Showing posts with label Education. Show all posts
Showing posts with label Education. Show all posts

Sunday, September 6, 2015

Child sexual abuse ..

Child sexual abuse

British educational institutions increased incidence of child sexual abuse

لندن: برطانوی اسکولوں میں گزشتہ 3 برسوں میں 600 سے زائد بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی جس میں بچے ہی ملوث پائے گئے ہیں۔
برطانیہ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسکولوں میں جنسی بنیادوں کے 5500 واقعات اور 4000 حملے بھی ہوئے ہیں جن میں نازیبا ٹیکسٹ بھیجنے، اپنی اور دوسروں کی اخلاق باختہ تصاویر ایم ایم ایس کرنے اور فحش باتوں کی تشہیر شامل ہیں۔ رپورٹ کرنے والے 1,500 متاثرین بچوں کی عمر 13 یا اس سے بھی کم رپورٹ کی گئی ہے۔
برطانیہ میں بچوں کے تحفظ کی تنظیم این ایس پی سی سی کے مطابق بچے انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھ کر حقیقی زندگی میں ان پر عمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ بہت خوفناک رحجان ہے۔ تھوڑے بڑے بچے انٹرنیٹ پر موجود ویڈیوز دیکھ کر خود ایسے کام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے جب کہ بہت ہی کم عمری اور پرائمری کلاسوں کے طالب علم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خود انہیں اس کا شعور بھی نہیں ہوتا۔
برطانوی خبررساں ایجنسی کو ایک طالبہ نے بتایا کہ اسے اسکول کے اسٹور روم میں اس وقت ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا جب اس کی عمر صرف 15 سال تھی اور ایک اور لڑکے نے بتایا کہ اسکول خالی ہونے پر اس کے 3 دوستوں نے اس پر جنسی حملہ کیا تھا۔

Wednesday, August 19, 2015

Spain gave the shepherds schools ..

Shepherds Schools

Spain gave the shepherds schools

Spain gave the shepherds schools
ایگوئیرو اسپین: خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں کم از کم چار اسکول ایسے ہیں جہاں چرواہوں کو اسکولوں میں تعلیم دی جانے لگی ۔
چرواہوں کو ان کے پیشے کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے جس کا مقصد چراگاہوں کو باقی رکھنا ہے جن کی تعداد 1982 سے 2009 کے دوران 3964 سے کم ہوکر 2085 رہ گئی ہے،کورس کے دوران چرواہوں کو ایک ماہ تک کلاس میں جانوروں کی غذا اور بیماریوں جیسے موضوعات پر لیکچر دیے جاتے ہیں اور پھر ان طالب علموں کو پریکٹیکل کے لیے چراگاہوں میں بھیجا جاتا ہے جہاں وہ چار ماہ تک کسی تجربہ کار چرواہے سے تربیت حاصل کرتے ہیں۔

Shepherds Schools


Monday, August 17, 2015

'Homework will take the child to school!'

