اور بینائی کے معاملے مین تمام کیڑوں سے تیز ہوتی ہے کیونکہ اس کی آنکھوں میں تین ہزار محدب شیشے یا لینز لگے ہوتے ہیں اور یہ ہر زاویے سے دیکھ سکتی ہے - اور یہی وجہ ہوتی ہے کہ جب بھی اور جس طریقے سے بھی اس پر حملہ آور ہوں ، یہ اڑ جاتی ہے - اور اللہ نے اسے یہ بہت بڑی اور نمایاں خصوصیت دی ہے - اب مین سمجھ رہا تھا کہ اس بات کا تائے پر بہت رعب پڑے گا   
!کیونکہ میرے خیال میں یہ بڑے کمال کی بات تھی لیکن تایا کہنے لگا
" لکھ لعنت ایسی مکھی تے جندیان تن ہزار اکھاں ہوون او جدوں وی بہندی ائے گندگی تے بہندی ائے "
-ایسی مکھی پر لعنت بیشمار ہو جس کی تین ہزار آنکھین ہوں اور وہ جب بھی بیٹھے گندگی پر ہی بیٹھے
-خواتین و حضرات  ! یہ بات  ہے دانش کی - ایسی باتیں علم کے زمرے میں نہیں آتی ہیں 

از اشفاق احمد  زاویہ 3 فوک وزڈم  صفحہ 94

Wednesday, September 19, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Tawakal

ہم سب کی طرف سے اہلِ زاویہ کو سلام پہنچے۔ اس میز پر ہم گزشتہ کئی ماہ اور ہفتوں سے پروگرام کر رہے ہیں۔ اس میز پر کچھ کھانے پینے کی اشیاء ہوتی ہیں۔ ابھی ایک لمحہ قبل میں حاضرین سے درخواست کر رہا تھا کہ یہ آپ کے لیے ہیں اور آپ انہیں بڑے شوق سے استعمال کر سکتے ہیں لیکن ہم زندگی میں اتنے سیانے محتاط، عقل مند اور اتنے "ڈراکل" ہو گۓ ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید اس میں کوئی کوتاہی یا غلطی ہو جاۓ گی اور جب میں اس بات کو ذرا وسیع کر کے دیکھتا ہوں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم صرف احتیاط کرنے کے لیے پیدا ہوۓ ہیں اور جب اس کو ذرا اور وسیع تر دائرے میں میں پھیلاتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اور میرے معاشرے کے لوگ سارے کے سارے ضرورت سے زیادہ خوفزدہ ہو گۓ ہیں اور انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہو جاۓ۔ ہم آج کل نقصان کی طرف مائل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے اسی لیے اگر ہم کو کوہ پیمائی کرنا پڑے۔ ہمالیہ کی چوٹی سر کرنی پڑے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا "رسکی" کام ہے۔ رسک کاہے کو لینا، بہتر یہی ہے کہ آرام سے رہیں اور چار پیسے بنانے کے لیے کوئی پروگرام بنائیں۔ چار پیسے بنانا اور اپنی مالی زندگی کو مزید مستحکم کرنا کچھ ضرورت سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ہم تعلیم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ یہ ہم کو فائدہ دے گی یا ہم اس سے پیسے حاصل کریں گے اور تعلیم کا تعلق ہم نوکری کے ساتھ جوڑتے ہیں حالانکہ علم اور نوکری کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایمانداری کے ساتھ دیکھا جاۓ تو پتہ یہ چلتا ہے کہ علم حاصل کرنا تو ایک اندر کی خوب صورتی ہے۔ جیسے آپ باہر کی خوب صورتی کے لیے پاؤڈر لگاتے ہیں اور میک اپ کرتے ہیں۔ لڑکیاں لپ اسٹک اور کاجل لگاتی ہیں اسی طرح انسان اپنی روح کو بالیدگی عطا کرنے کے لیے علم حاصل کرتا ہے۔ لیکن ہم نے علم کو نوکری سے وابستہ کر دیا ہے۔ آۓ روز اخباروں میں چھپتا ہے کہ جی تین ہزار نوجوان ایم۔بی۔اے ہو گۓ ہیں انہیں نوکری نہیں ملتی۔ ایک زمانے میں میں یہ بات سمجھنے میں پھنس گیا کہ صاحبِ علم کون لوگ ہوتے ہیں اور یہ بات میری سمجھ اور گرفت میں نہیں آتی تھی۔ میں نے یونیورسٹی میں دوستوں اور پروفیسروں سے اس بابت پوچھا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ پھر میں نے ولایت والوں سے خط و کتابت میں پوچھنا شروع کیا اور ان سے پوچھا کہ

