السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة
تیسرا دن تھا - پچھلے پہر صحن میں بیٹھا تھا کہ دروازے سے ایک ادھیڑ عمر کی باوقار سی خاتون داخل ہوئی قریب آئے تو میں تعظیمأ کھڑا ہوگیا - خاتون بغیر کسی تمہید کے بولی :
بیٹا مجھے پہچانتے ہو ؟
نہیں ، میں نے کسی قدر معذرت کے ساتھ کہا -
" میں موتیا کی ماں ہوں "
ایک لمحے کے لئے میرا دماغ جواب دے گیا ذرا سنبھلا تو کرسی پیش کی ، لیکن اس نے کرسی کی طرف توجہ نہ دی میرے منہ سی نکلا :
موتیا تو خیریت سے ہے ؟
موتیا کی خیریت کی بہت فکر ہے ؟
مجھے ڈر تھا آپ اسے ایذا نہ پہنچائیں -
ہم اور موتیا کو ایذا ؟ موتیا ہماری بیٹی ہے -
شکر ہے -
لیکن تمھیں کچھ اس ایذا کا بھی خیال ہے جو موتیا کے ماں باپ کو پہنچی ہے ؟
اس فقرے پہ میں چونکا تو تو موتیا کی ماں کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے ، اگلے لمحے میں اس کی پلکیں آنسو نہ تھام سکیں اور ایک گرئیے کے عالم میں اس کے منہ سے نکلا -
" اے کاش میری بیٹی تو یہاں نہ آئی ہوتی -"
میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا - میری زبان گنگ تھی - مجھے اس وقت تک اگر کسی کی رسوائی کا خوف تھا ، تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی رسوائی تھی - موتیا اور اس کے ماں باپ کی رسوائی میرے ذھن میں نہیں آئی تھی -
میں اسی سوچ میں تھا کہ موتیا کی ماں چل کھڑی ہوئی - جاتے جاتے میری طرف دیکھا اور ایک کرب انگیز لہجے میں کہا :
" ہر گھر میں موتیا کا چرچا ہے اور جب تک تم یہاں موجود ہو ، رہے گا -"
میں نے پیچھے چلتے ہوئے کہا :
" آپ اطمینان رکھیں - میں کل شام سے پہلے یہاں سے چلا جاؤنگا - "
موتیا کی ماں کا چہرہ کھل اٹھا - دروازے سے نکلنے لگی ، تو ممنونیت میں اس کے منہ سے دعانکلی :
" جیتے رہو ! بھگوان تمہارا بھلا کرے - "
کوئی گھنٹہ بھر بعد میرے دوست اکرم آئے اور آتے ہی بولے :
سنا ہے تمھارے گھر موتیا کی ماں آئی تھی ، اور تم نے ہندوؤں سے صلح کر لی ہے -
پھر ؟ میں نے کہا
مولوی عبد الغفور بڑے مشتعل ہو رہے ہیں تمھارے خلاف فتویٰ دینے والے ہیں
میرا قصور ؟
مولوی صاحب کے پاس چشم دید شہادت پہنچی ہے کہ موتیا کی ماں کو تمھارے گھر کے دروازے پر دیکھا گیا اور تمھیں دعا دیتے سنا گیا -
دعا لینا کب سے گناہ ٹھہرا ہے ؟ میں یہ کہ ہی رہا تھا کہ دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے چند لونڈے ایک زبان ہو کر بولے :
" ہمارا غدار ............ مردہ باد "
دوسرے روز ہم بالا پور سے اپنی درخواست پر تبدیل ہو کر ایک دوسرے شہر میں پہنچ گئے اور فتوے کے زد سے نکل گئے - وہاں دو روز بھی نہ گزرے تھے کہ ہمارے نام ایک اجنبی سا خط آیا - کھول کر دیکھا ، تو فقط اتنا لکھا تھا :
" پردیسی نال نہ لائیے یاری ، توڑے لکھ سونے دا ہووے !"
یہ موتیا کا خط تھا - جہاں فتویٰ نہ پہنچ سکا تھا ، عشق پہنچ گیا - موتیا کی محبّت کو بظاہر خاندان کی بد نامی کا احساس نہ تھا - میرے پہلو میں بھی دل تھا - بے اختیار بھر آیا - چاہا کہ جواب میں اسی شعر کا دوسرا مصرع لکھ بھیجوں اور کلیجہ چیر کر کاغذ پر رکھ دوں :
" پر اک گلوں پردیسی چنگا ، جد یاد کرے تان رووے !"
لیکن قلم اٹھایا ، تو ایک بےبس ماں کی روتی آنکھیں سامنے آ گئیں اور قلم رکھ دیا -
از محمد خان بزم آرائیاں صفحہ ٦٣ ، ٦٤
No comments:
Post a Comment