Tuesday, February 26, 2013

Kush "Mumtaz Mufti" Ki "Talaash" Say...

ایک دن قدرت اللہ شہاب بڑے اچھے موڈ میں تھے ۔ کہنے لگے مائو واقعی بڑا آدمی تھا۔ ''آپ کو کیسے پتہ ہے؟'' میں نے پوچھا کہنے لگے ایک بار میں ان سے ملا تھا۔ ہوایوں کہ میں چین کے دورے پر گیا 

تو وہاں میں نے انتظامیہ سے درخواست کی کہ اگر آسانی سے ممکن ہو تو مجھے مائو صاحب سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان سے ملنے کا کوئی خاص مقصد ہے کیا؟ میں نے کہا نہیں، بالکل نہیں۔ ان سے ملنے کا کوئی خاص مقصد نہیں۔ میں انہیں بڑا آدمی سمجھتا ہوں اور ان کا احترام کرتا ہوں۔ میں انہیں عام مداح کی حیثیت سے ملنا چاہتا ہوں۔ قدرت اللہ شہاب نے کہا کہ انتظامیہ کے رویے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ بات ٹال دی جائے، بہرحال انہوں نے بڑی سوچ بچار کے بعد مجھے مائو سے ملنے کی اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ وہ نحیف ہوچکے ہیں اور لمبی ملاقات کے متحمل نہیں ہوسکتے، لہٰذا آپ ملاقات کو طول نہ دیں۔ 

قدرت اللہ نے کہا میرا خیال تھا کہ مائو کسی شاہی حویلی میں مقیم ہوں گے لیکن وہ مجھے ایک عام سی آبادی میں لے گئے۔ ایک عام سی گلی کے ایک عام سے کوارٹر میں وہ مقیم تھے۔ مجھ سے مل کر وہ بہت خوش ہوئے۔انہوں نے پہلا سوال مجھ سے یہ کیا کہ کہنے لگے کیا یہ ملاقات کسی خاص مقصد کے لیے ہے ؟ میں نے کہا نہیں! جناب کوئی مقصد نہیں۔ میں تو آپ کا ایک مداح ہوں اور اظہار تعظیم کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ یہ سن کر ان کی خوشی دوچند ہوگئی اور وہ کھل کر باتیں کرنے لگے۔ ان کی باتوں میں بچوں کی سی معصومیت تھی۔ کمیونزم اور خدا باتوں کے دوران میں نے کہا

اگر آپ برانہ مانیں تو میں ایک سوال پوچھوں۔ ''بالکل پوچھیے۔'' انہوں نے کہا ۔ میں نے عرض کی کہ آپ نے جو اپنی تحریک کو God-Lessرکھا، کیا اس کا کوئی خاص مقصد تھا؟ وہ مسکرا کر بولے: یہ سوال ہماری مجلس میں اٹھایا گیا تھا۔ وہاں اختلاف رائے تھا۔ کوئی کسی خدا کے حق میں تھا، کوئی کسی اور کے، اس لیے فیصلہ ہوا کہ اس ایشو کا فیصلہ اگلی میٹنگ میں کیا جائے۔ ہرکوئی اپنا مشورہ لکھ کر لے آئے۔ مائو نے کہا: میں فلسفے کا طالب علم ہوں اور تمام مذاہب کا مطالعہ کرچکا ہوں۔ 

اس لیے میری دانست میں کمیونزم کے پیچھے اسلام کے خدا کے سوا کوئی خداقائم نہیں کیا جاسکتا تھا، لہٰذا میں نے اس موضوع پر ایک مقالہ تیار کرلیا تاکہ اسے اگلی مجلس میں پیش کردوں۔ پتہ نہیں کیسے ہمارے پروگرام کا انگریزوں کو علم ہوگیا۔ انہوں نے ہندوستان کے علمائے دین سے کمیونزم کے خلاف فتوے حاصل کیے۔ یہ فتوے بہت متشدد تھے۔ انہوں نے ان فتووں کو شائع کرکے لاکھوں ہینڈ بل ہوائی جہاز کے ذریعے گرادیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب ہماری مجلس کی نشست ہوئی تو ہررکن کی میز پر ہینڈ بل پڑا تھا، لہٰذا میرا مقالہ پڑھنا آئوٹ آف کوسچن ہوگیا۔ قدرت اللہ نے مائو سے پوچھا: کیا میں آپ کے اس بیان کا حوالہ دے سکتا ہوں؟ مائو نے سرنفی میں ہلادیا۔ کہنے لگے میری زندگی میں نہیں۔ 

ایک روز میں نے قدرت اللہ سے پوچھا کہ فرض کیجئے مائو کا مشورہ قبول کرلیا جاتا اورکمیونزم اسلام کے خدا کو سرکاری طورپر تسلیم کرلیتا تو نتیجہ کیا ہوتا؟ قدرت اللہ نے جواب دیا کہ کمیونزم کبھی اللہ کو قبول نہ کرتا۔ اگر کرلیتا تو ساتھ ہی اسلام کو قبول کرنا پڑتا اور اگر اسلام کو قبول کرلیتا تو اس کا اپنا تشخص ختم ہوجاتا۔ 

(ممتاز مفتی کی ''تلاش''سے اقتباس )

No comments:

Post a Comment