Who is Educated Person in the Real Sense of its Term

ان کی طرف سے موصول ہونے والے جواب بھی ایسے نہیں تھے جن سے میں مطمئن ہو جاتا۔ میرے پاس لوگوں کے اس بابت جوابات کی ایک موٹی فائل اکھٹی ہو گئی۔ ایک دن میں نے اپنے بابا جی کے پاس ڈیرے پر گیا۔ اس دن ڈیرے پر گاجر گوشت پکا ہوا تھا۔ مجھے کہنے لگے کہ کھاؤ۔ میں نے کھانا کھایا اور وہ فائل ایک طرف رکھ دی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اشفاق میاں یہ کیا ہے۔ میں نے بتایا یہ فائل ہے۔

کہنے لگے یہ تو بڑی موٹی ہے اور اس میں کاغذات کیا ہیں۔ میں نے کہا کہ جی یہ آپ کے کام کے نہیں ہیں۔ یہ انگریزی میں ہیں۔

وہ دیکھ کر کہنے لگے کہ اس میں تو چھٹیاں بھی ہیں۔ ان پر ٹکٹ بھی لگے ہوۓ ہیں اور ان پر تو بڑے پیسے لگے ہوۓ ہو گے۔

مجھ سے فرمانے لگے کہ تو باہر خط کیوں لکھتا ہے؟ میں نے کہا بابا جی ایک ایسا مسئلہ سامنے آ گیا تھا جو مجھے باہر کے لوگوں سے حل کروانا تھا کیونکہ ہمارے ہاں ساری دانش ختم ہو گئی ہے۔ وہ کہنے لگے ایسی کونسی بات ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک مسئلے میں الجھا ہوا ہوں۔ وہ یہ کہ آخر صاحبِ علم کون ہوتا ہے؟

وہ کہنے لگے۔ بھئی تم نے اتنا خرچا کیوں کیا۔ آپ میرے پاس ڈیرے پر آتے اور یہ سوال ہم سے پوچھ لیتے۔ ہمارے بابا جی باوصف اس کے کہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے انہیں ایک لفظ "Note" آتا تھا۔ جانے انہوں نے کہاں سے یہ لفظ سیکھا تھا۔

مجھے کہنے لگے۔ "Note" !" صاحبِ علم وہ ہوتا ہے جو خطرے کے مقام پر اپنی جماعت میں سب سے آگے ہو اور جب انعام تقسیم ہونے لگے تو جماعت میں سب سے پیچھے ہو۔"

یہ سننے کے بعد میں بڑا خوش ہوا کیونکہ جب انسان کو علم عطا ہو جاتا ہے تو اس کو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اور ممکن ہے میرا یہ خیال غلط ہو لیکن میرا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کسی نہ کسی طرح سے علم کی کمی ہو رہی ہے اور احتیاط کی زیادتی ہو رہی ہے۔ میں خود بڑا محتاط ہوں۔ میرے پوتے، نواسے نواسیوں کی تعداد بڑھی تو میں ایک خوفزدہ انسان میں تبدیل ہو گیا کہ ان کا کیا بنے گا۔ یہ کدھر جائیں گے؟ ایسے کیوں ہو گا؟ دھوبی کا خرچ کم کیسے ہو گا؟

