السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة
میں نے اپنی شوخی اور جینٹلمینی میں کئی شوق پال رکھے تھے اور میں اونچی سوسائٹی میں بھی آنا چاہتا تھا - اس گھمنڈی شوق کے پیش نظر میں گالف کھیلنے لگا - ایک دفعہ میں اور میری طرح کے دیگر دوستوں نے کہا موسم بہت اچھا ہے گالف گراؤنڈ میں چلتے ہیں -
جب ہم وہاں گئے تو کئی شوقین مزاج لوگ گراؤنڈ میں جمع تھے حالانکہ وہ صبح کا وقت تھا اور ایک ورکنگ ڈے تھا - ان لوگوں میں ایک سنہرے بالوں والا گورا بھی تھا - وہ بڑا صحت مند ، خوبصورت اور صاف ستھرا تھا - جب وہ ساتھ چلتا تو سامان کا تھیلا اٹھانے والا بھی اس کےساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلتا عام طور پر کھلاڑی اور تھیلا اٹھانے والے دور چلتے ہیں - ہٹ لگانے والے آخری مقام پر پہنچ کر اس گورے نے جب ہٹ لگائی تھی تو اس کے سامان پکڑنے والے نے گیند رکھی -
خواتین و حضرات ! ہول اور گیند میں کم سے کم بارہ فٹ کا فاصلہ تھا - گورے نے سٹک پکڑی ، تھوڑی دیر اپنا وزن تولا اور اس خوبصورت انداز میں ہٹ کیا کہ گیند سیدھی ہول میں جا گری -
ہم سب نے تالی بجائی - اس گورے نے بھی اپنا ہاتھ اوپر اٹھا کر خدا کا شکر ادا کیا جب اس نے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ اندھا تھا - اس کی دونوں آنکھیں پتلیوں سے محروم تھیں اور بلکل سفید تھیں - ہم سب اس کے گرد جمع ہو گئے اور ہماری حیرانی کی انتہا نہ تھی کہ ایک اندھا شخص کہاں سے چلا کہاں پہنچ کے اس نے ہٹ لگائی لیکن ہم میں سے کسی ایک کو بھی معذوری کا شائبہ تک نہ ہوا -
وہاں ہمارے ایک ریلوے کے آفیسر بھی دوست تھے - اس نے اس گورے سے کہا !
? Excuse me sir , whether you are blind
اس نے جواب دیا کہ You have to be blind to see -
(جب تک آدمی اندھا نہیں ہوتا وہ دیکھ نہیں پاتا ہے )
از اشفاق احمد زاویہ ٣ وزڈم آف دی ایسٹ صفحہ ٦٠
No comments:
Post a Comment