اسکول کے بچوں کو گھر کا کام ( ہوم ورک) دینے کی روایت بہت پرانی ہے جو دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔ مگر برطانیہ میں کئی برس سے اس روایت کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے۔
والدین ہوم ورک اور چھٹیوں کے کام کو بچوں پر اضافی بوجھ قرار دیتے ہیں۔ اس رجحان کو دیکھتے ہوئے نئے کھلنے والے اسکولوں میں ہوم ورک کے بجائے تدریسی اوقات کے بعد غیرنصابی سرگرمیوں کی روایت اپنائی گئی۔ کینٹ کاؤنٹی میں، 2007ء میں قائم ہونے والی فوک اسٹون اکیڈمی میں بھی یہی اقدام کیا گیا تھا۔ مذکورہ درس گاہ میں ہفتے میں چار دن سہ ساڑھے تین بجے سے شام پانچ بجے تک طلبا، ہوم ورک کے متبادل کے طور پر غیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
چند ہفتے قبل اسکولوں میں تعلیمی معیار کی نگرانی کرنے والے ادارے Ofsted نے   اکیڈمی کی انتظامیہ کو متنبہ کیا ہے کہ ادارے میں تعلیم کا معیار گر رہا ہے، جسے بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ چناں چہ غوروخوض کے بعد تعلیمی ادارے کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ ماہ سے شروع ہونے والی ٹرم سے تدریسی اوقات کے بعد غیرنصابی سرگرمیوں کا سلسلہ ختم کردیا جائے گا، اور طلبا کو باقاعدگی سے ہوم ورک کرنے کے لیے دیا جائے گا۔
انتظامیہ کے اس فیصلے نے طلبا کے والدین کو چراغ پا کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہوم ورک سے بچوں کے ذہنوں پر بوجھ پڑے گا اور وہ اہل خانہ کے ساتھ وقت نہیں گزار سکیں گے۔ اس کے علاوہ ہوم ورک کے دباؤ کی وجہ سے ان کی صحت پر بھی برا اثر پڑ سکتا ہے۔ فوک اسٹون اکیڈمی کی انتظامیہ کی نئی پالیسی کے خلاف طلبا کے والدین اکٹھے ہوگئے ہیں۔ انھوں نے ایک درخواست تیار کی ہے جس میں انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے، ورنہ وہ بچوں کو اسکول سے اٹھالیں گے۔ فوک اسٹون اکیڈمی میں 1600 طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے 600 بچوںکے والدین اب تک درخواست پر دستخط کرچکے ہیں۔
تعلیمی ادارے کی انتظامیہ نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مضامین کی مقررہ مدت میں تکمیل کے لیے ہوم ورک دینا ضروری ہوگیا ہے۔ ہیڈٹیچر وارین اسمتھ کے مطابق ہوم ورک اکیڈمی کی ویب سائٹ پر دست یاب ہوگا، اور طلبا آن لائن ہی ہوم ورک کرسکیں گے۔
کینٹ کے شہری لِن کنگ کی تیرہ سالہ بیٹی فوک اسٹون کی طالبہ ہے۔ لِن کا کہنا ہے کہ اس نے مذکورہ اسکول میں اس لیے اپنی بیٹی کا داخلہ کروایا تھا کہ یہاں ہوم ورک دینے کی روایت نہیں تھی۔ اب اگر ہوم ورک کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو اس کی بیٹی کے پاس آرام کرنے اور فیملی کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت نہیں بچے گا۔
ہنری ڈیوڈ کا بیٹا بھی اسی اسکول میں زیرتعلیم ہے۔ ہنری کا کہنا ہے کہ اس کے گھر میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے۔ نئی پالیسی کی وجہ سے اسے انٹرنیٹ کی سہولت لینی ہوگی جس سے اس کا گھریلو بجٹ متاثر ہوگا۔ کیتھرین اور مائیکل کے چار بچے ہیں، مگر ان کے گھر میں کمپیوٹر ایک ہی ہے۔ کیتھرین کا کہنا ہے کہ ایک کمپیوٹر پر چار بچوں کے لیے باری باری ہوم ورک کرنا مشکل ثابت ہوگا، اور وہ ہر بچے کو الگ کمپیوٹر خرید کردینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

Thursday, July 30, 2015

Express education and carrier expo 2015,, By Yousaf Abbasi ..


Ali Humza inqilabi,, By Javed Chaudhry ..


Heat deaths in Karachi ..

کراچی میں گرمی سے ہلاکتیں؛ گلوبل وارمنگ اور گرم موسم کا عادی نہ ہونا وجوہ قرار


کراچی میں گزشتہ دنوں گرمی کی شدید لہر کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونیوالے انسانی جانوں کے ضیاع کی سائنسی وجوہ معلوم کرنے کیلیے بنائی گئی ماہرین پر مشتمل کمیٹی نے اپنی تحقیقات پر مبنی رپورٹ اور سفارشات وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مشاہداللہ خان کو پیش کردیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گرمی کی شدید لہر کی اصل وجہ گلوبل وارمنگ کے باعث موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات تھے، انسانی جانوں کے ضیاع کی بنیادی وجہ وہاں کے لوگوں میں گرمی کی شدت کو برداشت کرنے عادت اور صلاحیت نہ ہونا تھی، عموماًگرمی کی لہر3 سے5 دنوں پر محیط ہوتی ہے ۔
جس دوران موسم شدید گرم اور مرطوب ہوتا ہے، کراچی میں گرمی کی شدید لہر کے دوران عموماًدرجہ حرارت45 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہا لیکن اس دوران ہوا کا کم دباؤ،ہوا کی رفتار میں کمی اور نمی کی تناسب میں اضافے کے باعث ہیٹ انڈیکس تقریباً66 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا گیا ۔
جس کے باعث لوگوں کو سانس لینے میں دشواری کا سامنا رہا۔ ماہرین کے مطابقپانی سپلائی نہ ہونے اور کے الیکٹرک میں بریک ڈاؤن انسانی جانوں کے ضیاع میں اضافے کا جواز نہیں۔رپورٹ میں سفارشات کی گئیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلیے حفاظتی اقدمات کرنے کی ضرورت ہے۔
علاقائی سطح پر آگاہی مہم شروع کی جائے، لوگوں کو تربیت دی جائے، تعلیمی نصاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے سے متعلق مضامین شامل کیے جائیں، سبزہ اور پودوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے، عوامی مقامات پر کول سینٹر تعمیر کیا جائے، گرمی سے متاثر ہونیوالے علاقوںمیں ہیٹ اور ہیلتھ الرٹ وارننگ سسٹم بنایا جائے۔

Madre millat Fatima Jinnah ..