میں ہر وقت یہی سوچنے میں لگا رہتا تھا۔ اس سے خرابی یہ پیدا ہوتی ہے جو میں اپنے میں، اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب میں دیکھتا ہوں کہ خدا کی ذات پر سے اعتماد کم ہونے لگا ہے۔ جب آدمی بہت محتاط ہو جاتا ہے تو پھر ذرا وہ گھبرانے لگتا ہے اور ہم سب اس قسم کی گھبراہٹ میں شریک ہو گۓ ہیں۔ اگر اس گھبراہٹ کو ذرا آگے بڑھایا جاۓ تو اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہم عموماً ایک جملہ بولتے ہیں کہ "جی بڑا دو نمبر کام ہو رہا ہے۔" اس کی وجہ گھبراہٹ ہی ہے۔ جب ہم خوف اور گھبراہٹ کے پیشِ نظر یہ یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہیں مجھ میں مالی کمزوری پیدا نہ ہو جاۓ دو نمبر کام کرتے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 1866ء میں ہندوستان کا ایک وائسراۓ تھا۔ (میرا خیال ہے کہ لارڈ کرزن ہی ہو گا) اس کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جا کر Cultural Pattern تلاش کرنے کا بڑا شوق تھا اور بھارت میں میوزیم وغیرہ اس نے Settle کیے تھے۔ وہ ایک دفعہ ایک گاؤں گیا۔ اس نے وہاں اپنا کیمپ لگایا۔ اس کے ساتھ دو اڑھائی آدمیوں کا اُس کا عملہ بھی تھا۔ اس وقت وائسراۓ بڑی زبردست اور Powerful چیز ہوا کرتی تھی۔ لارڈ کرزن لکھتا ہے کہ جب وہ اپنے کیمپ میں سویا ہوا تھا تو آدھی رات کے قریب مجھے اپنے سینے پر بہت بوجھ محسوس ہوا۔ وہ بوجھ اس قدر زیادہ تھا کہ مجھے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ جب میں نے لیٹے لیٹے آنکھ کھولی تو کوئی پچیس تیس سیر کا کوبرا میرے سینے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس نے پھن اٹھایا ہوا تھا اور اس کوبرے کا منہ میرے چہرے کی طرف تھا اور ہر لمحہ زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ کم ہوتا چلا جا رہا تھا لیکن میں ہلا نہیں بلکہ اسی طرح خاموش لیٹا رہا اور کوئی چیخ و پکار نہیں کی اور میں اس انتظار میں تھا کہ چونکہ خدا کی طرف سے بھی کبھی نہ کبھی تائیدِ غیبی انسان کو پہنچی ہے اور میں اس کا انتظار کرنے لگا۔

خواتین و حضرات اس طرح کے لمحات میں اس طرح کی سوچ ایک بڑے حوصلے اور اعتماد کی بات کی بات ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے دوسرے ہی لمحے میں نے دیکھا کہ میرے کیمپ کا پردہ اٹھا کر ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ اس آدمی نے جب صورتِ حال دیکھی تو وہ الٹے پاؤں واپس چلا گیا اور اس نے دودھ کا ایک بڑا سا مرتبان لیا اور اس میں گرم دودھ ڈالا اور اس آدمی نے وہ دودھ بڑی ہمت کے ساتھ سانپ کے آگے رکھ دیا۔ جب سانپ نے دودھ کا مرتبان یا جگ دیکھا اور اس نے دودھ کی خوشبو محسوس کی تو سانپ مرتبان کے اندر داخل ہونے لگا اور مزے سے دودھ پینے لگا۔ جب سانپ اس کے مکمل اندر جا چکا تو اس شخص نے مرتبان کو بند کر دیا۔ لوگوں کو جب واقعہ کا پتہ چلا تو ہر طرف حال دوہائی مچ گئی اور سارا عملہ کیمپوں سے باہر آگیا۔ وائسراۓ صاحب اس شخص سے بڑے خوش ہوۓ اور کہا کہ اس شخص کو انعام ملنا چاہیے۔ اس شخص نے کہا جی میں نے آپ کی جان بچائی ہے۔ میرے لیے یہ بھی ایک بہت بڑا انعام ہے۔ میں اور کچھ لے کر بھی کیا کروں گا۔ لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو ہمارے عملے کا آدمی ہے ہی نہیں۔ یہ تو کوئی باہر کا آدمی ہے۔ پھر اس سے استفسار کیا کہ تم کون ہو؟ وہ کہنے لگا کہ جی میں بندھیڑ کھنڈ کا نامی گرامی چور ہوں۔ میں یہاں چوری کی نیت سے آیا تھا اور میں نے سوچا کہ وائسراۓ جو کہ بادشاہِ وقت کی طرح ہے اس کے کیمپ سے قیمتی چیزیں ملیں گی اور جب میں کیمپ کے اندر داخل ہوا تو میں نے یہ سین دیکھا اور یہ اب آدمیت کا تقاضا تھا کہ میں اپنا پیشہ ایک طرف رکھوں اور جان بچانے کا کام پہلے کروں۔

