جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو ایک ادھیڑ عمر کا شخص جس کا رنگ گندمی اور ماتھے پر بڑھاپے اور پریشانی سے لکیریں پڑہی ہوئیں تھیں ۔ وہ اسکول میں لچھے بیچنے آیا کرتا تھا ۔ اس کے بنائے ہوئے رنگ برنگ کےلچھے ہم سب کے من پسند تھے ۔ وہ ہمیں ان چینی کے بنے فومی لچھوں کے طوطے ، بطخیں اور طرح طرح کے جانور بھی بنا کر دیا کرتا تھا ۔ ہم اس سے آنے آنے کے لچھے کھاتے اور وہ بڑے ہی پیار سے ہم سے پیش آتا تھا ۔ مجھے اب بھی اس کی بات یاد ہے اور جب ایک سپر پاور نے افغانستان پر حملہ کیا تو بڑی شدت سے یاد آئی حالانکہ میں اسے کب کا بھول چکا تھا ۔ ہم سب بچوں سے وہ لچھے والا کہنے لگا ۔
" کاکا تسیں وڈے ہو کے کیہہ بنو گے ۔ "
ہم سب نے ایک آواز ہو کر کہا کہ " ہم بڑے افسر بنیں گے " ۔
کسی بچے نے کہا میں " فوجی بنوں گا " ۔
وہ ہم سے پیار کرتے ہوئے بولا " پتر جو وی بنو ، بندے مارنے والے نہ بننا ۔ بندے مارن نالوں بہتر اے تسی لچھے ویچن لگ پینا پر بندے مارن والے کدی نہ بننا " ۔
اشفاق احمد زاویہ 3 لچھے والا صفحہ 31
" کاکا تسیں وڈے ہو کے کیہہ بنو گے ۔ "
ہم سب نے ایک آواز ہو کر کہا کہ " ہم بڑے افسر بنیں گے " ۔
کسی بچے نے کہا میں " فوجی بنوں گا " ۔
وہ ہم سے پیار کرتے ہوئے بولا " پتر جو وی بنو ، بندے مارنے والے نہ بننا ۔ بندے مارن نالوں بہتر اے تسی لچھے ویچن لگ پینا پر بندے مارن والے کدی نہ بننا " ۔
اشفاق احمد زاویہ 3 لچھے والا صفحہ 31
No comments:
Post a Comment