امجد اسلام امجد
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے
فصلِ گل آئی، پھر اِک بار اسیرانِ وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے
ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے
عمر گذری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس افق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے
کوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوس
خواب یو ں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے
دل نے اِک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
تونے اک بات کہی، لاکھ فسانے نکلے
دشتِ تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہا ئے کیا لوگ مرا ساتھ نبھانے نکلے
میں نے امجد اسے بےواسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے
No comments:
Post a Comment