خواتین و حضرات! اللہ کی مدد ایسے بھی آ جاتی ہے اور اتنے محتاط ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کبھی تھوڑا آرام بھی کر لینا چاہیے۔ کبھی کبھار سیٹی بھی بجا لینی چاہیے۔ میں جب اپنے سٹوڈنٹ بچے بچیوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا سیٹی بجانی آتی ہے تو وہ نفی میں جواب دیتے ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ان کے پاس سیٹی بجانے کا وقت ہی نہیں ہے۔ مجھے اپنے ساتھیوں اور ہم وطنوں کو تنی ہوئی زندگی گزارتے دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو رسیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ کوئی دن یا کوئی تہوار بھی انجواۓ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ وہ ایک عذاب میں پڑے ہوۓ ہیں۔

ایک مراکو کا بادشاہ تھا۔ اس کی عمر کوئی اسّی، سو برس کے قریب تھی۔ وہ ایک شخص سے ناراض ہو گیا اور اس بارے حکم دیا کہ اس کو زندان میں ڈال دیا جاۓ اور کل صبح چھ بجے جلاد بلاکر اس کا سر قلم کر دیا جاۓ۔ اب وہ شخص صبح چھ بجے کا انتظار کرنے لگا اور وہ خوفزدہ نہیں تھا۔ اس نےجیل کے داروغہ کو دیکھا جسے شطرنج کھیلنے کا بڑا چسکا تھا اور اس سے کہا کہ سر آجائیں بیٹھیں ایک بازی تو لگ جاۓ۔ اس نے بھی کہا کہ آ جاؤ۔ وہ شطرنج کھیلنے لگے اور اس بندے نے جس نے حکمِ شاہی کے مطابق قتل ہونا چاہیے تھا، نے داروغہ کو شکست دے دی اور داروغہ سے کہا کہ اب آپ آرام کریں صبح ملیں گے۔ جب اس کے قتل کیے جانے کا وقت ہوا تو داروغہ پھر آ گیا اور کہنے لگا کہ آؤ جناب ایک بازی ہو جاۓ۔ یہ قتل وتل تو روز کا کام ہے ہوتا ہی رہے گا۔ وہ قیدی اس سے کہنے لگا کہ تیرا ستیاناس! بادشاہ نے نہ صرف تیری نوکری ختم کردینی ہے۔ بلکہ میرے ساتھ تجھے بھی قتل کروا دینا ہے۔ لیکن وہ پھر بھی کھیلنے لگا۔ وہ صبح سے شام تک کھیلتے رہے۔ بازی پھنس جاتی تو اگلے دن پھر چلتی۔ اسی طرح چار راتیں ہو گئیں۔ (یہ میں آپ سے ایک "Historical Fact" بیان کر رہا ہوں۔) اور اس کے قتل کیے جانے کا وقت بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ ایک شام کو بیٹھا شطرنج کھیل رہے تھے کہ ایک شخص دھول سے اٹا ہوا اور سر پٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا ان کی طرف آیا۔ وہاں پہنچ کر وہ اس قیدی کے قدموں میں گر گیا اور پکار پکار کر کہنے لگا " باادب با ملاحظہ ہوشیار' شہنشاہِ جہاں فلاں فلاں' شہنشاہِ مراکو۔"

