السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة
آنحضورؐ نے اپنے عہد کی شاعری کی نسبت وقتاََ فوقتاََ جن ناقدانہ خیالات کا اظہار فرمایا ہے، تاریخ نے انہیں محفوظ کیا ہے لیکن دو موقعوں پر جو تنقیدات آپ نے ارشاد فرمائیں ان سے مسلمانانِ ہند کو اس زمانے میں بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے، اس لئے کہ ان کا ادب ان کے قومی انحطاط کے دور کا نتیجہ ہے اور اب انہیں کسی نئے ادبی نصب العین کی تلاش ہے۔ ایک تنقید تو یہ ظاہر کرتی ہے کہ شاعری کیسی نہ ہونی چاہئے اور دوسری تنقید کا مقصد یہ بتانا ہے کہ شاعری کیسی ہونی چاہئے۔ امرا القیس نے اسلام سے چالیس برس قبل کا زمانہ پایا ہے۔ روایت ہے کہ آنحضورؐ نے اس کی نسبت ایک موقع پر رائے ظاہر کی کہ "اشعر الشعرا وقائد ھم الی النار" یعنی وہ شاعروں کا سرتاج ہے لیکن جہنم کے راستے میں ان کا سردار۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں امرا القیس کی شاعری میں کیا دکھائی دیتا ہے؟ شراب ارغوانی کے دور، عشق و حسن کے جاںگداز جذبات یا ہوش ربا داستانیں، آندھیوں سے اڑی ہوئی پرانی بستیوں کے کھنڈر اور ریتلے ویرانوں کی خاموشی کے دل دہلا دینے والے مناظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ یہی عرب کے دورِ جاہلیت کی کل تخیلی کائنات ہے۔ امرا القیس قوتِ ارادی کو جنبش میں لانے کے بجائے اپنے سامعین کے تخیل پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اور ان میں بجائے ہوشیاری کے بے خودی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔رسول اللہؐ نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنونِ لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ آرٹ میں جو کچھ خوب ہے، ضروری نہیں کہ وہ زندگی میں خوب سے مشابہت رکھتا ہو۔ عین ممکن ہے کہ ایک شاعر خوبصورت اشعار کہتا ہو لیکن اس کے باوجود اپنے معاشرے کو دوزخ کی طرف دھکیل دے۔ شاعری دراصل ساحری ہے اور حیف ہے اس شاعر پر جو قومی زندگی کے مشکلات و امتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کی بجائے فرسودگی و انحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھا دے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ اس کی ذمے داری تو یہ ہے کہ فطرت کی لازوال دولتوں میں سے حیات و قوت کا جو حصہ اسے ودیعت کیا گیا ہے، اس میں اوروں کو بھی شریک کرے، نہ کہ اٹھائی گیرا بن کر جو رہی سہی پونجی ان کے پاس ہے اس کو بھی ہتھیا لے۔ ایک دفعہ قبیلہ بنو عبس کے مشہور شاعر عنترہ کا یہ شعر آنحضورؐ کے سامنے پڑھا گیا
ولقدابیت علی الطویٰ والظلہ
حتٰی انال بہ کریم الماکل
یعنی میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تا کہ میں اکل حلال کے قابل ہو سکوں۔ رسول اللہؐ، جن کی بعثت کا مقصدِ واحد یہ تھا کہ انسانی زندگی کو دل کش بنائیں اور اس کی آزمائشوں اور سختیوں کو خوش آیند اور مطبوع کر کے دکھائیں، اس شعر کو سن کر بہت محظوظ ہوئے اور صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا! کسی عرب کی تعریف نے میرے دل میں اس کا شوقِ ملاقات پیدا نہیں کیا لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس شعر کے کہنے والے کو ملنے کے لئے میرا دل بے اختیار چاہتا ہے۔ مقامِ حیرت ہے کہ آنحضورؐ جن کے چہرہ مبارک پر ایک نظر ڈال لینا، دیکھنے والے کے لئے دنیوی برکت اور اُخروی نجات کی دو گونہ سرمایہ اندوزی کا ذریعہ تھا، خود ایک بت پرست عرب سے اس کے ایک شعر کی خاطر ملاقات کا شوق ظاہر کرتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے جو عزت عنترہ کو بخشی اس کی وجہ عیاں ہے۔ عنترہ کا شعر صحت بخش حیات کی جیتی جاگتی بولتی چالتی تصویر ہے۔ حلال کی کمائی میں انسان کو جو سختیاں اٹھانا پڑتی ہیں، جو کڑیاں جھیلنی پڑتی ہیں، اس کا نقش پردہ خیال پر شاعر نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھینچا ہے۔ آنحضورؐ نے جو اس شعر کی تعریف فرمائی، اس سے آرٹ کے ایک اور اہم اصول کی شرح ہوتی ہے کہ آرٹ حیاتِ انسانی کے تابع ہے، اس پر فوقیت نہیں رکھتا۔ تمام انسانی عمل کا منتہائے نظر شوکت، قوت اور جوش سے بھری ہوئی زندگی کی تحصیل ہے۔ اس لیے ہر انسانی آرٹ اس غایت آفرین کا مطیع ہونا چاہئے اور ہر شے کی قدر و قیمت کا معیار یہی ہونا چاہئے کہ اس میں حیات بخشی کی صلاحیت کتنی ہے۔ ارفع آرٹ وہی ہے جو ہماری خوابیدہ قوتِ عزم کو بیدار کر ے اور ہمیں زندگی کی آزمایشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ترغیب دے۔ لیکن وہ سب کچھ، جس کے اثر سے ہم اونگھنے لگیں اور جو جیتی جاگتی حقیقتیں ہمارے گرد و پیش موجود ہیں، ان کی طرف آنکھوں پر پٹی باندھ لیں، انحطاط اور موت کا پیغام ہے۔ آرٹ میں افیون نوشی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔ یہ نعرہ کہ آرٹ برائے آرٹ یا آرٹ برائے قائم بالذات ہے، انفرادی و اجتماعی انحطاط کا ایک عیارانہ حیلہ ہے اور اس لئے تراشا گیا ہے کہ ہم سے زندگی اور قوت دھوکا دے کر چھین لی جائے۔ پس آنحضورؐ نے عنترہ کے شعر کی خوبی کا اعتراف کر کے ہم پر ہر نوع کے آرٹ کے ارتقا کے اصل الاصول کی ؤضاحت کر دی ہے۔
علامہ اقبال۔ زندہ رود از ڈاکٹر جاوید اقبال۔ صفحہ، 241، 242
No comments:
Post a Comment