السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة
میں نے محسوس کیا کہ مرشد ایک بہت ہے سمجھدار ، عقلمند اور زیرک بابا ہوتا ہے - وہ تم کو دانش سے قائل نہیں کرتا کیونکہ دانش کی ایک حد ہوتی ہے -
اور دانش تم کو دور نہیں لے جا سکتی - تمہارا سارا سامان اٹھا کر پہاڑ کےدامن تک جا سکتی ہے اس سے آگے کام نہیں دیتی -
چوٹی تک پہنچنے کے لئے پہلے ٹٹو سے کام لینا پڑتا ہے ، پھر پیدل چلنا پڑتا ہے - ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ پیدل چلنے کا راستہ بھی مسدود ہو جاتا ہے پھر کمند پھینک کر اور کیلیں ٹھونک ٹھونک کر اوپر اٹھنا پڑتا ہے -
پھر ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دانش اور عقل کی باتوں سے تو تم سمجھ ہی جاؤ گے کیونکہ اس میدان کے تم پرانے شہسوار ہو اور اس معاملے میں تمہاری کافی پریکٹس ہے -
علم سے تو تم قائل ہو ہی جاؤ گے لیکن یہ قائل ہونا تمہارے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکے گا -
تم عقلی طور پر معقول ہو جاؤ گے لیکن اصلی طور پر نہیں -
ایک روز جب بابا جی جب وضوکرنے کی غرض سے مسجد کی تپنی پر بیٹھے تھے میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھا
" حضور! باطن کا سفرمرشد کی معیت کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے ؟
وہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور میرے رسیونگ سنٹر کے ٹیون ہونے کا انتظار کرتے رہے اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر بولے
کیا جا سکتا ہے لیکن وہ صرف ایک راستہ ہے
" وہ راستہ ہے عاجزی کا اور انکساری کا - حضرت آدم کی اس سنت کا جب وہ شرمندگی سے سر جھکائے اور عجز کے ہاتھ سینے پر باندھے الله کے حضور میں حاضر ہو کر بولے مجھ سے بڑی بھول ہو گئی "
بابا جے نے کہا ! بس یہی ایک طریقہ ہے اور رویہ ہے جسے اپنا کر مرشد کے بغیر باطن کا سفر کیا جا سکتا ہے -
" پھر آپ درختوں سے ، پرندوں سے ، پہاڑوں سے ، دریاؤں سے درس لے سکتے ہیں - پتھروں سے بادلوں سے ٹھوکروں سے گیان حاصل کر سکتے ہیں - پھر تو ساری دنیا آپ کو سبق دے سکتی ہے - ساری کائنات آپ کو رمز آشنا بنا سکتی ہے - "
از اشفاق احمد بابا صاحبا صفحہ ٣٣٢
No comments:
Post a Comment