اب جیل کا دراوغہ اور وہ قیدی حیران و پریشان کھڑے دیکھ رہے ہیں اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ اس نے بتایا کہ بلوائیوں نے مراکو کے بادشاہ کو قتل کر دیا ہے اور آپ چونکہ اس کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اب آپ ہی تخت و تاج کے وارث ہیں لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک اکیلے مجھے علم تھا کہ آپ زندہ و سلامت ہیں۔ چنانچہ اس کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ گھوڑے پر بٹھا کر لایا گیا اور جس بادشاہ نے اس کے قتل کا حکم نامہ جاری کیا تھا اسی کے تخت پر بٹھا دیا گیا اور وہ بادشاہ بن گیا۔ یہ ٹینشن اور ڈپریشن کا مرض اس قدر ظالم، مہلک اور خطرناک ہے کہ کوئی منتر، کوئی گولی اور کوئی جادو ٹونا آپ کی مدد نہیں کر سکتا اور جوں جوں خدا کی ذات پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے یہ مرض بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اس کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ چلۓ اپنی زندگی کے 365 دنوں میں چار دن تو ایسے نکال لیں کہ واقعی ان دنوں میں اللہ پر اعتماد کر کے بیٹھ جائیں۔ میری پیارے ملک کے پیارے لوگ اس قدر کچھاؤ میں ہیں کہ ہر وقت خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے غالباً یہ واں رادھا رام یا راجہ جنگ کی بات ہے کہ وہاں ایک بینک کھلا۔ وہ چلتا رہا۔ ان علاقوں میں بینکوں کی ڈکیتیاں عام ہیں۔ اب کسی ڈکیت نے سوچا کہ یہ قصبے کا بینک ہے اس میں آسانی سے واردات ہو سکتی ہے لہٰذا اس نے اپنی کلاشنکوف لی۔ جیپ باہر کھڑی کی اور اس نے اس بینک میں ایک گولی فائر کی اور سب کو ڈرا کر ہینڈز اپ کرا دئے اور کیشیئر کے آگے جتنی رقم تھی وہ اس نے اپنے تھیلے میں ڈال لی۔ اس رقم میں سارے ملے جلے نوٹ تھے۔ جب وہ بینک سے باہر نکلا تو عجیب سماں تھا۔ اس کے فائر کرنے کی وجہ سے باہر لوگوں کو صورتِ حال کا اندازہ ہو چکا تھا۔ اور ان گاؤں والوں نے اس بینک ڈکیتی کو اپنی عزت بے عزتی کا معاملہ بنا لیا تھا اور وہ اپنے گھروں سے اپنی پرانی بندوقیں نکال کر باہر لے آۓ۔ کسی کے پاس رائفل بھی تھی اور وہ سارے اکھٹے ہو کر آۓ اور آتے ہی اس ڈاکو کی جیب کے ٹائر پنکچر کر دیۓ۔ پھر شور مچانا شروع کر دیا۔ اس ڈکیت نے بھاگنے کی کوشش کی اور فائرنگ کرتا رہا لیکن وہ لوگ بھی ارادے کے پکے تھے اور انہوں نے گھیراؤ کر لیا۔ جب ڈاکو کے ہاتھ سے روپوں والا تھیلا چھوٹا تو نوٹ بکھر گۓ۔ اب لوگوں نے ڈاکو کو تو جانے دیا لیکن روپوں کو اکھٹا کرنا شروع کر دیا اور سارے نوٹ سنبھال کر بینک منیجر کو دے آۓ۔

خواتین و حضرات یہ دنیا کی واحد بینک ڈکیتی ہے جس میں بینک کو 32 روپے کا فائدہ ہوا کیونکہ کئی لوگوں کی جیبوں سے گر کر پیسے اس رقم میں شامل ہو گۓ تھے اور اس طرح بینک نے لوٹے ہوۓ 28 ہزار کی جگہ 28 ہزار 32 روپے حاصل کیے۔

برداشت کرنے اور حوصلہ کرنے سے کچھ ایسے فائدے کی راہیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ پریشان ہونے کی اس لیے بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ تو ہو کر رہے گا جو ہو کر رہنے والا ہے۔

بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

اب میں آپ لوگوں کو پھنسے ہوۓ نہیں دیکھ سکتا اور میری آرزو اور بڑی تمنا ہے کہ آپ ایک سہل زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں تاکہ بہت سے بڑے بڑے کام جو انتظار کر رہے ہیں اور بہت سی فتوحات جو آپ نے کرنی ہیں وہ آپ کر سکیں اور یہ اسی صورت ممکن ہو گا کہ آپ خداوند تعالٰی پر مکمل یقین رکھیں اور قلب کو بھی مانیں۔ آپ 99 فیصد مادہ پرستی کو تھامے رکھیں اور صرف ایک فیصد تو اپنی ذات کو آزادی کی اجازت دے دیں اور کہہ دیں کہ اگر آج سو روپے کا نقصان ہونا ہے تو ہولے کوئی بات نہیں۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرماۓ اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرماۓ۔ آمین۔اللہ حافظ۔

Ashfaq Ahmad In Zavia Program L Safar-dar-Safar

سرتاج عاشقان حضرت اویس قرنی نے حضور کے چہرہ اقدس کی تفصیلات بیان کرنا شروع کیں ، اور رفیقان رسول وہیں کھڑے کھڑے شبیہ مبارک ملاحظہ فرماتے رہے -

جب آپ خاموش ہو گئے تو حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہہ نے پوچھا !

سیدنا ! آپ تو حضور کی خدمت اقدس میں تشریف نہیں لا سکے ، اور آپ نے تو انھیں ایک مرتبہ بھی نہیں دیکھا ، پھر آپ کس طرح ان کے رخ مبارک کے خد و خال کی تفصیلات بیان فرما رہے ہیں -

حضرت اویس قرنی نے اپنی سفید داڑھی جبہ مبارک سے ملتے ہوئے کہا !

" آپ حضرات نے حضور کو "ہونے" کے مقام پر دیکھا ہے ، اور میں نے " نہ ہونے " کے مقام پر محبوب کی خدمت میں اپنی روح کو حاضر رکھا ہے -

آپ خوش نصیب تھے کہ نعمت ہر وقت آپ کے روبرو تھی -
ہم دور تھے اور قرب کی دید سے محروم تھے -

اور خوش نصیب اور محروم میں یہی فرق ہوتا ہے کہ محروم ہر وقت نعمت کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اور اس کے لیے حریص رہتا ہے -

" نہ ہونے " کے مقام پر دیکھنے والے کی صرف آنکھیں ہی نہیں دیکھتیں اس کا سارا وجود طلب بن جاتا ہے - "

از اشفاق احمد سفر در سفر صفحہ ٢٥١

Tuesday, September 18, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : What is Fraud ?

ایک بات زندگی بھر یاد رکھنا اور وہ یہ کہ کسی کو دھوکہ دینا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے .دھوکے میں بڑی جان ہوتی ہے وہ مرتا نہین ہے - گھوم پھر کر ایک روز واپس آپ کے پاس پہنچ جاہے .کیونکہ اس کو اپنے ٹھکانے سے بڑی محبت ہے اور وہ اپنی جائے پیدائش کو چھوڑ کر اور کہین نہیں رہ سکتا .

از اشفاق احمد زاویہ 3 علم فہم اور ہوش صفحہ 292

Ashfaq Ahmad In Zavia Program : Who is Baba ?

خواتین و حضرات ! بابے آسانیاں فراہم کرتے ہیں لوگوں کو آسرا اور سہارا فراہم کرتے ہیں - تشفی دیتے ہیں - ایسے وقت میں محبت کے دو بول عطا کرتے ہیں جب انسان کو ان کی ضرورت ہوتی ہے - میرے نزدیک وہ الیکٹریشن بابا ہے جو کسی گھر میں بغیر پیسے مانگے بجلی کا شو ٹھیک کر کے گرمی میں پنکھا چلا دیتا ہے - میرے نزدیک وہ بابا ہے جو کسی محتاج بوڑھے کو اپنا کام چھوڑ کر سڑک پار کرواتا ہے اور میرے خیال میں وہ سائیکل پر برف کے گولے بیچنے والا ایک بابا ہے جو کسی راہی کو بغیر معاوضہ محبت سے ، پانی کا ایک گلاس پیش کر سکتا ہے .

از اشفاق احمد زاویہ 3 بلیک اینڈ وائٹ  صفحہ83

Monday, September 17, 2012

Ashfaq Ahmad In Zavia Program...

