السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة
Shehar-e-Barbad ki Dahool By Dr.Shabir Shah Syed
ہم افغانیوں کی ایسی ہی کہانی ہے۔ اب کوئی وطن نہیں ہے ہمارا، نہ کوئی زمین ہے۔ ساری دنیا میں جس طرح سے ہم لوگ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں ایسے تو کوئی بھی نہیں ہوا ہوگا۔ ہماری خواتین ہوٹلوں میں کام کر رہی ہیں۔ ہماری قوم بین الاقوامی سطح پر مفلوک الحال ہو کر رہ گئی ہے۔ اچھوت، جنھیں کوئی چھو نہیں سکتا، جن سے لوگ نفرت کرتے ہیں، جو خود اپنا وقار اپنی نظروں میں کھو چکے ہیں۔"
اس نے ٹشو پیپر نکال کر آنسو پونچھے اور بڑی گلوگیر آواز میں بولا:
"سب ختم ہو گیا افغانستان میں۔ بڑی عجیب کہانی ہے میری۔ میں کابل یونیورسٹی میں فزکس پڑھاتا تھااور اب واشنگٹن کی سڑکوں پرٹکسی چلاتا ہوں۔ کابل یونیورسٹی کے پروفیسر کپڑوں اور قالینوں کا بازار لگاتے ہیں، اسکول استاد برگر بیچتے ہیں اور ہوٹلوں میں ویٹر بن گئے ہیں۔ فوج کے کرنل اور جنرل اور ائر کموڈر دنیا کے شہروں شہروں میں مسافر بن کر وظیفوں پر زندہ ہیں۔
ہماری بچیاں جو وہاں پر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں یہاں بڑے بڑے اسٹوروں میں سیلز گرلز بن گئی ہیں۔ یہ ہو رہا ہے افغانستان کے ساتھ۔ دنیا کے ہر ملک میں افغانی موجود ہیں۔ وہ ہر کام کرتے ہیں۔ جھاڑو لگانے سے لے کر عزت بیچنے تک۔ پیٹ سب کچھ کراتا ہے۔ میرے جیسے نہ جانے کتنے لوگ کہاں کہاں پر کس کس طرح کیا کیا کر رہے ہیں ، نہ آپ کو اندازہ ہے اور نہ ہی ان لوگوں کو اندازہ ہے جو ان سب چیزوں کے ذمہ دار ہیں۔ اور افغانستان میں جو ہو رہا ہے اس کی تو مثال ہی شاید کہیں بھی نہیں ملے گی ۔۔۔ "
اقتباس از افسانہ : شہرِ برباد کی دھول (ڈاکٹر شیر شاہ سید
Shehar-e-Barbad ki Dahool By Dr.Shabir Shah Syed
No comments:
Post a Comment