السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة
ہمارے دو ٹیچر ماسٹر حشمت علی اور ماسٹر قطب الدین ہوا کرتے تھے - ساتھ رہنا اکٹھے کھانا ، ایک دوسرے کے گھر کے ساتھ گھر ، سیر کو اکٹھے جانا ، اکٹھے اسکول آنا - کبھی ہم نے انھیں الگ الگ نہیں دیکھا تھا - ان کے درمیان اتنی گہری دوستی تھی کہ آپ جتنا بھی اس کو ذہن میں تصور کریں ،وہ کم ہے -
پھر اچانک یہ ہوا کہ ماسٹر حشمت علی کی بدلی ہو گئی - اور وہ ہمارے ضلعے کی کسی اور تحصیل میں چلے گئے - دونوں دوستوں کے درمیان اس تبدیلی سے جو خلیج پیدا ہوئی ، وہ تو ہوئی ، ہم جو طالب علم تھے یا جو دوسرا اسٹاف تھا ، ان کے لئے بھی بہت تکلیف دہ صورتحال تھی -
میں نے ماسٹر قطب الدین سے کہا ، آپ کی حشمت علی صاحب س بڑی دوستی تھی ؟ کہنے لگے ، ہاں ٹھیک ہے -
میں نے کہا ان کے جانے سے آپ کی طبیعت پر بوجھ پڑا ؟ کہنے لگے ہاں پڑا ہے ، مگر زیادہ نہیں -
میں نے کہا یہ آپ حیران کن بات کرتے ہیں - وہ تو آپ کے بہت عزیز دوست تھے ، قریب ترین تھے -
کہنے لگے لیکن آپ اس کو ایک اعلیٰ درجے کی معیاری دوستی قرار نہیں دے سکتے - بیشک ہمارے معمولات اکٹھے تھے - اکٹھے کھاتے پیتے تھے - اور کوئی لمحہ بھی ایک دوسرے کے بغیر نہیں گزرا لیکن یہ دوستی کی نشانی نہیں ہے - دوستی کی نشانی یہ ہے کہ جب تک آدمی اکٹھے بیٹھ کر روئے نہ ، اس وقت تک دوستی نہیں ہوتی ، اور ہم کبی اکٹھے بیٹھ کر روئے نہیں تھے - اس لئے آپ نہیں کہ سکتے کہ ہم دوست تھے -
از اشفاق احمد زاویہ ١ دوستی اور تاش کی گیم صفحہ ٢٧٩
No comments:
Post a Comment