-اصل میں بات یہ ہے کہ جب کسی نے یہ کہا کہ یہاں غلط ہے 

- اس جگہ دال میں کچھ کالا ہے  تو آپ نے فوراً اسے تسلیم کر لیا - اس کے آگے سر جھکا دیا 

- جب کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ اچھا ہے - یہ خوب ہے - یہ نیکی ہے

- تو تم رک جاتے ہو - ماننے سے انکار کر دیتے ہو - خاموش ہو جاتے ہو 

- برائی پر تم کو پورا یقین ہے - سو فیصد اعتماد ہے 

 - شیطان پر اور ابلیس پر پورا یقین ہے - لیکن خدا پر نہیں 

 ایک محاورہ ہے کہ 

 - یہ اتنی اچھی بات ہے کہ سچ ہو ہی نہیں سکتی 

 - یہ کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی کہے کہ یہ اتنی بری بات ہے کہ سچ ہو ہی نہیں سکتی 

 - بہت بری اور بہت خراب بات کبھی بھی  غلط نہیں لگتی - ہمیشہ ٹھیک ہی لگتی ہے 

-تم نے انسانیت پر اس قدر بے اعتباری شروع کر دی ہے

- اس قدر بے اعتمادی کا اظہار کر دیا ہے کہ اب تم کو انسانوں کی طرف سے اچھی خبر ٹھیک ہی نہیں لگتی

اگر کوئی آکرآپ سے یہ کہے کہ فلاں نے معراج انسانیت حاصل کر لی ہے اور جلوہ حقیقی سے روشناس ہو گیا ہے ، تو تم
کبھی یقین نہیں کرو گے - سنو گے اور کہو گے یہ سب افسانہ ہے- گپ ہے

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص کو جلوہ حقیقی نظر آجائے جب کہ ہم کو کبھی نظر نہیں آیا - جس چیز کا تجربہ ابھی مجھ کو نہیں ہوا وہ کسی اور کو کس طرح ہو سکتا ہے

-تم لوگوں کے بارے میں مثبت سوچ ہی نہیں سکتے

- کتنی بھی کوشش کرو تم لوگوں کے بارے میں شک میں ہی مبتلا رہو گے

از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ 387 

Shahab Naama Say Iqtibaas - Sola Aanay

سولہ آنے

ایک روز ایک بے حد مفلوک الحال بڑھیا آئی۔ رو رو کر بولی کہ میری چند بیگھہ زمین ہے جسے پٹواری نے اپنے کاغذات میں اس کے نام منتقل کرنا ھے لیکن وہ رشوت لئے بغیر یہ کام کرنے سے انکاری ھے ۔ رشوت دینے کی توفیق نہیں۔ تین چار برس سے وہ طرح طرح کے دفتروں میں دھکے کھا رہی ہے لیکن کہیں سنوائی نہیں ہوئی۔

اس کی درد ناک بپتا سُن کر میں نے اسے اپنی کار میں بٹھایا اور جھنگ شہر سے ساٹھ ستر میل دور اس کے گاؤن کے پٹواری کو جا پکڑا۔ ڈپٹی کمشنر کو اپنے گاؤں میں یوں اچانک دیکھ کر بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ پٹواری نے سب کے سامنے قسم کھائی کہ یہ بڑھیا بڑی شرانگیز عورت ہے اور زمین کے انتقال ک بارے میں جھوٹی شکائیتں کرنے کی عادی ہے۔ اپنی قسم کی عملی طور پر تصدیق کرنے کے لئے پٹواری اندر سے ایک جزدان اٹھا کر لایا اور اسے اپنے سر پر رکھ کر کہنے لگا، "حضور دیکھئے میں اس مقدس کتاب کو سر پر رکھ کر قسم کھاتا ہوں"۔ گاؤن کے ایک نوجوان نے مسکرا کر کہا۔ "جناب ذرا یہ بستہ کھول کر دیکھ لیں"۔

ہم نے بستہ کھولا، تو اس میں قرآن شریف کی جلد نہیں بلکہ پٹوار خانے کے رجسٹر بندھے ہوئے تھے۔میرے حکم پر پٹواری بھاگ کر ایک اور رجسٹر لایا اور سر جھکا کر بڑھیا کی انتقال اراضی کا کام مکمل کر دیا۔

