السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة
اس زمانے میں بچے نوکر نہیں پالتے تھے، مائیں پالتی تھیں۔
غریب مائیں، امیر مائیں، بھونڈی اور پھوہڑ مائیں، بیماراور اپاہج مائیں، پاک باز اور طوائف مائیں سبھی اپنے بچے خود پالتی تھیں۔
ان کے پاس بچے پالنے کا سستا اور آسان نسخہ تھا کہ وہ گھر سے باہر نہیں نکلتی تھیں۔
بچے اپنی اپنی ماں سے چالیس پینتالیس گز کے ریڈیس میں کہیں بھی جاتے، کہیں بھی ہوتے، کہیں بھی کھیلتے ان کو اچھی طرح سے معلوم ہوتا تھا کہ مشکل وقت میں ان کی پکار پر اماں بجلی کی طرح جھپٹ کر مدد کے لیے آموجود ہوگی اور وہ اپنی مشکل اپنی ماں کے گلے میں ڈال کر گھر کے اندر کسی محفوظ کونے میں پہنچ جائیں گے۔
اس زمانے کی مائیں بچوں کو اپنی عقل و دانش سے یا نفسیاتی ذرائع سے یا ڈاکٹر سپوک کی کتابیں پڑھ کر نہیں پالتی تھیں بلکہ دوسرے جانوروں کی طرح صرف مامتا کے زور پر پالتی تھیں ۔
بچے بھی کھلونوں، تصویروں، ماؤں کی گودیوں اور لمبی لمبی کمیونی کیشنوں کے بغیر پروان چڑھتے تھے اور ذہنی، جسمانی اور روحانی طور پر بڑے ہی سرسبز ہوتے تھے ۔
ان کے پاس یقین کی ایک ہی دولت ہوتی تھی کہ ماں گھر پر موجود ہے وہ ہر جگہ سے ہماری آواز سن سکتی تھی ۔
جس طرح پکے پکے خدا پرست کو پورا پورا یقین ہوتا ہے کہ خدا اس کے حلقے میں ہر وقت موجود ہے اور وہ جب اسے پکارے گا، رگ جان سے بھی قریب پائے گا اسی طرح بچے کو بھی اپنی پکار اور ماں کے جواب پر مکمل بھروسہ ہوتا تھا!
از اشفاق احمد، صبحانے فسانے ،عنوان اماں سردار بیگم ، صفحہ نمبر
8
No comments:
Post a Comment