جب قافلوں کا زمانہ تھا اور لوگ سفر اختیار کرنے کے لیےہفتوں مہینوں بلکہ سالوں تک ہمسفروں اور کاروانوں کا انتظار کیا کرتے تھے کہ کب آئیں یا کب روانہ ہوں ، تو شریک سفر ہوں ۔ یہ قافلے اور کاروان دورانِ سفر ایک فرد کے لیے ٹھہر جایا کرتے تھے اور اس وقت تک ٹھہرے رہتے تھے جب تک کہ فرد کی ضرورت پوری نہ ہو جاتی تھی ۔ یہ اجتماعی دور تھا اور آدمی ایک دوسرے کی لڑی میں پروئے ہوئے نیچر کے ساتھ بندھے تھے ۔ لیکن جب انفرادیت کا دور آیا تو فرد ایک دوسرے سے الگ ہو کر منفرد ہو گئے ۔ منفرد سوچ ، منفرد مزاج ، منفرد شوق ، منفرد پسند اس انفرادیت نے انسان کو بڑے خوشنما اور رنگین تحفے عطا کیے ۔ اس کے وجود میں ہنس اور سرخاب کے پر نکل آئے ۔ لیکن وہ اکیلا ہو گیا ۔ خوفناک اور زور آور دنیا کا سامنا کرنے کے لیے بےیار و مددگار ، یکہ و تنہا ۔
No comments:
Post a Comment