السلام عليكم و رحمة الله و بركاتة
میں ایسے لوگوں کے آٹو گراف لینے کا خواھشمند ہوں جن پر دنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں ہے - میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں ان پر دستخط توکم لوگوں کے ہیں مگر انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں -
کسی لکڑہارے کا انگوٹھا ہے - کسی ترکھان کا ہے - کسی قصائی کا ہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں -
ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں آنے والے چھوٹے سے شہر مصطفیٰ آباد للیانی سے لگوایا -
میرے منجھلے بیٹے کو پرندوں کا بڑا شوق ہے - اس نے گھر میں پرندوں کے دانے کھانے کے ایسے ڈبے لگا رکھے ہیں جن میں سے خود بخود دانے ایک ایک کر کے گرتے رہتے ہیں اور پرندے شوق سے آ کر کھاتے رہتے ہیں -
جب ہم قصور سے لاہور آ رہے تھے تو اس نے للیانی میں ایک دکان دیکھی جس میں پانچ پانچ کلو کے تھیلے پڑے ہوئے تھے - جن میں باجرہ اور ٹوٹا چاول بھرے ہوئے تھے اس نے مجھ سے کہا ابو یہ پرندوں کے لئے بہت اچھا دانا ہے -
میرا بیٹا اس دکان سے چاول اور باجرہ لینے گیا تو اس نے پوچھا کے آپ کو یہ باجرہ کس مقصد کے لئے چاہئے تو میرے بیٹے نے اسے بتایا کہ پرندوں کو ڈالنے کے لئے -
اس پر دکاندار نے کہا کہ آپ کنگنی بھی ضرور لیجئے کیونکہ کچھ خوش الحان پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو باجری نہیں کھا سکتے بلکہ کنگنی کھاتے ہیں -
وہ بھی پھر کنگنی کھانے آپ کے پاس ضرور آیا کریں گے -
اس نے کہا بسم اللہ آپ کنگنی ضرور دیں اور اس رہنمائی کا میں آپ کا عمر بھر شکر گزار رہونگا -
وہ چیزیں لے کر جب اس نے پرس نکالنے کی کوشش کی تو نہ ملا -
جیبوں، گاڑی ، آس پاس ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہ ملا - تب وہ تینوں تھیلے گاڑی سے نکال کر دکاندار کے پاس لے گیا اور کہا کہ میں معافی چاہتا ہوں میں تو اپنا بٹوا ہی بھول گیا ہوں -
اس دکاندار نے کہا کہ " صاحب آپ کمال کرتے ہیں یہ لے جائیں پیسے آجائیں گے "
میرے بیٹے نے کہا آپ تو مجھے جانتے نہیں ہیں !
وہ دکاندار بولا میں تو آپ کو جانتا ہوں
وہ کیسے میرے بیٹے نے کہا
دکاندار گویا ہوا " صاحب جو شخص پرندوں کو دانا ڈالتا ہے وہ بے ایمان نہیں ہو سکتا - "
میں نے جھٹ سے اپنی آٹو گراف بک نکالی اور انگوٹھا لگوا لیا -
از اشفاق احمد زاویہ ٢ آٹو گراف صفحہ ٢٥١
No comments:
Post a Comment