Friday, February 24, 2012

Ashfaq Ahmad (Hamara Aitmad)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

ہمارا سب سے بڑا اندیشہ ہمارا مستقبل یا فیوچر ہے کہ کل کیا ہوگا - آبادی بڑھ جانے کا اندیشہ ، پانی کی کمی کا اندیشہ - اور یہ اندیشہ کہ ہم یہ جو آج مزے کر رہے ہیں اور اعلیٰ درجے کا انگور کھا رہے ہیں ، جاپانی پھل اڑا رہے ہیں ، معلوم نہیں کل میسر ہوگا کہ نہیں - ہم اسی خوف کے شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں - اس خوف کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ اپنے اندر اعتماد کی فضا پیدا کریں ، جب تک خوف کے اندر رہتے ہوئے اور غم میں مبتلا ہو کر آپ کے دل کے گھونسلے میں یقین کا انڈا پیدا نہیں ہوگا ، اس وقت تک آپ چل نہیں سکیں گے - 
اس یقین کا پیدا ہونا بہت ضروری ہے - اگر آپ یہ یقین دل میں بٹھا لیں کہ ہاں ہم ہیں ، ہمارا خدا ہے ، اور اس کے وعدے سچے ہیں - پھر بات بنے گی - 
آپ نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا نجانے اکیسویں صدی میں کیا ہوگا ؟ بجائے اس کے کہ ہم خوشی منائیں اور خوشی خوشی نئی صدی میں داخل ہوں ، ہم اندیشوں میں مبتلا ہو کر بس تھر تھر کانپے جا رہے ہیں - 
بچو ! جو صاحب اعتماد ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ اکیسویں بائیسویں صدی جو صدی بھی آئے میں ہوں ، یہ میرا راستہ ہے ، یہ میرے چلنے کی استطاعت ہے - سارے کام بہتر ہونگے - کیوں نہیں ہونگے - 

از اشفاق احمد زاویہ ٣ شہ رگ کا ڈرائنگ روم صفحہ ١٩٥

No comments:

Post a Comment