Tuesday, February 28, 2012

Motia By Muhammad Khan (Bazam Aaraian)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة

تیسرا دن تھا - پچھلے پہر صحن میں بیٹھا تھا کہ دروازے سے ایک ادھیڑ عمر کی باوقار سی خاتون داخل ہوئی قریب آئے تو میں تعظیمأ کھڑا ہوگیا - خاتون بغیر کسی تمہید کے بولی : 
بیٹا مجھے پہچانتے ہو ؟ 
نہیں ، میں نے کسی قدر معذرت کے ساتھ کہا - 
" میں موتیا کی ماں ہوں " 
ایک لمحے کے لئے میرا دماغ جواب دے گیا ذرا سنبھلا تو کرسی پیش کی ، لیکن اس نے کرسی کی طرف توجہ نہ دی میرے منہ سی نکلا : 
موتیا تو خیریت سے ہے ؟ 
موتیا کی خیریت کی بہت فکر ہے ؟ 
مجھے ڈر تھا آپ اسے ایذا نہ پہنچائیں - 
ہم اور موتیا کو ایذا ؟ موتیا ہماری بیٹی ہے - 
شکر ہے - 
لیکن تمھیں کچھ اس ایذا کا بھی خیال ہے جو موتیا کے ماں باپ کو پہنچی ہے ؟ 
اس فقرے پہ میں چونکا تو تو موتیا کی ماں کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے ، اگلے لمحے میں اس کی پلکیں آنسو نہ تھام سکیں اور ایک گرئیے کے عالم میں اس کے منہ سے نکلا -
" اے کاش میری بیٹی تو یہاں نہ آئی ہوتی -" 
میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا - میری زبان گنگ تھی - مجھے اس وقت تک اگر کسی کی رسوائی کا خوف تھا ، تو وہ اپنی اور اپنے خاندان کی رسوائی تھی - موتیا اور اس کے ماں باپ کی رسوائی میرے ذھن میں نہیں آئی تھی - 
میں اسی سوچ میں تھا کہ موتیا کی ماں چل کھڑی ہوئی - جاتے جاتے میری طرف دیکھا اور ایک کرب انگیز لہجے میں کہا : 
" ہر گھر میں موتیا کا چرچا ہے اور جب تک تم یہاں موجود ہو ، رہے گا -" 
میں نے پیچھے چلتے ہوئے کہا : 
" آپ اطمینان رکھیں - میں کل شام سے پہلے یہاں سے چلا جاؤنگا - " 
موتیا کی ماں کا چہرہ کھل اٹھا - دروازے سے نکلنے لگی ، تو ممنونیت میں اس کے منہ سے دعانکلی : 
" جیتے رہو ! بھگوان تمہارا بھلا کرے - " 
کوئی گھنٹہ بھر بعد میرے دوست اکرم آئے اور آتے ہی بولے : 
سنا ہے تمھارے گھر موتیا کی ماں آئی تھی ، اور تم نے ہندوؤں سے صلح کر لی ہے - 
پھر ؟ میں نے کہا 
مولوی عبد الغفور بڑے مشتعل ہو رہے ہیں تمھارے خلاف فتویٰ دینے والے ہیں 
میرا قصور ؟ 
مولوی صاحب کے پاس چشم دید شہادت پہنچی ہے کہ موتیا کی ماں کو تمھارے گھر کے دروازے پر دیکھا گیا اور تمھیں دعا دیتے سنا گیا - 
دعا لینا کب سے گناہ ٹھہرا ہے ؟ میں یہ کہ ہی رہا تھا کہ دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے چند لونڈے ایک زبان ہو کر بولے : 
" ہمارا غدار ............ مردہ باد " 
دوسرے روز ہم بالا پور سے اپنی درخواست پر تبدیل ہو کر ایک دوسرے شہر میں پہنچ گئے اور فتوے کے زد سے نکل گئے - وہاں دو روز بھی نہ گزرے تھے کہ ہمارے نام ایک اجنبی سا خط آیا - کھول کر دیکھا ، تو فقط اتنا لکھا تھا : 
" پردیسی نال نہ لائیے یاری ، توڑے لکھ سونے دا ہووے !" 
یہ موتیا کا خط تھا - جہاں فتویٰ نہ پہنچ سکا تھا ، عشق پہنچ گیا - موتیا کی محبّت کو بظاہر خاندان کی بد نامی کا احساس نہ تھا - میرے پہلو میں بھی دل تھا - بے اختیار بھر آیا - چاہا کہ جواب میں اسی شعر کا دوسرا مصرع لکھ بھیجوں اور کلیجہ چیر کر کاغذ پر رکھ دوں : 
" پر اک گلوں پردیسی چنگا ، جد یاد کرے تان رووے !" 
لیکن قلم اٹھایا ، تو ایک بےبس ماں کی روتی آنکھیں سامنے آ گئیں اور قلم رکھ دیا - 

از محمد خان بزم آرائیاں صفحہ ٦٣ ، ٦٤

No comments:

Post a Comment