میں نے بڑھیا سے کہا۔"بی بی، لو تمہارا کام ہو گیا۔ اب خوش رہو"۔

بڑھیا کو میری بات کا یقین نہ آیا۔ اپنی تشفی کے لئے اس نے نمبر دار سے پوچھا "
کیا سچ مچ میرا کام ہو گیا ہے؟"

نمبر دار نے اس بات کی تصدیق کی تو بڑھیا کی آنکھوں سے بے اختیار خوشی کے آنسو بہنے لگے۔ اس کے دوپٹے کے ایک کونے میں کچھ ریزگاری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے اسے کھول کر سولہ آنے گن کر اپنی مٹھی میں لئے اور اپنی دانست میں دوسروں کی نظر بچا کر چپکے سے میری جیب میں ڈال دیئے۔ اس ادائے معصومانہ اور محبوبانہ پر مجھے بھی بے اختیار رونا آ گیا۔ یہ دیکھ کر گاؤں کے کئی دوسرے بڑے بوڑھے بھی آبدیدہ ہو گئے۔

یہ سولہ آنے واحد "رشوت" ہے جو میں نے اپنی ساری ملازمت کے دوران قبول کی۔ اگر مجھے سونے کا ایک پورا پہاڑ بھی مل جاتا، تو میری نظر میں ان سولہ آنوں کے سامنے اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی۔ میں نے ان آنوں کو ابھی تک خرچ نہیں کیا۔ کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ ایک ایسا متبرک تحفہ ہے جس نے مجھے ہمیشہ کے لئے مالا مال کر دیا۔

شہاب نامہ سے اقتباس از قدرت اللہ شہاب

How to remove anger...!! غصہ دور کرنے کا طریقہ

۔۔۔۔غصہ دور کرنے کا طریقہ۔۔۔
ایک بچہ بہت بدتمیز اور غصے کا تیز تھا۔اسے بات بے بات فوراً غصہ آجاتا ، والدین نے اسے کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی لیکنکامیاب نہ ہوئے۔ایک روز اسکے والد کو ایک ترکیب سوجھی۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو کیلوں کا ایک ڈبا لا کے دیا اور گھر کے پچھلے حصے کی دیوار کے پاس لے جا کر کہنے لگے، " بیٹا جب بھی تمہیں غصہ آئے ۔اس میں سے ایک کیل نکال کر یہاں دیوار میں ٹھونک دینا۔پہلے دن لڑکے ...نے دیوار میں 37 کیلیں ٹھونکیں۔ایک دو ہفتے گزرنے کے بعد بچہ سمجھ گیا کہ غصہ کنٹرول کرنا آسان ہے لیکن دیوار میں کیل ٹھونکنا خاصا مشکل کام ہے۔اس نے یہ بات اپنے والد کو بتائی۔والد نے مشورہ دیاکہ اب جب تمھیں غصہ آئے اور تم اسے کنٹرول کر لو تو ایک کیل دیوار میں سے نکال دینا۔لڑکے نے ایسا ہی کیا اور بہت جلد دیوار سے ساری کیلیں نکال لیں۔
باپ نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اس دیوار کے پاس لے جا کر کہنے لگے،بیٹا تم نے اپنے غصے کو کنٹرول کرکے بہت اچھا کیا لیکن ذرا اس دیوار کو غور سے دیکھو ! یہ پہلے جیسی نہیں‌رہی۔ اس میں یہ سوراخ کتنے برے لگ رہے ہیں۔جب تم غصے سے چیختے چلاتے ہو اور الٹی سیدھی باتیں‌کرتے ہو تو اس دیوار کی مانند تمھاری شخصیت پر بھی بہت برا اثر پڑتا ہے۔تم انسان کے دل میں‌چاقو گھونپ کر اسے باہر نکال سکتے ہو لیکن چاقوباہر نکالنے کے بعد تم ہزار بار بھی معذرت کرو ، معافی مانگو ، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔وہ زخم اپنی جگہ باقی رہے گا۔